ہندوستانی مسلمان:حصولِ تعلیم کے ذوق و شوق سے سرشار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
ہندوستانی مسلمان
ہندوستانی مسلمان

 

پروفیسر اخترالواسع  Akhterul wase

تقسیم وطن کا سب سے منفی اثر ہندوستانی مسلمانوں پر یہ پڑا کہ ان کے پڑھے لکھے سماجی اور معاشرتی طور پر سربرآوردہ لوگوں کی بڑی تعداد نقلِ مکانی کرکے سرحد پار چلی گئی اور اس سے جو خلا پیدا ہوا اس کو آج تک پر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کی بڑی تعداد میں اس ہجرت نے ہندوستان میں رہ رہے مسلمانوں کے لیے غربت اور جہالت کے چیلینج کھڑے کردیے اور تقسیم وطن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی منافرت نے جس عناد و فساد کو جنم دیا اس میں جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ ایسے میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے باقاعدہ کوئی ایجنڈا تیار کرنا آسان نہ تھا۔ سرکاروں نے بھی مسلمانوں کے محلوں میں اسکول کم اور تھانے زیادہ کھولے۔ بس خیر یہ ہوئی کہ لوگ بھلے ہی چلے گیے ہوں لیکن ان کے بزرگوں کے بنائے ہوئے تعلیمی ادارے یہیں رہ گیے جس کی وجہ سے کتنا مدھم ہی سہی حصولِ تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔

علی گڑھ، جامعہ، انجمن اسلام اور اسی طرح جنوبی ہندوستان میں موجود تعلیمی ادارے انتہائی دشوار گزار ماحول میں بھی مسلمانوں کی شرح خواندگی کے لیے اپنی جیسی کوششیں کرتے رہے۔ بڑی ناسپاسی ہوگی اگر اس میں مدارسِ اسلامیہ نے جو غیرمعمولی رول انجام دیا اس کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ ان مدارس نے خاص طور سے ان مسلمانوں کے بچوں کو خواندہ بنانے کے لیے غیرمعمولی خدمات انجام دیں جو علمی اعتبار سے ہی نہیں معاشی اعتبار سے بھی غریب کیا بلکہ خط افلاس کی حد سے بھی نیچے تھے۔ مدرسوں نے ان بچوں کو مفت میں رہائش اور کھانے کی سہولتوں کے ساتھ تعلیم دی اور ایک بڑی خدمت یہ بھی انجام دی کہ اردو زبان کو ذریعہئ تعلیم بناکر ایک اردو کُش ماحول کے باوجود اردو زبان کو مرنے نہ دیا اورآج اردو کو جو قاری میسر ہیں ان کی بڑی تعداد وہ ہے جو مدرسوں کی تعلیم کی رہینِ منت ہے۔

کہتے ہیں رات کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو سویرا ضرور ہوتاہے اورجلد ہی مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ تعلیم کے علاوہ کوئی راہِ نجات نہیں ہے۔ اس لیے تعلیمی اداروں کی طرف مسلمانوں کی رغبت بڑھی، داخلوں کے لیے ان کے جذبے اور شوق میں ایک نئی وارستگی آئی۔ پرانے اداروں کے ساتھ نئے ادارے وجود میں آنے شروع ہوئے اور اس میں بھی ایک خوش گوار تبدیلی یہ دیکھنے کو ملی کہ مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کو آہستہ آہستہ ایک نئی سمت اور رفتار دیکھنے کوملی۔ کشمیر سے کنیا کماری تک، گجرات سے آسام تک مسلمانوں نے نئے تعلیمی ادارے قائم کیے اور پرانے اداروں کو نئی سرفرازیاں حصے میں آئیں۔ مثال کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ جو 1963میں ڈیمڈ ٹو بی یونیورسٹی بنی تھی 1988میں اس کو باقاعدہ اور باضابطہ ایک مرکزی یونیورسٹی کا درجہ مل گیا۔ اتنا ہی نہیں 1988ہی میں ہمدرد کے تعلیمی اداروں کو یکجا کرکے ڈیمڈ ٹو بی یونیورسٹی قرار دے دیا گیا۔ مہاراشٹرا میں نئی تعلیمی انجمنیں اور ادارے وجود میں آنے لگے۔

