کلرک جو بن گیا انڈین نیشنل آرمی کا بانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-05-2021
راس بہاری بوس
راس بہاری بوس

 

 

  نئی دہلی

نیتا جی سبھاش چندر بوس کی با صلاحیت قیادت میں انڈین نیشنل آرمی کی جدوجہد آزادی اور برطانوی سلطنت کو ہندوستان سے بے دخل کرنے کے واقعات ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے ۔ تاہم ہماری تاریخ کی کتابیں اور نصابی کتب بمشکل ہی اس عظیم وراثت کے اہم ترین کردار راس بہاری بوس کا ذکر کرتی ہیں - فاریسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، دہرادون میں کلرک کی حیثیت سے کام کرنے والے راس بہاری بوس در اصل انڈین نیشنل آرمی کے بانی تھے ۔ فاریسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، دہرادون نے گزشتہ 25 مئی کو راس بہاری بوس کی ناقابل فراموش خدمات کے لئے ان کی سال گرہ پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

اس موقع پر ایف آر آئی کے ڈائریکٹر ارون سنگھ راوت نے راس بہاری بوس کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انقلابی مزاج کے حامل بوس کو ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں ان کے اہم کردار کے لئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دہلی سازش سے لے کر آزاد ہند فوج کے قیام تک ان کی بے لوث خدمات ان کے اعلی مرتبے کا ثبوت دیتی ہیں ۔

بوس 25 مئی 1886 کو بنگال میں بردھامان ضلع کے سبلدہہ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام بنود بہاری بوس اور والدہ کا نام بھوبنیشوری دیوی تھا- بوس کے والد چندنا گور میں استاد تھے جن کا بعد میں شملہ ٹرانسفر کردیا گیا۔ تاہم نوجوان بوس اپنی خالہ اور ان کے شوہر کے ساتھ ہی رہے اور اپنی بہن سشیلا دیوی اور بھائی بیجن بہاری بوس کے ساتھ بڑے ہوئے۔ چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے 1857 کے غدر سے متعلق بہت سی کتابیں پڑھیں جس کی وجہ سے ان کے اندر انگریزوں کے خلاف انتقامی جذبات پیدا ہو گیۓ ۔

راس بہاری بوس بچپن سے ہی ضدی مزاج کے تھے۔ اسکول کے ایام میں ہی انہوں نے سری اروبندو کے شاگرد موتی لال رائے کی سربراہی میں انقلابیوں کے ایک گروپ - یوگا نتر پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کر لی ۔

بوس اپنی تعلیم سے زیادہ انقلابی حکمت عملی لکھنے اور خام بم بنانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اسکول میں عدم دلچسپی کے باوجود بوس انقلابی علوم سے متعلق اپنے پرنسپل چارو چندر رائے کے خیالات سے کافی متاثر تھے۔ بعد میں بوس نے طبی علوم اور انجینئرنگ میں فرانس اور جرمنی سے بھی ڈگریان حاصل کیں ۔

سن 1905 میں ، ہندوستان میں انگریز وائس رائے لارڈ ہارڈنگ نے بنگال کی تقسیم کا اعلان کیا۔ ہندو قوم پرست ہونے کے ناطے ، بوس تقسیم بنگال کی وجہ سے ہونے والے درد کو دبا نہیں پا رہے تھے جس نے بنگالی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی بنیاد پر خلیج کو بڑھاوا دیا ۔ وائس رائے کے اس متعصب اقدام نے بوس کے دل میں برطانوی راج کے خلاف اٹھ رہے طوفان کو مزید ہوا دی ۔

سن 1906 میں ، یوگا نتر گروپ نے بوس کو دہرادون بھیج دیا تاکہ وہ وہاں کے بنگالی باشندوں کو کیڈر میں بھرتی کریں۔ وہ خود بھی فوج میں شامل ہونا چاہتے تھے لیکن انگریزوں نے اسے مسترد کردیا۔ بیس سال کی عمر میں انہوں نے دہرادون کے فاریسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایف آرآئ) میں بطور کلرک کی نوکری شروع کردی۔ بوس کو ہیڈ کلرک کے عہدے کی بھی ترقی ملی۔

