بنگلہ دیش کی ’جنگی ہیروئنز‘ کو معاشرے میں کیسے پذیرائی ملی؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 13-12-2021
بنگلہ دیش کی ’جنگی ہیروئنز‘ کو معاشرے میں کیسے پذیرائی ملی؟
بنگلہ دیش کی ’جنگی ہیروئنز‘ کو معاشرے میں کیسے پذیرائی ملی؟

 

 

ثاقب سلیم، نئی دہلی

جنوبی ایشیائی معاشرہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں مسلمان مسلم اکثریت میں ہے، جن کی معیشت زراعت پر مبنی ہے۔اگر کبھی کوئی حملہ آور فوج نے کسی عورت کی عصمت دری کی ۔ تو آپ جانتے ہیں جنگ کے بعد معاشرہ اس عورت کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟

عام طورپرایسی عورت کو معاشرہ بری اور حقیر نگاہ سے دیکھتا ہے اور وہ ساری زندگی سماجی بدنامی کا باعث بنی رہتی ہے۔ یہی نہیں معاشرہ اور خاندان اس قسم کی عورت کو وہ سزا دیتا ہے جو اس نے کیا ہی نہیں تھا۔

مگر بنگلہ دیش میں ایسا نہیں ہوا۔ پاکستانی فوج نے ایک اندازے کے مطابق مارچ کے اواخر سے 16 دسمبر 1971 تک چار لاکھ بنگالی خواتین کی عصمت دری کی

جب پاکستانی فوج نے ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے تو اس سے قبل پاکستانیوں نے چھاؤنیوں اور بنکروں میں خواتین کو جنسی غلام بنا کر رکھا ہوا تھا۔ جب ہندوستانی فوج اور مکتی باہنی کی فوج نے کومیلا چھاؤنی میں پاکستانیوں کو بھگایا تو انہیں وہاں کم از کم 700 برہنہ خواتین ملیں۔ انہیں پاکستانی فوج جنسی غلاموں کے طور پر استعمال کر رہی تھی

جنگ کے بعد امریکی اخبار نیویارک ٹائمزنے ایک رپورٹ کیا تھا پاکستانی فوجیوں نے بنگالی خواتین کو جنسی غلام بنا کر رکھا اور اکثر انہیں اپنے بنکروں میں مسلسل برہنہ رکھا تھا۔

چیف جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں حکومت پاکستان کی طرف سے فوج کی شکست کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن نے کرنل عزیز احمد خان کے ریمارکس کو نوٹ کرتے ہوئے کہا کہ فوجی کہتے تھے کہ جب کمانڈر خود ریپ کرنے والا ہے تو انہیں کیسے روکا جا سکتا ہے۔

بین الاقوامی پریس میں یہ خبریں آئی تھیں کہ فوج نے کئی دیہاتوں میں ہر بالغ مرد کو قتل کر دیا تھااور تمام عورتوں کی عصمت دری کی تھی۔ یہ بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا تھا کہ پاکستانی فوج کے جرنیلوں نے بنگال سے لوٹے گئے دیگر سامان کے ساتھ ساتھ نوجوان خواتین کا بھی جنسی غلامی کامطالبہ کیا تھا۔

جنگ کے دوران فوجیوں کی طرف سے کئے گئے جنسی تشدد کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی، تاہم نوزائیدہ بنگلہ دیش اور اس کی حکومت اور معاشرے کا ردعمل اس تعلق سے بے مثال رہا۔

پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد ملک کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے کے ایک ہفتے کے اندر، عوامی لیگ کی زیر قیادت عبوری حکومت نے اعلان کیا کہ جنگ کے دوران پاکستانی فوج کے ہاتھوں عصمت دری کی جانے والی تمام خواتین کی شناخت 'ویرانگ نائیں(جنگی ہیروئنز) کے طور پر کی جائے گی۔

بنگلہ دیش کی جنگی ہیروئنوں پر لکھی جانے والی اپنی کتاب(The Spectral Wound: Sexual Violence, Public Memories and Bangladesh War of 1971) میں پروفیسرنینیکا مکھرجی کا کہنا تھا  کہ ریپ کی شکار خواتین کو 'متاثرین' کے بجائے 'وار ہیروئن' کے طور پر تسلیم کرنے کا اقدام نئی قوم کے بعد اسلام کے اس ورژن کو پیش کرنے کی کوشش جس کا دعویٰ پاکستان سے مختلف ہے۔

یہ قدم عصمت دری سے نمٹنے کے دقیانوسی سنی طریقے سے ایک بالکل الگ ہے، جہاں عصمت دری کی گئی خواتین کو بعض اوقات زنا کی سزا بھی دی جاتی تھی۔

مکھرجی نے اس تعلق سے مزید لکھا کہ گویا بنگلہ دیش نے اس تخریبی تصور کوالٹ کر رکھ دیا جو اسلام کی ایک قیاس شدہ شکل پر عمل پیرا ہے اور اس کے بجائے اسے یہ دعویٰ کرنے میں مدد ملی کہ یہ ایک مختلف قسم کی "مسلم" قوم ہے جو اپنی خواتین کی قدر کرتی ہے، بشمول عصمت دری کی گئی خواتین۔

