دہلی کی پارلیمنٹ سے ہری دوار کی دھرم سنسد تک؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 24-12-2021
دہلی کی پارلیمنٹ سے ہری دوار کی دھرم سنسد تک؟
دہلی کی پارلیمنٹ سے ہری دوار کی دھرم سنسد تک؟

 

awazthevoice

 

 پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی

وطن عزیز میں روزانہ کچھ نہ کچھ ایسا ہو رہا ہے کہ جس پر چپ رہنا خود کو دھوکا دینا ہوگا۔ مثال کے طور پر پارلیمنٹ کی ایک اسٹینڈنگ کمیٹی نے اسکولی کتابوں کے نصاب میں اصلاح کے لئے سفارشات پیش کرتے ہوئے چاروں ویدوں اور بھگوت گیتا کو نصاب میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ تاریخی شخصیات اور مجاہدین آزادی کو نصابی کتابوں میں غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے اس لئے این سی ای آر ٹی کی تاریخی کتابوں میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں تاکہ مختلف زمانوں کے احوال اور تاریخ کو یکساں اہمیت حاصل ہو اور اس میں سِکھ، مرہٹہ، گورجر، جاٹ اور قبائیلیوں سمیت مہابھارت اور رامائن کو بھی شامل کیا جائے۔جب کہ انڈین ہسٹری کانگریس پہلے ہی ان سفارشات کی شدید مخالفت کر چکی ہے۔

ہندوستان کی عظمت اس کی رنگا رنگی میں پنہاں ہے نہ کہ یک رنگی میں۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ ہندوستان میں موجود تمام مذہبی روایتوں اور صحیفوں کو نہ صرف نصاب میں شامل کریں بلکہ اس کے ساتھ ہندوستان میں جو ثقافتی تکثیریت ہے اس کو بھی اسی طرح اسکول سے یونیورسٹیوں تک ہر سطح پر نصاب میں شامل کیا جائے لیکن ہندوستان کی مذہبی، ثقافتی اور لسانی تکثیریت کا احترام نہ کرنا اور سب کو یکساں طور پر نصاب کا حصہ نہ بنانا کسی طرح بھی جائز نہیں ہو سکتا۔

راقم الحروف تقریباً 36؍سال تک جس ادارے سے بحیثیت معلم وابستہ رہا، اس میں اسکول سے یونیورسٹی کی سطح تک دینیات کے ساتھ ہندو مذہب سمیت ہندوستان میں موجود تمام مذاہب کو بغیر کسی تخصیص کے ہر طالب علم کے لئے اس طرح لازمی بنایا کہ وہ بغیر کسی مذہبی تفریق کے جس پرچے کو لینا چاہیں، لے سکتے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گریجویشن کی سطح پر ہر طالب علم کے لئے تین میں سے (اسلامیات، ہندو ریلیجس اسٹڈیز اور انڈین ریلیجنس اینڈ کلچر)ایک مضمون لازمی طور پر لینا ہوتا ہے۔

اب وہ کیا لینا چاہتا ہے یہ اس کی صوابِ دید پر منحصر ہے اور اس میں بھی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ تمام طالب علم جو مدرسے میں پڑھے ہوتے ہیں ان کو اسلامیات کا پرچہ نہیں دیا جاتا ہے بلکہ ہندو ریلیجس اسٹڈیز یا انڈین ریلیجنس اینڈ کلچر میں سے کسی ایک پرچے کو اختیار کرنا ہوتا ہے۔ جامعہ والوں کی یہ فراخ دلی قابل قدر ہے اور مدرسے کے فارغین پر یہ پابندی اس لئے عائد کی گئی کہ وہ مدرسے میں تو اسلام سے متعلق معلومات حاصل کر چکے ہیں، اب انہیں اپنے وطن اور ابنائے وطن سے تعلق رکھنے والی دوسری مذہبی روایتوں اور ثقافتوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرنی چاہیے۔

ہمیں جامعہ والوں جیسی فراخ دلی، وسیع القلبی اور وسیع النظری کی سرکار سے امید رکھنی چاہیے۔ آج ہماری سیاست اور کچھ متعصب سوچ رکھنے والے مٹھی بھر لوگ کچھ بھی کر لیں وہ اس ملک کی تاریخ کو بدل نہیں سکتے۔ اس ملک کا بہتر مستقبل اسی حقیت میں مضمر ہے کہ ہم نفرت کے بیج نہ بوئیں، تاریخ کو بدلنے یا مسخ کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اس حقیقت کو جانیں اور سمجھیں کہ:

گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن

اے ذوقؔ اس  جہاں کو ہے  زیب اختلاف  سے

ایک اور خبر دہلی اور ہری دوار سے آئی ہے جس کو ٹویٹر اور ویڈیو کے ذریعے بھی عام کیا گیا ہے اور جس میں کچھ خود ساختہ افراد نے جو اپنے آپ کو دھرم گرو کہتے ہیں، ایک مخصوص مذہبی فرقے کے خلاف لوگوں کو نہ صرف تشدد پر اکسایا بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کا اسی طرح صفایا کرنے کا مشورہ بھی دیا جس طرح میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا صفایا کیا گیا۔

ہری دوار میں منعقدہ دھرم سنسد میں باقاعدہ بھگوا آئین بھی پیش کیا گیا اور ایک دھرم گرو تو اپنی ہرزہ سرائی میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے کہا کہ ’’اگر میرے پاس بندوق ہوتی تو میں ناتھو رام گوڈسے بن جاتا اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کو قتل کر دیتا۔‘‘ یقینا اس طرح کے بیانات، تقریریں بہت تکلیف دہ بھی ہیں اور تشویش ناک بھی لیکن ہم اس بات کو ہر شخص پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ ہندوستان کی ہندو اکثریت کی رائے نہیں ہے بلکہ کچھ مٹھی بھر سرپھروں کی سوچ ہے جو یہ نہیں جانتے کہ وہ اس طرح کی باتیں کرکے، نعرے دے کر، تشدد کے لئے اکسا کر کسی ایک فرقے کا نہیں بلکہ پورے ملک کا نقصان کریں گے۔

جس سماج میں تشدد ہوتا ہے، فرقے وارانہ فساد ہوتا ہے، وہاں پر تمام ترقیاتی سرگرمیاں ٹھپ ہو جاتی ہیں اور ملک آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ابھی تک مرکزی سرکار یا اتراکھنڈ کی حکومت نے اس طرح کی اشتعال انگیزیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ کے پولیس کے سربراہ نے، اس کے باوجود کہ سابق وزیراعلیٰ ہریش راوت نے اس طرح کے اجتماع اور اس میں کی گئی اشتعال انگیز تقریروں کی مذمت کی ہے، یہ کہہ کر اپنا پلا جھاڑ لیا کہ ابھی تک ان کے پاس کوئی اس سلسلے میں شکایت نہیں آئی ہے۔

اب ان سے کوئی پوچھے کہ جو چیز ٹویٹر پر ہے، جس کی ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے، اس پر انہیں خود سے نوٹس لیتے ہوئے ضروری کارروائی کرنی چاہیے۔ ادھر خیر سے بی جے پی کے بعض ذمہ داروں نے بھی کہا ہے کہ وہ اس طرح کے بیانات حامی نہیں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پھر اپنی پارٹی کے ان لیڈروں کے خلاف انہوں نے کیا ایکشن لیا جو کہ اس پروگرام میں نہ صرف آگے آگے تھے بلکہ ایک بھگوا آئین پیش کر رہے تھے۔ہمارا سروکار صرف کسی ایک مذہبی فرقے کے تحفظ ہی سے نہیں ہے بلکہ اس بات سے ہے کہ اس طرح کی باتیں اور عناد و فساد کی باتیں پورے ملک کے لئے نہ صرف شرمندگی بلکہ نقصان کا سبب بنتی ہیں۔

ہماری اس ملک کے تمام ان رہنماؤں سے جو سیکولر جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں،اپیل ہے کہ وہ فوری طور پر سپریم کورٹ کے سامنے ان تمام شرپسندانہ سرگرمیوں کا کچا چٹّھا، سارے ثبوتوں کے ساتھ پیش کریں اور نظم و نسق کے ذمہ داروں کو ضروری کارروائی کے لئے عدالتی احکامات کے تحت آمادہ کریں۔ اس کام میں کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ معاملہ صرف مسلمانوں کو بچانے کا نہیں بلکہ ہندوستان کو بچانے کا ہے۔

نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