ہندوستان اور یروشلم کے بادشاہ سلیمان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-06-2021
تین بڑے مذاہب کا مقدس شہر, جس کا ہندوستان سے گہرا تعلق ہے
تین بڑے مذاہب کا مقدس شہر, جس کا ہندوستان سے گہرا تعلق ہے

 

 

 رنجن مکھرجی /نئی دہلی

نوے کی دہائی میں ایک نوجوان کی حیثیت سے مجھے پہلی بار یورپ جانے کا اتفاق ہوا - اس نوجوان شخص کا طیارے سے نکلنے کے بعد پہلا مسئلہ یہ معلوم کرنا تھا کہ وہاں کوئی سبزی خور بھی ہے۔ ایک یہودی ساتھی مسافر نے میری رہنمائی کی اور مختلف دکانوں پر لے گیا ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا یہاں کوئی ایسی چیز بھی دستیاب ہے جسے ایک سبزی خور بھی کھا سکے ؟- ہم جمعہ کے روز ویجیٹیرین کھانا تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میرے ساتھ مسافر نے کہا کہ جمعہ کے روز ہم یہودی برتنوں میں پکا ہوا پاک سبزی سے بنا ہوا کھانا کھاتے ہیں جس میں کبھی گوشت بھی نہ پکایا گیا ہو ۔ جمعہ ہمارا مقدس دن ہوتا ہے۔ ساتھی مسافر نے مزید کہا کہ ہفتے میں ایک دن گوشت نہ کھانے کا خیال شاید ہندوستان کا ہوسکتا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں لکھا ہے کہ یروشلم کی تعمیر کے لئے صندل کی لکڑی اور سونا بھی ہندوستان سے آیا ہوا تھا۔

اسرائیل پر شاہ سلیمان کی چالیس سالہ طویل حکومت خوشحال اور پُر امن رہی تھی ۔ اوفیر کے ساتھ اس کی وسیع تجارت تھی۔ اس کی درآمدات اتنے شاہانہ پیمانے پر تھی کہ کہا جاتا ہے کہ شاہ سلیمان نے یروشلم میں پتھروں کی طرح ہی چاندی کو بھی عام کردیا تھا۔ انہوں نے اوفیر سے "سونے چاندی ، ہاتھی کے دانت ، بندر اور مور کو لانے والے بحری جہازوں کا ایک بیڑا تیار کیا ہوا تھا ۔ اوفیر ایک بندرگاہ یا علاقہ ہے جس کا ذکر بائبل میں اس کی دولت کے سبب مشہور ہے۔ شاہ سلیمان کو ہر تین سال بعد اوفیر سے بحری جہازوں پر سامانوں کی کھیپ ملتی تھی ۔

یروشلم سے ہندوستان کا تعلق کافی پرانا ہے۔ یہ تعلق مسیح کی پیدائش سے بھی پہلے سے چلا آ رہا ہے ۔ تحقیق پر مبنی ایسے کئی شواہد موجود ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں۔ مور کے لئے عبرانی زبان میں لفظ توکھین ہے جو کہ تمل کے ٹوکل سے مشابہ ہے۔ یروشلم میں مور نہیں ہوتے تھے اس لئے عبرانی میں مور کے لئے کوئی لفظ نہیں تھا۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہندوستانی (تامل) سوداگر یروشلم کے ساتھ بحری تجارت کرتے تھے۔ مور ، کارتکیہ کا مسند ہے اور ریاست کے خدائی تحفظ کی علامت ہے۔ اوفیر کی شناخت غیر یقینی رہی ہے۔ اوفیر یا سوفر اصل میں ممبئی سے 37 میل شمال میں ہندوستان کے مغربی ساحل پر واقع مشہور بندرگاہ سورپورا (جدید سوپارا) ہے۔ یہ باسین کے شمال مغرب میں چار میل دور ہے جہاں بادشاہ اشوک کا ایک پتھروں پر لکھا حکم ملا تھا۔ اس کا ذکر مہابھارت ، بھاگوت ، پیروپلس وغیرہ میں موجود ہے۔

awazurdu

سونے کی کان کنی کی وسیع صنعت پورے جنوبی ہندوستان میں موجود تھی۔ کیپٹن لیونارڈ من نے اپنی کتاب مین ان انڈیا میں لکھا ہے ، “ روڈیشیا میں قدیم کام کے وسیع رقبے پر کان کنی اور سونے کے کوارٹج میں کمی کا طریقہ جنوبی ہندوستان کی طرح ہے۔ جنگل کے وسیع و عریض علاقے جو کہ روڈیشیا میں موجود ہیں ، ان کا افریقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ان جنگلات کے پیڑ جنوبی ہندوستان میں ملتے ہیں ۔ یہ بات خاص طور پر نوٹ کی جارہی ہے کہ وسیع علاقے جس پر یہ درخت اور پودے پھیل چکے ہیں ، روڈیشیا میں ہندوستان کے تعارف کی ابتدائی تاریخ کا واضح اشارہ ہے۔ ایک تامل کہاوت ہے جو پیسہ کمانے کے لئے سمندروں کو پار کرو ۔ سیلپاڈیکرم کہتے ہیں کہ تمل سرزمین کے ہر دارالحکومت میں چاند کے لئے وقف ایک مندر ہوتا تھا۔ ‘چاند کے لئے وقف کردہ مزارات سمندری تاجروں کی حفاظت کے لئے تھے۔ چاند کے اترنے کے سمندروں کی لہروں پر مہلک اثرات ہوتے ہیں جو مد و جذر کا سبب بنتے ہیں۔ سمندر میں تجارت کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے چاند کی پوجا کی جاتی ہے ۔ سیوا یا سومینتھا یا چاند کے دیوتا کی سمندر میں بحفاظت تجارت کے لئے پوجا کی جاتی تھی۔

پہلی صدی قبل مسیح کے آغاز میں ہی ہندوستانی (تامل) یروشلم کے ساتھ تجارت کر رہے تھے اور اسے شہنشاہ سلیمان کا شاندار دارالحکومت بنا دیا تھا۔ آج بھی یہ دنیا کے تین بڑے مذاہب کا مقدس شہر ہے ، جس کا ہندوستان سے گہرا تعلق ہے۔