حکمراں جماعت سے سیاسی تعلقات کی کشمکش

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 30-09-2021
حکمراں جماعت سے سیاسی تعلقات کی کشمکش
حکمراں جماعت سے سیاسی تعلقات کی کشمکش

 

 

ارشد غازی، علی گڑھ

 یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان کے مسلمانوں اورحکمراں جماعت کے درمیان سیاسی خلیج مزید گہری ہوتی جارہی ہے۔ اس بارے میں دونوں ایک دوسرے پر انگلی اُٹھاتے نظر آتے ہیں۔ میرے نزدیک اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی اور جماعت کے مقابلے میں آج بھی ہندوستان کا مسلمان کانگریس کو اپنے لئے بہترخیال کرتا ہے۔ تو کیوں؟ حالانکہ جمہوریت میں نہ مستقل کوئی کسی کا دوست ہوتا ہے نہ مستقل دشمن! سارا کھیل مفادات کا ہے۔

یہ اس وقت بہت بڑا سوال ہے کہ مسلمان کیا کرے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں اسے بار بار سیاسی یرغمال بنا لیتی ہیں۔ اس کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اورسیاسی طور پر اُس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔

اِدھر کچھ ہفتوں میں، میں نے یونیورسٹی کے پروفیسروں، دانشوروں، تجارت پیشہ اور عام لوگوں سے اس سلسلے میں گفتگو کی کہ حکمراں جماعت اور مسلمانوں کے درمیان ذہنی خلیج کو کس طرح کم کیا جاسکتا ہے، اور اسباب جاننے کی کوشش کی۔ کئی لوگ ہیں جو اس وقت آر ایس ایس سے رابطے میں ہیں اور مفاہمت اور ڈائیلاگ کی بات کررہے ہیں۔ مسلمانوں کی حکومت سے کچھ بڑی شکایات ہیں جو ان کے مسائل نہیں۔

ان شکایات میں ملک بھر میں ماپ لینچنگ جیسے نہ تھمنے والے واقعات، مسلمان نوجوانوں کی بلا جواز گرفتاری، مسلم اکابر کی گرفتاری، سوشل میڈیا اور ٹی وی چینل پر مسلمانوں کے خلاف مسلسل پروپگینڈا، مسلم اداروں کی کردار کشی، یکساں سول کوڈ کا اطلاق جیسی شکایات شامل ہیں۔ 4جولائی2021 کو ایک کتاب کے اجراء کے وقت ڈاکٹر موہن بھاگوت نے ماپ لینچنگ کی کھلے لفظوں مذمت کی۔ اسے قابل تعزیر بتایااور حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ اس کے خلاف قانون بنائے، لیکن ان کی مذمت کے بعد بھی کئی نوجوان بھیڑ کے ہاتھوں بیدردی سے مارے گئے۔اور یہ سلسلہ تھمتا نظر نہیں آتا۔ جس کے سبب بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کو ذلت کا سامنا ہے۔

ایک پڑھا لکھا شخص اپنی مرضی کے مطابق کسی جماعت کو پسند یا نا پسند کرتا ہے۔ جس کے اس کے پاس منطقی دلائل ہوتے ہیں لیکن عوام کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ وہ سامنے کی شکایات، روز گار اور روزمرہ سے متاثر ہوکر فیصلے کرتا ہے۔ہندوستانی مسلمان ملک کا دوسرا سب سے بڑا معاشرہ ہے۔ اور اس کی ذمہ داریاں گھریلو سطح سے لے کر قومی سطح تک پھیلی ہوئی ہیں۔ انھیں ہر عوامی بحث کا حصہ بننا چاہئے۔ سیاسی عمل سے لاتعلقی کسی بھی طرح اسے نفع نہیں پہنچا سکتی۔ آپ کارگر ہوسکتے ہیں لیکن آپ ایسا نہیں کرتے۔ جب کہ آپ ملک کی سب سے بڑی اکثریت بھی ہیں۔ جو سیاسی پارٹیوں کی قسمت کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔دراصل ہمیں اپنی قوت کا مظاہرہ کرنا نہیں آتا۔