بوس نے گورکھوں سے کچھ ریوالور کا انتظام کیا اور ایف آرآئ کے کیمپس میں خام بم بنائے ۔ سن 1908 میں ، انہوں نے موتی لال رے کے ساتھ علی پور بم دھماکے کے مقدمات سے بچنے کے لئے بنگال چھوڑ دیا۔ 1911 میں ، راس بہاری کی والدہ بھوبشیوری دیوی طویل علالت کی وجہ سے چل بسیں۔ 1912 میں ، یوگا نتر پارٹی کے ممبروں - موتی لال رے ، راس بہاری بوس ، بسنت کمار نے دہلی میں لارڈ ہارڈنگ کے قتل کا منصوبہ بنایا ۔ کمار نے وائس رائے پر اس وقت حملہ کیا جب وہ قومی دارالحکومت کے کلکتہ سے دہلی منتقل ہونے کی یاد میں ہونے والے ایک رسمی عمل کی رہنمائی کررہے تھے۔

حملے کی کوشش آخر کار ناکام ہوگئی اور لارڈ ہارڈنگ معمولی زخم لگنے کے بعد بچ گیا ۔ بسنت کمار کو حراست میں لے لیا گیا جبکہ بوس فرار ہونے میں کامیاب ہو گیۓ ۔ وہ دہرادون واپس آے اور لارڈ ہارڈنگ پر حملے کے خلاف ایک مذمتی میٹنگ کا اہتمام کیا تاکہ کسی کو بھی قتل کی کوشش کے پیچھے ان کے ہونے کا شبہ نہ ہو۔

سن 1913 میں ، بنگال میں سیلاب سے بچاؤ کے کام کے دوران بوس نے ایک اور انقلابی جتن مکھرجی سے ملاقات کی جو 'باگھا' جتن کے نام سے مشہورتھے ۔ انھیں یہ اعزاز برطانوی پولیس سے بچنے کے لئے جنگل میں ان کے قیام کے دوران شیر کے ساتھ ہونے والے ان کے مقابلے کے لئے ملا تھا۔ بوسv ہندوستان میں کمپنی راج کے خلاف مہم کو مستحکم کرنے کے لئے جتین کے ساتھ ہو گیۓ ۔

اپنی ڈیوٹی سے طویل عرصے تک غیر حاضر ہونے کے سبب راس بہاری بوس 1914 میں ایف آر آئی میں اپنی نوکری سے برخاست کر دے گیۓ ۔

بعد میں انہوں نے غدر موومنٹ میں کلیدی کردار ادا کیا ، جو ہندوستان کی فوج میں بغاوت کو بھڑکانے کے لئے 1857 کی انقلاب جیسی کوشش تھی۔ یہ کوشش بھی ناکام ہوگئ۔

 تاہم ناکام کوششوں کے باوجود بوس نے انگریزوں کے درمیان کامیابی کے ساتھ اس تاثر کو عام کر دیا کہ ہندوستانی بھی بیدار ہو کر برطانوی سلطنت کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔

اس طرح مسلسل کشمکش کے بعد ایک دن بوس نے جاپان میں سیاسی پناہ لینے کے لئے ملک چھوڑ دیا ، جہاں انہوں نے انڈین نیشنل آرمی اور انڈین انڈیپینڈینس لیگ کو قایم کیا ۔ 1918 میں ، بوس نے ایک جاپانی خاتون ، توشیکو سے شادی کی جنہوں نے انہیں کئی مہینوں تک پناہ دی تھی۔ بعد میں 1925 میں وہ چل بسیں۔ 1943 میں انہوں نے انڈین نشنل آرمی کی قیادت سبھاش چندر بوس کے سپرد کر دی جو بعد میں آزاد ہند فوج بنی۔