عصمت دری کی شکار خواتین کو سماجی پسماندگی، گمنامی یا بدنامی سے نکالنے کے لیے اپنے دانشوروں کی حمایت یافتہ ریاست نے انھیں ’جنگجو‘ قرار دیا۔

مکھرجی نے تاریخ میں بیرانگنا کے خیال کا سراغ لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ان خواتین کو رانی جھانسی یا رضیہ سلطان کے پیڈسٹل پر کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ وہ ایک مذہبی مصنف معین الدین کا حوالہ دیتی ہیں۔

 مسلم بیرانگنائیں نامور تاریخی اور مذہبی مسلم خواتین تھیں جنہوں نے اسلام کے دفاع کی خاطر اپنے شوہروں کے شانہ بشانہ میدان جنگ میں بہادری سے جنگ لڑی تھی۔

وہ حیران ہیں کہ اسکالرز اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ عصمت دری کی گئی خواتین کو اسلامی الہیات میں استعمال ہونے والی تاریخی شخصیات، مائیکل مدھوسودن دتہ کی شاعری اور بنگالی مسلمانوں کے لیے مشہور دیگر ادبی کاموں کے پہلے سے موجود زمرے میں رکھا گیا تھا۔

 بنگلہ دیش کی حکومت نے 'جنگی ہیروئنز' کے خیال کو مقبول بنایا اور بیرانگ نائوں کی بحالی کے لیے نیشنل بورڈ آف بنگلہ دیش خواتین کی بحالی پروگرام (NBBWRP) قائم کیا۔

 شیخ مجیب نے خواتین کے بحالی مراکز کا دورہ کیا اور عصمت دری کی گئی خواتین کو 'جنگی ہیروئن' کہا تھا۔ انہوں نے عوامی طور پر اعلان کیا کہ عصمت دری کی گئی خواتین میری ماں، بہن اور بیٹی ہیں اور آپ میں سے بہت سے لوگوں کو شادی کرنا پڑے گی۔ میں ایسی شادی کا بندوبست کروں گا۔

مکھرجی ایک دلچسپ نکتہ سامنےلاتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں ریاستی سرپرستی کے علاوہ معاشرے نے بھی مختلف ردعمل کا اظہار کیا۔ ایک متعصب ذہن یہ مانے گا کہ شادی کرنے سے بیرانگنا مطمئن ہو جائیں گی۔

ان خواتین نے شادی کے بجائے نوکریوں کا مطالبہ کیا۔ نتیجتاً 1972میں تمام سرکاری اور نیم سرکاری ملازمتوں کا 10 فیصد پاک فوج کے مظالم سے متاثرہ خواتین کے لیے مختص کردیا گیا۔

پڑھی لکھی خواتین کو پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی گئی اور انہیں سرکاری دفاتر میں نوکری دی گئی، جب کہ ناخواندہ خواتین کو ہنرمند کارکن بننے میں مدد دی گئی۔ بحالی بورڈ (Rehabilitation Board)نے ان کی بنائی ہوئی دستکاری اشیاء فروخت کرنے کے لیے دکانیں قائم کیں۔

 مکھرجی کی کتاب طبقاتی کشمکش اور دیگر سماجی قوتوں کی وضاحت کرتی ہے جو بیرانگنا کو متاثر کرتی ہیں۔ جب کہ عوامی لیگ کی قیادت والی حکومت عصمت دری کی شکار خواتین کو جدوجہد آزادی کے مرکزی دھارے میں لانا چاہتی تھی اس کے سیاسی مخالفین نے اس کی مخالفت کی۔

مزید یہ کہ دیہی معاشرے نے ان زیادتیوں کی رازداری کو برقرار رکھا لیکن پھر بھی یہ تسلیم کیا کہ خواتین کے خلاف مظالم ہوئے ہیں۔ یہ خواتین بااختیار محسوس کرتی ہیں، اپنے طبقاتی مقام کے اندر کھل کر اپنی آزمائشوں کو بیان کرتی ہیں۔ یہ خواتین گمنام نہیں رہنا چاہتیں۔ بلکہ حکومت کی پہچان انہیں اپنی کہانیاں سنانے کا اختیار دیتی ہے۔

پروفیسر مکھرجی کے مطابق حکومتی شناخت ان خواتین کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ "اپنا موازنہ، بحیثیت بیرانگنا اور پیغمبر کی بیویوں سے کریں، جنہوں نے 'جنگی ہیروئنز' کے طور پر، مختلف جدوجہد میں اسلام ان کا ساتھ دیا تھا۔

 بیرانگنا کے حوالہ  سے ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی کھلے مقام میں باہر آتا ہے تب ہی کوئی بیرانگنا بن جاتا ہے۔ بصورت دیگر وہ لوگ جو چھپے ہوئے ہیں اور اپنی عصمت دری کو ظاہر نہیں ہونے دیا وہ بیرانگنا نہیں ہیں۔

 واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی سیاست پر گزشتہ چار دہائیوں سے مسلمانوں کی بڑی آبادی والے ملک پر دو حریف خواتین لیڈروں کا غلبہ رہا ہے جن میں سے ایک اب بھی حکومت کی سربراہی کر رہی ہیں۔

(مصنف ایک تاریخ نگارہیں)