دلیپ کمار: ہند والو تمہارے ہاتھوں سے ایک روشن دماغ اور گیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-07-2021
عہد ساز دلیپ کمار
عہد ساز دلیپ کمار

 

awazurdu

 پروفیسر اخترالواسع

پچھلے چند مہینوں سے جس بات کا ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا وہ گھڑی منگل اور بدھ کی درمیانی شب میں آ ہی گئی جب ہندوستانی فلموں کے تاجدار، شہنشاہ جذبات، ٹریجڈی کنگ اور ایک تاریخ ساز شخصیت محمد یوسف خاں عرف دلیپ کمار کا انتقال ہو گیا۔ جو آیا ہے سو جائے گا بھی۔ دلیپ کمار نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور گزشتہ دو ایک برسوں کو چھوڑ کر وہ چاق و چوبند ہی رہے۔ دلیپ کمار نے ایک فوجی کینٹین میں پھل بیچنے سے جو کام شروع کیا تھا، جوار بھاٹا بن کر ان کو فلمی دنیا کی طرف بہا لے گیا۔ انہوں نے فلموں میں ہر کردار کو اس طرح نبھایا کہ وہ ان کی شخصیت کا ناقابل تقسیم حصہ بن جاتا تھا۔ وہ ہر کردار میں نہ صرف اتر جاتے بلکہ سچے معنوں میں ڈوب جاتے تھے۔انہوں نے بظاہر بہت کم فلمیں کیں لیکن ان میں سے زیادہ تر فلمیں آج بھی ہماری شخصیت اور شعور دونوں کی تعمیر و تشکیل میں اہمیت رکھتی ہیں۔

دلیپ کمار نے حرماں ویاس پر مبنی فلمیں کیں تو ان کی ذہنی کیفیات اور جسمانی صحت کو صحیح رکھنے کے لئے ڈاکٹروں نے انہیں عام تفریحی فلمیں کرنے کا مشورہ دیا اور پھر انہوں نے ٹریجڈی کے بعد کامیڈی میں وہ رنگ دکھائے کہ دنیا ان کا لوہا مان گئی۔ انہوں نے تاریخ کے انمٹ نقوش کو اپنی اداکاری سے نئی زندگی دی جس کے لئے صرف ایک مغل اعظم ہی نام کافی ہے۔ رومانیت کو انہوں نے پردے پر جس جس طرح پیش کیا اس کو کون بھلا سکتا ہے؟ انہوں نے اپنے عہد کے تمام بڑے ستاروں کے ساتھ جم کر کام کیا اور اپنے وجود اور فن کو منوایا وہ چاہے اشوک کمار ہوں یا راج کپور، دیو آنند ہوں یا راج کمار، شمی کپور ہوں یا امیتابھ بچن۔ منفی کرداروں میں پران ہوں یا جیون، پریم چوپڑہ ہوں یا امریش پوری، سب کے ساتھ انہوں نے اپنی شاندار اور جاندار اداکاری سے اپنی دھاک جمائی۔

فلموں کے علاوہ بھی دلیپ کمار نے سماجی، سیاسی اور ادبی زندگی میدانوں میں گہرے نقوش مرتب کئے۔ بلاشبہ ممبئی کو ہماری فلموں کی راجدھانی ہونے کا شرف حاصل ہے لیکن یہ بھی کم دلچسپ اتفاق نہیں ہے کہ فلمی دنیا کا خاندان اول کپور پریوار ہو یا دلیپ کمار کی صورت میں مردِ آہن اور پہلا خان ہو یا پھر شاہ رخ خان، ان سب کا تعلق پیشاور سے ہی ہے۔ پرتھوی راج کپور کا مکان ہو یا دلیپ کمار کی رہائش گاہ، دونوں کو حکومت پاکستان نے تاریخی ورثے کی حیثیت دے رکھی ہے۔ دلیپ صاحب ان خوش نصیبوں میں سے تھے جنہیں اگر ایک طرف ممبئی کا شیرف اور ہندوستان پارلیمنٹ (راجیہ سبھا) کے ممبر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تو حکومت پاکستان کی طرف سے وہ اعزاز سے سرفراز کئے گئے۔

وہ ملکہ ترنم نور جہاں ہوں یا سور کوکلا لتا منگیشکر، دونوں کو بھائی کی طرح عزیز تھے اور ساری نفرتوں اور عداوتوں کے بیچ ہمارے یہ فنکار برصغیر میں پُل کی طرح کام کر رہے تھے۔ دلیپ صاحب سے مجھے دو دفعہ ملنے کا خوش گوار موقعہ ملا۔ ایک دفعہ دہلی میں محمد یونس صاحب جو وزیر اعظم اندرا گاندھی کے بہت قریب تھے، کے گھر پر اور دوسرا ممبئی میں پروفیسر علی محمد خسرو کی سربراہی میں آغا خاں فاؤنڈیشن کے ایک پروگرام میں، جس کا مقصد علمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے کیا کوششیں کی جائیں اس پر غور وخوض کرنا تھا۔ دلیپ صاحب نے اور لوگوں کے علاوہ جو مشورے دیے وہ منطق، تدبر اور فراست کے بہترین نمونہ تھے۔ جس سے پتا چلتا تھا کہ وہ ایک اچھے اداکار ہی نہیں بلکہ فکرمند انسان بھی تھے۔

دلیپ صاحب جیسی صاف، ستھری اور شائستگی سے لبریز زبان بولتے تھے اس سے نسرین و نسترن کی خوشبو آتی تھی۔ ان کی شخصیت انتہائی نستعلیق تھی۔ دلیپ صاحب نے لمبی عمر پائی اور ان کی بیگم سائرہ بانو نے بھی ان کی رفاقت اور خدمت کا حق ادا کر دیا۔ دلیپ صاحب اب نہیں رہے لیکن پردہئ سیمیں پر ان کے لازوال کردار انہیں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ خدائے بزرگ و برتر ان کی سیات کو حسنات میں بدل دے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین