عید قرباں ۔ ممنوعہ جانور کی قربانی نہ کریں،صفائی کا دھیان رکھیں ۔ علماء و دانشور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-07-2022
  عید قرباں ۔  ممنوعہ جانور کی قربانی نہ کریں،صفائی کا دھیان رکھیں ۔ علماء و دانشور
عید قرباں ۔ ممنوعہ جانور کی قربانی نہ کریں،صفائی کا دھیان رکھیں ۔ علماء و دانشور

 

 

منصور الدین فریدی : نئی دہلی

ممنوعہ جانوروں کی قربانی سے گریز کریں ،متبادل جانوروں کی قربانی کریں،قربانی کے دوران پردے کا انتظام رکھیں۔ قربانی کے بعد بھی پردے اور احترام کا خیال رکھیں۔ گوشت کی تقسیم بھی احتیاط سے کریں ۔ برادران وطن کے جذبات کا خیال رکھیں ۔اس کے ساتھ صفائی کو ’نصف ایمان‘ کی حیثیت سے اپنائیں ۔ 

عید قربان کے موقع پر ملک کے ممتاز علما اور دانشوروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ  قربانی کے دوران اور اس کے بعد مسلمان ہر کسی کے مذہبی جذبات کا احترام کریں،اس کے لیے احتیاط اور پردے کا خیال رکھیں بلکہ اس کے ساتھ  صفائی اور پاکیزگی کا بہت خیال رکھیں ۔ صفائی نصف ایمان قرار دی گئی ہے اور اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چا ہیے ۔  

 دلی کی فتح پوری مسجد کے امام مولانا مفتی محمد مکرم احمد نے مسلمانوں سے اپیل  کی ہے کہ ملک کے حالات اور مذہبی تعلیم کی روشنی میں قربانی کریں۔ قربانی کے لیے اگر اجازت کی ضرورت ہو تو وہ حاصل کی جائے۔علاقہ کے لوگ یا آر ڈبلیو اے اس سلسلے میں مقامی پولیس کے ساتھ رابطہ میں رہیں ۔پولیس کے ساتھ تعاون کریں ۔ سرکاری گائڈ لائن کی پابندی کی جائے۔انہوں نے کہا کہ  ایک اہم بات یہ ہے کہ قربانی کی تصاویر اور ویڈیو نہ بنائیں جائیں ۔نہ ہی اس قسم کا کوئی مواد سوشل میڈیا پر شئیر کیا جائے۔یہ موجودہ حالات کے ساتھ مذہبی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔

 مولانا مفتی مکرم نے مزید کہا کہ جو جانور ممنوع ہیں یا پھر جن کی قربانی سے برادرن وطن کے جذبات مجروح ہوتے ہیں انہیں نظر انداز کریں اور دیگر جانوروں کی قربانی کریں۔ آپ کے سامنے متبادل موجود ہیں ۔

قربانی تو دور کی بات انہیں ہاتھ نہیں لگایا جائے۔اس دوران تو مسلمان گائے کو دودھ کے لیے بھی نہ خریدیں کیونکہ کوئی غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے یا کوئی افواہ پھیل سکتی ہے۔ مولانا مفتی مکرم نے کہا کہ بات ڈر کی نہیں بلکہ مذہبی تعلیم کی ہے ،جس میں بتایا گیا کہ کہ کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں ،مذہبی رواداری  کا خیال رکھا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک اہم معاملہ صفائی کا ہے جس کو مذہب نے نصف ایمان کہا ہے۔ ہم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ قربانی سے پہلے اور بعد صفائی کا بہت خیال رکھنا ہوگا ۔کیونکہ یہ سب کی صحت کا معاملہ ہے۔ 

مولانا مفتی مکرم نے کہا کہ حکومت کو چاہیے اس موقع پر چوکسی برتے۔ ملک کو آزاد ہوئے 75سال ہوگئے ہیں جبکہ مسلمان چودہ سو سال سے اس ملک میں ہیں ،ہم اس سرزمین پر نئے نہیں ہیں ۔ اس کی گنگا جمنی تہذیب کے نگہبان ہیں ہم۔اس ملک میں ہمیشہ سب سے مل جل کر سب تہوار منائیں ہیں  اور مناتے رہیں گے۔یہی ہماری اصلی پہچان ہے۔ 

