میانمار میں خانہ جنگی کا اندیشہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-04-2021
عوام اور فوج آمنے سامنے
عوام اور فوج آمنے سامنے

 

awaz

      سہیل انجم ۔ نئی دہلی     

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میانمار کی فوجی قیادت کو انسانی جانوں کے اتلاف کا کوئی افسوس نہیں ہے۔ اسے صرف اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں یقین ہے۔ خواہ اس کے لیے میانمار کی سڑکوں پر بے قصوروں کا کتنا ہی خون کیوں نہ بہہ جائے۔ وہاں کی صورت حال سے دنیا کا ہر امن پسند او رجمہوریت نواز شہری مضطرب ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تشدد بند ہو اور ملک میں جمہوری نظام کی واپسی ہو۔ میانمار کی فوج نے یکم فروری کو ملک کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس نے اسٹیٹ قونصلر اور جمہوریت نواز رہنما آنگ سان سوچی اور صدر سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ فوج نے ان رہنماؤں کے خلاف متعدد الزاما عاید کیے او راب انھیں ملکی عدالت میں ان الزامات کا سامنا ہے۔ آنگ سان سوچی پر اسی وقت کئی الزامات عاید کیے گئے تھے اور اب ایک نیا الزام یہ لگایا گیا ہے کہ انھوں نے نوآبادیاتی دور کے سرکاری راز کا قانون توڑا ہے۔ انھیں گزشتہ دنوں ویڈیو کانفرنس کے توسط سے عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس الزام کی وجہ سے انہیں سیاسی عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ سماعت میں آٹھ دفاعی وکلا کے باضابطہ تقرر سمیت کیس کے انتظامی پہلوؤں پر غور کیا گیا۔ سوچی کے قانونی نمائندے کْن مونگ زاؤ نے سماعت کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ ویڈیو لنگ میں نظر آنے والی آنگ سان سوچی کی جسمانی حالت بظاہر اچھی دکھائی دے رہی تھی۔

فوجی بغاوت کے خلاف میانمار کے عوام نے ایک طرح سے بغاوت کر رکھی ہے۔ وہ روزانہ ینگون اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر اکٹھا ہوتے ہیں اور فوجی کارروائی کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ فوج کی جانب سے تشدد کے ذریعے ان احتجاجوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فوج طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ وہ گولیاں چلانے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ اس فوجی کارروائی کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد شہری ہلاک اورسیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہاں کے عوام فوجی طاقت کے آگے جھکنے اور تشدد سے دبنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

عالمی اداروں اور رہنماؤں کو اس صورت حال پر تشویش ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ فوج تشدد بند کرے اور جمہوری نظام کو بحال کرے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری اینٹونیو گوتریس نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے فوج سے طاقت کے استعمال سے باز رہنے کی اپیل کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے تک لایا جائے۔ میانمار میں اقوام متحدہ کی نمائندہ کرسٹین شورنربرگرنر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپیل کی ہے کہ وہ میانمار میں جمہوریت کی بحالی کے لیے امکانی اقدامات پر غور کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج نے جمہوری حکومت کا تختہ تو پلٹ دیا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ حکومت سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ انھوں نے انتباہ کیا ہے کہ اگر صورت حال میں بہتری نہیں آئی تو ملک میں خانہ جنگی بھی چھڑ سکتی ہے۔

تھائی لینڈ کی سرحد سے متصل علاقوں میں جہاں ”کرین نسلی اقلیت“ کی گرفت ہے احتجاج میں شدت کی وجہ سے فوج نے کرین گوریلہ فورسز کے خلاف کارروائی کی جس میں بہت سے لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے۔ وہاں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کی اور وہ تھائی لینڈ میں داخل ہو گئے۔ لیکن پھر غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے ان میں سے بہت سے واپس آگئے۔ اس علاقے میں سرگرم ایک ریلیف ایجنسی ”فری برما رینجرس“ کا کہنا ہے کہ کرین اکثریتی علاقوں میں درجنوں افراد ہلاک اور بیس ہزار سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔ جبکہ سیکڑوں افراد تھائی لینڈ سے متصل علاقوں کے جنگلوں اور غاروں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ بہت سے افراد ہندوستان کی سرحد کے اندر میزورم میں داخل ہو گئے ہیں۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ زورم تھنگا نے اعلان کیا ہے کہ ریاستی حکومت انسانی بنیادوں پر ان پناہ گزینوں کھانا پانی اور سر چھپانے کی جگہ فراہم کر رہی ہے۔ ہندوستان نے اس صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور تشدد کی مذمت کی ہے۔ اس نے میانمار کی فوجی قیادت سے اپیل کی ہے کہ وہ طاقت کے استعمال میں تحمل برتے اور گرفتار شدگان کو رہا کرے۔ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندے ٹی ایس تری مورتی نے بند کمرے میں ہونے والی اقوام متحدہ کی میٹنگ میں فوج کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کی مذمت کی۔ انسانی جانوں کے اتلاف پر اظہا رافسوس کیا۔ فوج سے تحمل برتنے، جمہوریت بحال کرنے اور قیدیوں کو رہا کرنے کی اپیل کی۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلے کو پرامن انداز میں حل کیا جائے، عوامی خواہشات کا احترام کیا جائے اور رخائن اسٹیٹ ڈیولپمنٹ پروگرام میں تعاون دیا جائے۔

اس سے قبل بھی ہندوستان پرامن انداز میں معاملے کو حل کرنے کی اپیل کر چکا ہے۔ ہندوستان کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ تشدد اور طاقت کے استعمال سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا اور جمہوری اقدار کا بہرحال احترام کیا جانا چاہیے۔ جب میانما رکی فوج نے وہاں کی منتخب حکومت کا تختہ پلٹا تھا اور بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا تو اسی وقت ہندوستان نے اس کارروائی کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ جمہوری نظام کو جلد از جلد بحال کرنے کے اقدامات اٹھائے جائیں۔

ادھر برطانیہ نے میانمار کی فوجی حکومت کے خلاف پابندیاں عاید کر دی ہیں۔ امریکہ نے بھی اس سے اپنا تجارتی رشتہ منقطع کر لیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق امریکہ کا یہ فیصلہ فوری طور پر نافذ ہو گیا ہے اور یہ پابندی اس وقت تک رہے گی جب تک کہ منتخب جمہوری حکومت کی واپسی نہیں ہو جاتی۔ امریکہ نے بھی سویلین کے خلاف فوج کی جانب سے طاقت کے استعمال کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ احتجاجیوں، طالب علموں، مزدوروں، انسانی حقوق کے کارکنوں، مزدور رہنماؤں اور بچوں کے قتل سے عالمی برادری کے ضمیر کو شدید دھچکہ لگا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہاں کی فوجی قیادت کا ضمیر بھی جاگے گا اور وہ امن پسند مظاہرین پر طاقت کا استعمال بند کرکے منتخب جمہوری حکومت کو بحال کرے گی اور جن بے قصوروں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کو رہا کرے گی؟ فوجی قیادت کے رویے کے پیش نظر اس کا جواب فی الحال نفی ہی میں دیا جا سکتا ہے۔