جنوبی ہند میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشن سوسائٹی نے علم کی نئی جوت جگائی۔ الامین نے کرناٹک میں ایک نئی ادارہ سازی کی جس میں انجینئرنگ اور میڈیکل کی تعلیم بھی شامل تھی۔ آندھر پردیش میں عثمانیہ یونیورسٹی کے بحق سرکار ضبط ہو جانے کے باوجود بھی وہاں کے مسلمانوں نے اپنی کوششوں اور حوصلوں میں کمی نہ آنے دی اور تعلیم کے میدان میں اپنی امنگوں اور آرزوؤں کو نئے افق عطا کیے۔ بہار، بنگال، آسام اور میگھالیہ میں بھی مسلمانوں نے اپنے بَل پر نئے ادارے قائم کیے۔ تامل ناڈو میں صرف چنّئی میں ہی ایسی آئی ای ٹی ویمنس کالج، نیو کالج اور بی ایس عبدالرحمن یونیورسٹی مسلمانوں میں تعلیم کے تئیں ترقی پسندانہ سوچ کی زندہ مثالیں ہیں۔ میل ویشارم، وانم باڑی، ویلّور، کوئمبٹور اور دیگر علاقوں میں تعلیمی اداروں کی موجودگی اور کارکردگی بہت خوش آئند ہے۔

لکھنؤمیں جناب وسیم اختر کی کوششوں اور مولانا سعید الرحمن اعظمی کی سرپرستی میں انٹیگرل یونیورسٹی کا قیام، سہارنپور میں گلوکل یونیورسٹی، دھوج ہریانہ میں جواد صدیقی کی کوششوں کا ثمرہ الفلاح یونیورسٹی اور اسی طرح راجستھان کے جودھپور میں مارواڑ مسلم ایجوکیشنل اینڈ ویلفئر سوسائٹی کے قائم کردہ تعلیمی ادارے جن کا منتہائے عروج مولانا آزاد یونیورسٹی کا قیام ہے، تعلیم کے باب میں مسلمانوں کی نئی سوچ اور کوششوں کے غماز ہیں۔ اسی طرح حیرت انگیز حد تک خوش گوار تبدیلی یہ آئی ہے کہ خانقاہوں اور درگاہوں کے سجادگان نے جدید تعلیم کے قابلِ تقلید اور مثالی ادارے قائم کرنے شروع کر دیے ہیں۔ چاہے نقشبندی اور مجدّدی سلسلے کی جے پور میں قائم کردہ جامعہئ ہدایت ہو، یا علی گڑھ اور مارہرہ میں قادریہ برکاتیہ سلسلے کے شاندار تعلیمی ادارے ہوں یا چشتیہ نظامیہ سلسلے کی درگاہ کے ذریعہ گلبرگہ میں قائم شدہ خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی ہو یارفاعی سلسلے کے گجرات اور جنوبی ہند میں تعلیمی ادارے، یا اجمیر میں خواجہ غریب نوازکی درگاہ کمیٹی کی جانب سے قائم کردہ خواجہ ماڈل اسکول اور کمپیوٹر سینٹر یہ سب اس بات کے شاہد ہیں کہ جدید تعلیم کے فروغ کے لیے مسلمان ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔

یہ معاملہ کہ جدید تعلیم کو فروغ دیا جائے صرف خانقاہوں اور درگاہوں تک محدود نہیں ہے بلکہ قدیم تعلیم یافتہ اور دینی زندگی میں جانے مانے مسلم اکابرین دینی تعلیمی اداروں کو مستحکم کرنے کے ساتھ جدید تعلیم پھیلانے میں کافی سرگرم ہیں۔ وہ چاہے اکل کوا(مہاراشٹرا) میں مولا غلام محمد وستانوی ہوں یاآسام میں مولانا بدرالدین اجمل، مالیگاؤں میں مرحوم مختار احمد ندوی سلفی کی ادارہ سازی یا مولانا ڈاکٹر کلب صادق کے لکھنؤ اور دیگر جگہوں پر قائم ادارے اسی طرح مولانا سید ارشد مدنی، مولانا سید محمود مدنی کے ذریعہ چلائے جا رہے جدید تعلیم کے نمائندہ ادارے، اسی طرح مالیر کوٹلامیں امجد علی، مظفر نگر اور دیوبند میں نواز دیوبندی، مبارکپور اعظم گڑھ میں ڈاکٹر شمیم احمد اور گڈو جمالی، ہنسور (ضلع امبیڈکر نگر) میں امولانا کلیم اللہ قاسمی اور بڑودہ (گجرات) میں عثمان غنی کی سرپرستی میں چلنے والے ادارے اس بات کے گواہ ہیں کہ مسلمان ہر قیمت پر جہالت کے داغ دھونے میں لگے ہوئے ہیں۔

اس مضمون میں جتنے اداروں، تنظیموں اور افراد کا تذکرہ آیا ہے وہ صرف دیگ کے چند چاولوں کی طرح ہیں ورنہ جدید تعلیم کے ذوق و شوق کی یہ داستان گلی گلی، محلے محلے، گاؤں گاؤں اور شہر شہر پھیلی ہوئی ہے اور مزید پھیلتی جا رہی ہے، اور اب مسلمانوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہ آدھی روٹی کھائیں گے مگر اپنے بچوں کو ضرور پڑھائیں گے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ یہ ہندوستان اور مسلمان دونوں کی ضرورت ہے۔ (مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)