ہندو۔مسلم اتحاد ایک داستان یا حقیقت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-07-2021
ڈاکٹر موہن بھاگوت
ڈاکٹر موہن بھاگوت

 

 

 

 

ثاقب سلیم، نئی دہلی

آکسفورڈ یونورسٹی کے علم تاریخ کے پروفیسر فیصل دیو جی ہندوستانی معاشرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہاں کے معاشرہ تشدد کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ گیا ہے، ان میں دوبارہ اتحاد لانے کے لیے سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے ماضی کی باتوں کو فراموش کرنا ہوگا۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز ریاست اترپردیش کے شہر غازی آباد میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) سپریمو موہن بھاگوت نے مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) کے زیر اہتمام منعقدہ پروگرام میں اظہار خیال کیا ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ معاشرے میں مسلم مخالف جذبات پھیلے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ہندو مسلم اتحاد کی باتیں میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں، کیوں کہ میں ہندو اور مسلمان دونوں کو الگ الگ نہیں ایک مانتا ہوں۔

انھوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ جو بھی ہندو مسلمان کے خلاف ہو، وہ ’ہندو‘ ہو ہی نہیں سکتا۔

خطاب کے دوران بھاگوت نے اس بات کی کوشش نہیں کہ وہ اپنی شبیہ کو درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی بھارت میں ہونے والے فرقہ واریت کی بات ہوتی ہے تو بھاگوت کی تنظیم آر ایس ایس پر بھی الزام لگایا جاتا ہے۔

گذشتہ دنوں بھی انھوں نے کہا تھا کہ ‘ہندوتوا’ مسلمانوں سے اجنبی شہریوں کی طرح برتاؤ نہیں کرتے ہیں۔

جب کہ آر ایس ایس کے مشہور رہنما ویر ساورکر ، لکھتے ہیں کہ ان کا (ہندوؤں اور مسلمانوں) موجودہ رشتہ حکمراں اور رعایا کا نہیں تھا،غیر ملکی اور دیسی کا بھی نہیں ہے۔ بلکہ دونوں میں صرف ایک ہے کہ دونوں کا مذہب جدا جدا ہے۔حالاں کہ دونوں ہندوستان کی سرزمین کی ہی پیداوار ہیں۔

ساورکر نے مزید لکھا تھا کہ ان دونوں کے نام الگ الگ تھے ، لیکن وہ سب ایک ہی ماں یعنی ہندوستان کی اولاد تھے۔

لہذا ان دونوں کی مشترکہ ماں ہونے کے ناطےہندو اور مسلمان خونی رشتے جیسےبھائی تھے۔

ویر ساورکر کی تحریر سے ان کے نظریات یعنی ہندوتو کی ترجمانی صاف ظاہر ہو رہی ہے۔

خیال رہے کہ اپنی تقریر کے دوران موہن بھاگوت نے ایک اور اہم دعویٰ کیا تھاکہ ’ہندو مسلم اتحاد‘ ان کی نظر میں کوئی معنی نہیں ہے کیونکہ وہ دونوں کو ایک ہی انسان مانتے ہیں۔

بابائے قوم موہن داس کرم چند گاندھی نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا تھا کہ قوم کے تئیں یورپی خیالات، تاریخ ، مذہب اور برادری کے بارے میں ہمیشہ تشدد پیدا کریں گے۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی مشہور ماہر بشریات صبا محمود اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ ’مذہبی اقلیت‘ کا زمرہ ایک ’نوآبادیاتی‘ ، یا مغربی یورپی، جیو پولیٹکس (geopolitics ) اپنی شرائط پر حکمرانی کے لئے تشکیل دیں۔

پہلی جنگ عظیم مغرب کے بعد یورپی طاقتوں ریاستوں کی تشریح کرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ ساتھ جغرافیائی وجود کو بھی بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ تحفظ کے نام ایک جدید ریاست اقلیتوں کے حقوق ادا کرنے کے لیے کیا کرتا ہے۔

’قومی اکثریت‘ سے تعلق رکھنے والے کسی ’اقلیت‘ کے مابین ، اس طرح مختلف سطحوں پر تناؤ پیدا ہوتا ہے۔

ایک اور مشہور سیاسی فلسفی ہننا ارینڈٹ کا بھی کہنا ہے کہ مذہبی اقلیتیں ہمیشہ کے لئے موجود رہی ہیں لیکن ان کی تعریف بیسویں صدی عیسوی میں ہوئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اقلیت‘ کا نظریہ نوآبادیاتی نظریہ ہے۔

اب بھاگوت کی تقریر پر واپس آتے ہیں،میں ان کے اس بیان کو مثبت قرار دیتا ہوں تاہم ایک درست سمت کی طرف چھوٹا قدم ہے۔

ایک مختصر مضمون کے دائرہ کار میں ساری باتیں سموئی نہیں جاسکتی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں اور آر ایس ایس کے مابین عدم اعتماد کافی گہرا ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں اس اعتماد کو بڑھانے کے لئے کچھ ٹھوس اقدام دیکھنا چاہیں گے۔

جیسا کہ اردو زبان کے معروف شاعر علی سردار جعفری نے کہا تھا:

گفتگو بند نہ ہو

بات سے بات چلے

صبح تک شام ملاقات چلے

ہم پہ ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے