حضرت علیؓ : اخلاق اور انسانیت کی علامت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-02-2022
حضرت علیؓ : اخلاق اور انسانیت کی علامت
حضرت علیؓ : اخلاق اور انسانیت کی علامت

 

 

علی ڈے پر خصوصی پیشکش 

 

 محمد شمیم اختر قاسمی، شعبہ سنی دینیات، اے ایم یو، علی گڑھ

حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے ایک روایت کے مطابق اندرون خانہ کعبہ چھٹی صدی عیسوی میں پیدا ہوئے۔ صغرسنی میں بعض وجوہ کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت میں آگئے اور دربار نبوت سے آخر تک جڑے رہے۔ دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ خود فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجھ سے پہلے کسی نے خدا کی عبادت نہیں کی۔ابتدائی عمر سے ہی حضور سے از حد زیادہ محبت کرتے تھے۔

جب کوہ صفا پر چڑھ کر حضور نے اعلان نبوت کیاتو آپکی آواز پر کسی نے بھی کان نہیں دھرا، مگر حضرت علی جو اس وقت عمر میں صرف 15/ سال کے تھے، کہا: ”گوکہ میں عمر میں چھوٹا ہوں اور مجھے آشوب چشم کا عارضہ ہے، اورمیری ٹانگیں پتلی ہیں، تاہم آپ کا باور دست و بازو بنوں گا۔ جس وقت آپ کی عمر 22 سال کی تھی آپ اپنی جان کی بازی لگاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر پوری رات لیٹے رہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے نکل گئے۔اس کے تین دن بعد خود بھی حضور سے جاملے۔

مدینہ پہنچنے کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مظاہرہ کیا اور جو کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ آپ کی زندگی کا اہم باب ہے۔ سوائے ایک جنگ کے آپ نے ہر جنگ میں شرکت کی اور داد شجاعت دیا۔ غزوئہ تبوک کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنگ میں شرکت سے روک دیا اور اہل بیت کی حفاظت ونگرانی کے لیے مدینہ ہی میں رہنے کا حکم دیا تو اس کا آپ کو بہت قلق ہوا، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر ان کے اعزاز کو بلند کیا کہ ”علی تم اسے پسند نہیں کرتے کہ میرے نزدیک تمہارا وہ مقام اور درجہ ہو جو ہارون کا موسیٰ کے نزدیک تھا۔

حضرت علی کی اہمیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کتنی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم اہم اور مشکل ترین امور کی انجام دہی کے لیے حضرت علی کو مامور فرماتے۔ جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے، دامے، درمے، قدمے، سخنے ہر لحاظ سے حضور کی فرماں برداری اور اطاعت کرتے رہے۔

اسی جاں نثاری کو دیکھ کر حضور نے غدیر خم کے خطبہ میں فرمایا کہ: ”جو علی کا دشمن ہے وہ میرا بھی دشمن ہے اور جو علی کا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے۔

مظلوم کے حامی رہنا اور ظالم کے دشمن

حضرت علیؑ کہ اس قول نے اس گتھی کو سلجھا دیا ہے کہ ظلم چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، کسی بے گناہ کا قتل ہو یا کسی کے حق کا چھیننا، ہمارے دل ہمیشہ مظلوم کہ ساتھ رہیں اور ہماری نفرت فقط ظالم کے لئے۔ یہ قول اس بات پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم نہیں کرتا تو اس کی بات کو برداشت کر لیا جائے۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ جو مظلوم ہو اس سے کوئی خطا سرزد نہ ہو۔ میرے لئے یہ قول زندگی کی ایک حقیقت ہے۔ مظلوم کے لئے بلا جھجک آواز اٹھانا مجھے اس جملے نے سکھایا۔ بہت بار اس کے باعث مجھے نفرتوں اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن روح مطمئن رہی اور ذہن آزاد محسوس ہوا۔

لوگ یا تو تمہارے دینی بھائی ہیں یا انسانیت میں تم سے برابر ہیں

یہ بات صاف ہے کہ ہر شخص، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، ہمیں ہرگز حق نہیں پہنچتا کسی سے اس کے مسلک و مذہب کی بنا پر نفرت و تعصب رکھیں۔ ہر شخص جو انسانیت میں ہم سے برابر ہے اس کی عزت نفس، جان و مال کا خیال کرنا دوسرے انسان پر لازم ہے۔

عالم اسلام میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ ہماری قوم بھی اس تعصب کی لپیٹ میں ہے۔ ہم اپنے مسلک و مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو ہی انسان سمجھتے ہیں اور باقی سب کو واجب القتل۔ ایسے آسودہ سوچ اور پست ذہنیت رکھنے والوں کے بیچ مجھ جیسے لوگوں کہ لئے امام علیؑ کا یہ جملہ شعور و فکر کو بلندی عطا کرتا ہے جہاں انسانیت ہر مذہب اور ہر فکر سے بالاتر نظر آتی ہے۔ تسلیم و رضا بہترین مصاحب اور علم شریف ترین میراث ہے اور علمی و عملی اوصاف خلعت ہیں اور فکر صاف شفاف آئینہ ہے۔

 معاشرہ جو معاشی بدحالی اور بدامنی کا شکار ہو، جہاں رشتوں میں بے وفائی کے باعث بچے، جوان اور بوڑھے ذہنی دباؤکا شکار ہوں۔ وہاں حضرت علیؑ کا یہ قول ذہن اور روح کو تازگی بخشتا ہے۔ آنے والے حالات سے مقابلہ کرنا اور مشکلات میں صبر سے کام لینا ہر ذہنی بیماری میں مبتلا ہونے سے دور رکھتا ہے۔ جب کبھی دوستوں سے کج روی کا سامنا ہوا، رویوں کی تبدیلی دیکھی، ظلم دیکھا اور ظلم سہا، ایسے میں اپنے آپ کو حصول علم میں مشغول کر لینا اور اپنی ذہنی اور علمی وسعت پر وقت صرف کرنا میرے لئے بہتر ثابت ہوا۔ دشمن پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو

بدلہ لے لینا آسان ہے لیکن معاف کر دینا مشکل۔

اس معاشرے کہ آدھے مسائل اس وقت حل ہو جائیں گے جب ہم ایک دوسرے کو معاف کرنا سیکھ جائیں گے۔ میرے لئے یہ قول ایک نگینے کی مانند ہے کہ جس کو میں نے اپنے گلے کا ہار سمجھ کر پہن لیا ہے۔ جس کے باعث مجھے رشتوں کو نبھانے میں آسانی پیش آئی۔ ہم بہت بار انسانوں پر رحم نہیں کھاتے اور بدلہ لینے میں پہل کرتے ہیں۔ چاہے وہ مذہبی اختلاف کہ باعث ہو یا گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے، معاف کر دینا ایک ایسی طاقت ثابت ہوا جس کے باعث لوگوں کی جانب سے ملنے والی محبت اور عزت میں اضافہ ہوا۔

زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر اسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائی

 اس دنیا میں آدھے جھگڑے زبان کی کڑواہٹ کے باعث ہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ جب اس سے کچھ نہیں بن پڑتا تو دوسرے انسان کو جملوں سے زدوکوب کرتا ہے۔ بہت بار کسی کا رویہ اتنا تکلیف دہ ہو جاتا ہے کہ ہم کہے بغیر رہ نہیں سکتے۔ میرے لئے اس قول میں یہ سبق چھپا ہے کہ اگر محبتوں کو قائم رکھنا ہے تو زبان کا استعمال تب کیا جائے جب ضروری ہو۔

یہاں یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ ظالم کے خلاف یہ زبان ایک درندے کی مانند ہی استعمال کی جائے کیونکہ الفاظ کے گھاؤ کبھی نہیں بھرتے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانا شجاعت کی علامت ہے۔

 دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے۔

 اس دنیا میں دوسروں کے دکھ درد سمجھنا مشکل اور اپنی زندگی میں مگن رہنا آسان ہے۔ حضرت علیؑ نے ایسی زندگی کو خواب غفلت کی نیند سے تشبیہہ دی ہے۔ جو شخص دوسروں کے کام نہ آیا اس نے ساری عمر خواب میں گزار دی۔ اور جس نے حق کہ لئے آواز اٹھائی وہی بیدار رہا۔