ہند۔ انڈونیشیا بین المذاہب کانفرنس بنی میڈیا کی توجہ کا مرکز

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 30-11-2022
 ہند۔ انڈونیشیا بین المذاہب کانفرنس  بنی میڈیا کی توجہ کا مرکز
ہند۔ انڈونیشیا بین المذاہب کانفرنس بنی میڈیا کی توجہ کا مرکز

 

 

منصور الدین فریدی : آواز دی وائس

راجدھانی میں انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے زیر اہتمام ہندوستان اور انڈونیشیا کی بین المذاہب کانفرنس نے نے صرف دو ممالک کی تہذیبوں کی یکسانیت پر روشنی ڈالی بلکہ مذہبی رواداری اور امن کے پیغام کو اجاگر کیا۔  پوری دنیا کو ایک اہم  پیغام دیا کہ مذہبی رواداری اور  برداشت ، اتحاد اور امن ملک و قوم کی ترقی کے لیے سب سے اہم ہے - ساتھ ہی اس  میں مذہبی  اور روحانی قیادت ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے-

یہ ایک بڑی پہل تھی جس کے سبب قومی میڈیا میں اردو ،ہندی اور انگلش اخبارات نے نمایاں طور شائع کیا  اور ساتھ ہی اس پر  ادارتی آرا بھی پیش کی ہیں ۔

اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ اس بین المذاہب کانفرنس میں ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے غیر معمولی دلچسپی لی اور اس کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ انڈونیشیا کا وفد اجیت ڈوبھال کی دعوت پر ہی ہندوستان آیا تھا-

اردو اخبارات میں بھی یہ خبر صفحہ اول پر نظر آئی۔

 روزنامہ انقلاب  نے اس  کو اپنی پہلی خبر بنایا ۔ اخبار نے اجیت ڈوبھال  کے حوالے سے لکھا کہ ۔۔۔ جمہوریت  میں نفرت انگیزی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

awazurdu

 دہلی کے روزنامہ ’میرا وطن‘ نے بھی اس خبر کو پہلے صفحے پر شائع کیا۔ اخبار نے اجیت ڈوبھال کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ  ۔۔۔ اسلام امن  کا مذہب ہے جس میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ۔۔اخبار نے کانفرنس کی تفصیلی خبر شائع کی ۔

اخبار نے مزید لکھا کہ کانفرنس میں انڈونیشیا اور ہندوستان کے علماء نے اس بات پر اتفاق کیا گیا. ہندوستان اور انڈونیشیا میں مذہبی بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے عصری چیلنجوں کے ساتھ ساتھ غلط معلومات اور پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جو مختلف عقائد کے پیروکاروں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کو روک سکتا ہے۔

awazurdu

دہلی کے روزنامہ ’صحافت ‘ نے کانفرنس کو صفحہ اول کی پہلی خبر بنایا ۔ جس میں اجیت ڈوبھال کے اس بیان کو نمایاں طور پر پیش کیا کہ اسلام امن کا مذہب ہے جس میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

  اسی طرح  دہلی کے روزنامہ ’قومی صحافت ‘نے بھی اس کو پہلی خبر بنایا ہے ۔ساتھ ہی اجیت ڈوبھال کے اسلام کے تعلق سے بیان کو اہمیت دیتے ہوئے سرخی بنایا ہے۔

حیدرآباد کے روزنامہ  سیاست نے بھی کانفرنس کی خبر کو بڑی خبر کے طور پر شائع کیا ہے۔ 

اخبار نے لکھا کہ ۔۔۔ دنیا میں اسلام کی صحیح تشریح پیش کئے جانے اور اس کے ماڈرن پہلو کو اجاگر کرنے کی شدید ضرورت ہے کیونکہ یہ ایسا مذہب ہے جو تمام مذاہب کے لئے امن، شانتی ، رواداری اور بھائی چارے کا پیغام لیکر آیا ہے ، جس میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ جہاد انا کے خلاف ہونی چاہئے انسان اور انسانیت کے خلاف نہیں۔ قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے ) اجیت ڈوبھال نے آج یہاں انڈیااسلامک کلچرل سینٹر میں منعقدہ انڈونیشیا کے ایک اعلی سطحی وفد کو خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ہندوستان اور انڈونیشیا میں بین المذاہب رواداری اور سماجی ہم آہنگی کے فروغ میں علما کا کردار کے عنوان سے منعقدہ اس پروگرام میں انڈونیشیا کے قومی سلامتی مشیر اور نائب وزیراعظم پروفیسر ڈاکٹر محمد محفوظ ایم ڈی کی سربراہی والے اس وفد میں وہاں کے کئی علما اور مذہبی رہنما شامل تھے ۔

 اس کے ساتھ دہلی کے  روزنامہ اخبار مشرق نے بھی اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا ہے ۔ بین المذاہب کانفرنس کے دیگر پہلووں پر نظر ڈالنے کے ساتھ ہی اجیت ڈوبھال کے اس بیان کو بھی سرخی بنایا کہ اسلام کا مطلب امن ہے۔

  دہلی کے ہی ایک اور اخبار روزنامہ ’’راشٹریہ سہارا‘‘ نے بھی کانفرنس کے تعلق سے پہلی خبر میں اسلام اور دہشت گردی کا کوئی تعلق نہ ہونے کی بات کی گئی۔

awazurdu

انگلش میڈیا  

اگر بات کریں قومی میڈیا کی تو انگلش اخبار  ’ہندوستان ٹائمز‘ نے اپنی خبر میں قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کی ان باتوں کا دکر کیا کہ ہندوستان  نے دہشت گردی اور علحیدگی پسندی کے مسئلے کو تو حل کرلیا ہے لیکن سرحد پار اور داعش کی ذہنیت والی دہشت گردی اب بھی خطرہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا ۔

ایک اور انگلش اخبار انڈین اکسپریس ‘ نے اس خبر کی سرخی میں کہا کہ ۔۔۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علما بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ اجیت ڈوبھال  ۔۔۔ اخبار نے لکھا ہے ڈوبھال کے مطابق دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اسلام امن کا پیغام دیتا ہے۔

 انگلش اخبار ٹائمز آف انڈیا  نے  بین المذاہب کانفرنس میں اجیت ڈوبھال کے اس خدشہ کا ذکر کیا کہ داعش کے سیل اب بھی ایک خطرہ ہیں ۔