ممتاز اسلامی اسکالر اور خسرو فاونڈیشن کے ڈائریکٹر پروفیسر اختر الوسع نے کہا ہے کہ اس ملک میں گنگا جمنی تہذیب سب سے قیمتی وراثت ہے ،ہمیں اس کی حفاظت کرنی چاہیے ۔بقرعید کے موقع پر فریضہ تو ادا کرنا چاہیے لیکن ساتھ ہی دوسروں کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنا چاہیے ۔اس معاملہ میں اپنی مذہبی تعلیم کو یاد رکھنا چاہیے ۔آج اللہ رب العزت نے قربانی کے لیے متبادل جانور مہیا کئے ہیں ہمیں ان کا استعمال کرنا چاہیے۔ اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ قربانی کا مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں ہوسکتا ہے۔

اسلام نے صفائی پر بہت زور دیا ہے ۔دراصل پاکیزگی ،نفاست اور صفائی ہی آپ کی پہچان ہونی چاہیے ۔عید قربان کے موقع پر ایک طرح سے ہماری آزمائش ہوتی ہے،اس موقع پر ہمیں  نہ صرف  اس معاملہ میں بہت حساس ہونا چاہیے ۔ ہمیں قربانی سے پہلے اور قربانی کے بعد بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے قربانی کی آلائیش اور باقیات کو کھلی جگہ پر نہ ڈالیں ۔

انہوں نے  مزید کہا کہ اگر گندگی پھیلتی ہے تو اس کا شکار صرف  دوسرے نہیں بلکہ ہم خود بھی ہوتے ہیں ۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جو گندگی پھیلتی ہے وہ سب کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہے۔

  ممبئی کے ممتاز صوفی اسکالر اور انٹر نیشنل صوفی کارواں  کے سربراہ مولانا مفتی منظور ضیائی  نے کہا کہ میری تو یہ درخواست ہے کہ جو جانور ممنوع ہیں  مسلمان ان کی قربانی سے گریز کریں۔کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس لگے اور ماحول خراب ہو۔ہمارا  ہندوستان ایک خوبصورت ملک ہے  جس کا دارومدار  گنگا جمنی تہذیب کے بقا پر ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کریں ۔

مولانا مفتی ضیائی نے مزید کہا کہ قربانی سے پہلے اور بعد دونوں  وقت احتیاط سے کام کریں ۔اول تو قربانی کے لیے مناسب انتظام کریں ۔کھلے مقام پر قربانی نہ کی جائے۔بلکہ قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم ہو تو اس کو باقاعدہ ڈھک کر کیا جائے۔ہمارا مذہب  دلوں کو جوڑنے کا کام کرتا ہے نہ کہ فاصلے پیدا کرنے کا ۔ انہوں نے کہا کہ پیغمبر اسلام  کی تعلیمات کے مطابق ہماری زبان اور عمل سے کسی کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے 

 انہوں نے مزید کہا کہ صفائی کو نصف ایمان کہا گیا پہے اس لیے اخلاق اور رواداری کے ساتھ ہمیں اس کا بھی خیال رکھنا ہے۔ اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ بات صرف جسمانی پاکیزگی اور گھر کی صفائی کی نہیں  بلکہ اپنے علاقہ کی بھی ہے ۔اگر ہم صاف ستھرے نہیں رہیں گے تو ہماری قربانی کس کام کی ؟ جب اپنے علاقے میں کوڑا یا گندگی پھیلی ہوئی نظر آتی ہے تو شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے۔ 

ممبئی ممتاز عالم دین  مولانا  ظہیر عباس رضوی  نے اس معاملہ میں کہا کہ مہاراشٹر میں اس سلسلے میں ایک اپیل جاری کی ہے بقرعید کے تعلق سے  یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ  جو حکومت کی گائڈ لائن پر عمل کریں اور  اس کے خلاف نہ جائیں ۔جن جانوروں کی اجازت نہیں ہے اس کی قربانی  سے پرہیز کریں  کیونکہ اس سے امن وامان میں خلل پیدا ہوسکتا ہے۔ ہم کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ اگر کوئی جانور ایک بڑی قوم کے مقدسات میں شامل ہے تو اس کا احترام  کرنا لازمی ہے ؤ۔ اسی میں دانشمندی ہے اور یہی مذہبی تعلیم ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ قربانی کے بعد  مسلمانوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ قربانی کے دوران اور اس کے بعد گوشت کی تقسیم میں بھی احتیاط رکھیں۔ گوشت کو نہ تو کھول کر لے جائیں نہ ہی گوشت لانے یا لیجانے میں اس سے سڑک پر خون ٹپکے۔کسی کی دل آزاری نہ ہو۔تکلیف نےہو۔۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ قربانی کے سبب صفائی کا انتظام کریں ۔قربانی کے بعد کھال وغیرہ کو کھلے میں نہ ڈالیں۔یہ گندگی کسی کے لیے بہتر نہیں ہوسکتی ۔ سب سے پہلے تو اپنے علاقے میں ہی صحت کا مسئلہ بنے گی۔ یہ گندگی معاشرے کو پسند نہیں ،کوئی مہذب  معاشرہ گندگی کو پسند نہیں کرسکتا ہے۔ ہمارے مذہب میں صفائی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ  اسے نصف ایمان قرار دیا  گیا ہے۔ 

کولکتہ ناخدا مسجد کے امام  مولانا شفیق قاسمی  نے کہا کہ آج ملک کے حالات کے پیش نظر ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔قربانی کے لیے بڑے جانوروں کو نظر انداز کرنا ہی بہتر ہوگا،چھوٹے جانور کی قربانی سے ذمہ داری نبھا سکتے ہیں ۔ اگر آپ ملی جلی آبادی میں رہتے ہیں تو اس سے گریز کریں۔اگر چاہیں تو کسی اور علاقہ میں قربانی کرلیں تاکہ کسی کو ناگوار نہیں گزرے۔ ایک دوسرے کے جذبات کا احترام لازمی ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ قربانی کے بعد اگر گوشت کی تقسیم کرنی ہو تو  اس کو کالے پیکٹ  میں لے کر جائیں۔ گوشت کی نمائش ہو نہ ہی اس کی جھلک  نظر نہ آئے ،گوشت کو ڈھک کر لے جائیں۔ اس معاملہ میں ہمیں احتیاط  سے کام لینا ہوگا۔

کولکتہ کے امام عیدین مولانا قاری الطاف الرحمان  نے کہا کہ  عید قربان میں ہمیں برادران وطن کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔بڑے جانوروں کی قربانی سے گریز کریں۔اگر آپ کی ریاست اور شہر میں اس کی اجازت ہو تب بھی متبادل کا استعمال کر سکتے ہیں۔ قربانی کے لیے پردے کا انتظام کریں ۔ ممنوع جانوروں کی قربانی بالکل نہ کریں ۔یہ نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ مذہبی تعلیمات کے بھی خلاف ہوگا۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے حالات کے سبب ہمیں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کسی کو کوئی موقع نہیں دینا چاہیے۔ قربانی کے لیے پردے کا استعمال  کرنا بہتر طریقہ ہوگا۔ 

 

 

 

 

 

عید قرباں میں کیا ہمیں اپنی زندگی میں صفائی کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ قربانی کے موقع پر اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے ۔قربانی کے بعد کسی قسم کی گندگی نہ پھیلے۔ خون آلودہ کپڑوں کے ساتھ کہیں نہ گھومیں ۔ساتھ ہی اپنے علاقے کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے منظم اور اجتماعی پہل کریں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کا تعلق صحت سے ہے جو ہر کسی کے لیے ضروری اور اہم ہے۔