عیدِقرباں: اپنے رب کی رضا میں راضی رہنے کی داستان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
پیغام عیید قرباں
پیغام عیید قرباں

 

awazurdu

 پروفیسر اخترالواسع 

ہر مذہب کی طرح اسلام میں بھی دو خاص تہوار ہیں۔ ایک عید الفطر اور ایک عیدالاضحی۔ عید الفطر ایک مہینے کے رمضان کے روزے ختم ہونے کے بعد شکرانے کے طور پر منائی جاتی ہے کہ اللہ نے ہمیں ایک ایسا مبارک مہینہ عطا کیا جس میں ایک عشرہ رحمت کا، دوسرا مغفرت کا اور تیسرا جہنم کی آگ سے نجات کا ہے، جس کے تیسرے مبارک عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات وہ بھی ہے جو لیلۃ القدر کہلاتی ہے اور جو ہزار مہینوں کی راتوں سے افضل ہے کیوں کہ اسی میں قرآن کریم جیسی کتاب ہدایت نازل ہوئی۔

جب کہ بقرعید حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنے نوجوان، سعادت مند، بڑھاپے کی لاٹھی بننے والے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے آمادگی کے اظہار کی یادگار ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا، اور ایک بار نہیں کئی بار دیکھا کہ آپ راہِ خداوندی میں اپنے جگر گوشے، آنکھوں کے نور، دل کے سرور بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو قربان کر رہے ہیں۔ آپ نے اس کو اشارہئ خداوندی جانا اور بیٹے سے اس کا تذکرہ کیا۔ بیٹا فوراً آمادہ ہو گیا کیوں کہ اس کا بھی وہی عقیدہ تھا جو بعد میں غالبؔ نے اپنے ایک شعر میں یوں پیش کیا۔

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

جب بوڑھا باپ نوجوان بیٹے کو لے کر قربان گاہ کی طرف بڑھا تو شیطان نے باپ اور بیٹے کو قدم قدم پر ورغلایا۔ باپ سے کہا کہ کیوں اپنے بڑھاپے کے سہارے کو مٹانے جا رہے ہو اور بیٹے سے کہا ”کہاں بوڑھے آدمی کے چکر میں آئے ہو؟

ابھی تم نے دنیا دیکھی ہی کہاں ہے؟ اس لئے اپنی جان کو ضائع نہ کرو؟“ لیکن استقلال و استقامت کے پیکر اور اپنے رب کی رضا میں راضی دونوں باپ بیٹے نے جو جلیل القدر پیغمبر تھے، شیطان پر پھٹکار بھیجی اور راہِ تسلیم و رضا میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ قربان گاہ پر پہنچے اور جب باپ نے بیٹے کے گلے پر چھری پھیرنا چاہی تو قضا و قدر کے مالک رب نے فرشتے کے ذریعے ایک جانور کو حضرت اسمعیل علیہ السلام کی جگہ قربانی کے لئے بھیج دیا۔ اس دن کی یاد میں اہلِ ایمان آج تک اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے راہِ خداوندی میں جانور کی قربانی کرتے ہیں اور اس طرح اسوہئ براہیمیؑ اور اطاعت اسمعیلؑ کی پیروی کرتے ہیں، اس کا جشن مناتے ہیں۔ ذی الحجہ کے مہینے کی دس، گیارہ اور بارہ تاریخوں میں قربانی کی یہ سنتِ براہیمیؑ ادا کی جاتی ہے۔

جو قربانی کی جاتی ہے اس میں جانور کے گوشت کے یکساں طور پر تین حصے کئے جاتے ہیں۔ ایک اپنے لئے رکھا جاتا ہے، دوسرا عزیز و اقارب کے یہاں بھیجا جاتاہے اور تیسرا نادار، غریب، مسکین لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ جانور کی قربانی کا گوشت صرف اپنے لئے نہیں ہوتا بلکہ اس میں ایک دوسرے کو پیش کرکے سماجی رشتوں کو مضبوطی عطا کی جاتی ہے، خیرسگالی، اخوت کا مظاہرہ ہوتاہے۔

اور اسی طرح سماج کے پسماندہ طبقات کو برابر سے اس قربانی میں حصے دار بناکر ان کی شرکت کو یقینی کرکے انسانی مساوات کے جذبے کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن کریم میں اس قربانی کے حوالے سے بڑے پتے کی بات کہی گئی ہے اور وہ یہ کہ خدا کے پاس تمہاری قربانیوں کا گوشت، خون اور ہڈیاں نہیں جاتیں بلکہ تمہارے نیت کی نیکی، پرہیزگاری اور تقویٰ کا جذبہ پہنچتا ہے۔ عیدالفطر کی طرح عیدالاضحی یا عید قرباں میں بھی صبح ہی صبح سورج نکلنے کے بعد چھ زائد تکبیروں کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے۔ یہ نماز خدائے بزرگ و برتر کے حضور شکرانے کی نماز ہوتی ہے کہ اس نے ہمیں دینِ اسلام کی تکمیل کا جشن مسرت منانے کی توفیق دی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی۔

ہمیں اس نے لوگوں کے ساتھ اشتراک و تعاون، میل ملاپ اور بھائی چارے کو بڑھانے کا موقعہ دیا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی عیدالاضحی کا تہوار منانا شروع ہو گیا تھا اور عیدالاضحی ہی کا کیا عیدالفطر کی تقریبات بھی ہماری قومی زندگی کا خوشگوار حصہ بن گئیں۔ عیدین کے موقعے پر ایک دوسرے کی خوشیوں میں بلا تفریق مذہب و ملت تمام ہندوستانی شریک ہوتے رہے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

عیدقرباں کے موقعے پر جن جانوروں کی قربانی جائز ہے ان میں گائے بھی شامل ہے لیکن ہندوستان میں بابر بادشاہ ہوں یا مصلح قوم سرسید احمد خاں، مشہور صوفی بزرگ اور خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری کے مرید خواجہ حمید الدین ناگوریؒ ہوں یا حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی درگاہ سے وابستہ مصور فطرت خواجہ حسن نظامیؒ ہوں، سب نے ہمیشہ یہی درس دیا کہ اپنے ہندو برادرانِ وطن خاص طور سے شمالی ہندوستان میں بسنے والوں کے جذبات، عقیدے اور احساسات کا احترام کرتے ہوئے گائے کی قربانی نہ کی جائے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ جب گؤ کشی کی ممانعت کے سلسلے میں قوانین بھی نہیں بنے تھے مسلمانوں نے اس کا خیال رکھا اور گائے کے مقابلے دوسرے جانوروں کی قربانی کو اختیار کیا۔

اس دفعہ ایک بار پھر عیدِ قرباں ایسے وقت میں آئی ہے جب دنیا کورونا کی وباء سے جوجھ رہی ہے اور اس کی قہرسامانی سے تدارک کی سبیلیں تلاش کر رہی ہے۔ ہم سب کو بھی عید قرباں مناتے وقت اس پروٹوکول کا پورا احترام کرتے ہوئے التزام کرنا چاہیے جو کورونا کے سلسلے میں بتایا گیا ہے۔

قربانی سے جڑی ہوئی ہر آلائش اور گندگی سے پرہیز کو یقینی بنایا جائے۔ ویسے بھی یہ بات اس لئے دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسلام میں طہارت کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے اور ذرا سی گندگی اور آلودگی کے ساتھ عبادت بھی نہیں ہو سکتی ہے اور نہ اس کی کراہیت کو برداشت کیا جا سکتا ہے۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں۔)