میں یاد دلاؤں گا ایک وقت وہ بھی تھا کہ ہر سیاسی پارٹی کا راستہ جامع مسجد کے امام عبداللہ بخاری کے حجرے سے ہو کر گرتا تھا۔ کیا جنتا پارٹی کی حکومت بنے یا 80 ء میں اندرا گاندھی کی سرکار۔ اندرا گاندھی کی شدید مخالفت کے بعد بھی اندرا جامع مسجد کے اس حجرے میں پہنچیں اور امام عبداللہ بخاری سے مسلمانوں کے مفادات سے متعلق معاہدے پر دستخط کئے اور اس طرح وہ مسلمان ووٹ کے سبب دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئیں۔

گزشتہ چھ دہائی سے ہم کانگریس کو ووٹ دیتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن کانگریس نے ہمیں سچر کمیٹی دی جس نے ہمیں بتایا کہ ہم ملک میں دلتوں سے بھی بُرے حال میں جی رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ذمہ دار کون ہے؟ آج ملک کی ترنگے والی کانگریس اپوزیشن کی پچھلی نشستوں پر براجمان ہے۔ہمیں ڈرایا گیا کہ بی جے پی آئی تو ملک ہندو راشٹر بنا دیا جائے گا۔ جہاں مسلمانوں کو جینے کے لئے ہر سانس کے بعد اُن سے اجازت لینا پڑے گی۔

میں اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ 1947 ء میں پاکستان اعلانیہ اسلام کے نام پر بنا۔ مسلمان اور کانگریس یہاں سیکولرازم کی ڈفلی بجاتے رہے، لیکن در حقیقت یہ ملک ہندوستان غیر اعلانیہ ہندو راشٹر ہی بنا تھا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو اب اس حقیقت کو مان لینا چاہئے کہ ملک میں کانگریسی سرکار بنے یا غیر کانگریسی۔ باگ ڈور ناگپور کے ہاتھ میں ہی ہوگی۔

ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ مسلمانوں کو ترقی کے جو وسائل اور امکانات یہاں میسر ہیں اور کسی ملک میں نہیں۔ ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں وہ عقل اور منطق کی بالا دستی کی دنیا ہے۔ سیاسی فیصلہ ہو یا سماجی! ہمیں ہر فیصلہ اپنے بہتر مستقبل کو سامنے رکھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی کوئی بھی پارٹی ہمارے لئے نہ بہت بُری ہونی چاہئے نہ بہت اچھی۔ ہمیں اپنی پسند نا پسند میں توازن قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔یہ سمجھتے ہوئے کہ ہندوستان سات برس پہلے جو تھا وہ آج نہیں ہے۔سیاسی افق پر بہت کچھ بدل چکا ہے۔اور سورج جو اِس وقت چمک رہا ہے وہ جلد نہیں گہنائے گا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کا مسلمان اپنی سیاسی بالیدگی کا مظاہرہ کرے۔ ہر شہر، گاؤں، قریہ میں ٹھینک ٹینک قائم کئے جائیں۔ ہرہفتے، پندرہ روز یا مہینے میں میٹنگ کی جائیں۔ دیگر علاقوں کے افراد سے رابطے میں رہا جائے اور مستقبل کے فیصلے غیر جانب داری کے ساتھ نہایت دانشمندی سے کئے جائیں۔

جنوبی ہند کے مسلمانوں نے آزادی کے بعد جس بات کو فوری سمجھ لیا تھا اسے شمالی ہند کے مسلمانوں نے سمجھنے میں تاخیر کی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو سیاسی استحکام اور شعور وہاں پا یا جاتا ہے شمال میں نہیں ملتا۔ اُن کی اِس ایکتا،اکھنڈتا اور بھائی چارہ کی فضا ایک سبق ہے ہمار ے لئے۔

اپنے ووٹوں کے بکھراؤ کے سبب مسلمان بی جے پی کو روکنے میں بُری طرح ناکام رہے ہیں۔ وہاں بھی جہاں اِن کے ووٹوں کی تعداد تیس سے پچاس فی صد تھی۔ پھر حال یہ ہوا کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم! نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔

مجھے آج یہ کہنے میں باک نہیں کہ بی جے پی کی قیادت مسلمان ووٹ چاہتی ضرور ہے مگر اس کی اپنی اصلاح پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ اس کا نشانہ محض وہی 28 فی صد ہندو ووٹ ہے، جو اسے ایوان ِ اقتدار تک لے جانے میں معاون بنتا رہا ہے، لیکن اسے کسی جمہوری ملک کے لئے خوش آ ئند نہیں کہا جاسکتا۔ بیس کروڑ مسلمانوں سے صرفِ نظر سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔ مسلم دانشوروں نے حکمراں جماعت کی چانکیہ نیتیوں کو دیکھتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ کسی بھی حال میں الیکشن جیتنے کا اس کارجحان ملک کے لئے تشویشناک ہے۔ ملک کے اصل بلکہ بنیادی مسائل بیروز گاری، حفظانِ صحت،تعلیم کے بجائے پورے ملک کے اس وقت نان ایشوز میں الجھایا گیا ہے۔

قومی اور بین الاقوامی ایسے کئی معاملات ہیں جن سے قوم بے خبر ہے۔گودی میڈیا کے علاوہ کچھ اچھے سیاسی مبصر بھی کچھ کہہ رہے ہیں، حکومت اُنھیں سنجیدگی سے نوٹس کرے۔ یہ ساری باتیں حکومت کا سیاسی قد کم کرنے کے لئے کافی ہیں۔ مسلمانوں سے بھی کچھ سیاسی غلطیاں ہوئی ہیں۔مثلاً آر ایس ایس کے ایک ذمہ دار اندریش کمارکہہ چکے ہیں کہ موپ لینچنگ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک مسلمان گائے کھانا نہیں چھوڑیں گے۔

میرے خیال سے گائے کو ہم نہ ہی کھائیں تو بہتر ہے۔ مسلمانوں کا قومی سطح پر بیان آ نا چاہئے۔حفظ امان کے تحت مغلیہ عہد میں گائے کے ذبیحہ پر مکمل پا بندی عائد رہی۔ ایک حدیث شریف کے مطابق گائے کا گوشت کھانے کو نا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ اطباء کہتے ہیں گائے کا دودھ دوا ہے، گھی شفا ہے گوشت زہر ہے۔ اس کے بعد گائے سے دستبردار نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔

تین طلاق پر ہم ایک بار پھر چوکے۔ اِدھر وہی بات جو حکومت نے غیر معقول طور پر نافذ کی اسے معقولیت کے ساتھ مسلم پرسنل لاء کے پرچم تلے نافذ کیا جاسکتا تھا۔ بابری مسجد کا فیصلہ بھی ہماری سیاسی بصیرت پر سوال کھڑے کرتا ہے۔

اسی فیصلے کی مسلمان اگر اپنی طرف سے پیش کش کرتے تو حالات کچھ اور ہوتے۔مسلمان ملکوں میں مسجدیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئی ہیں۔ جب کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی املاک اور جان پر آتی تباہی روکنے کے لئے مسجد منتقلی کا فیصلہ ائمہ کو کرنا چاہئے تھا جووقت پر نہیں کیا گیا۔ اب یکساں پرسنل لاء پر بادل منڈلا رہے ہیں۔ میرے خیال سے اس پر کسی بڑے وفد کو حکومت کے اعلیٰ ذمہ داروں سے بڑھ کر بات کرنی چاہئے۔ تاکہ نقصان کم سے کم ہو۔ این آر سی اور سی اے اے پر مسلمانوں کا موقف بھی درست نہیں سمجھا جا سکتا۔اِس پر مسلمانوں نے شاہین باغ برپا کر دیا۔

امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں کہاتھا: ملک کا گرہ منتری مسلمانوں کو یقین دلاتا ہے کہ این آر سی اور سی اے اے مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے۔ مسلمان نہیں مانا۔ پھر مودی نے دہلی کے رام لیلا میدان میں پانچ دفعہ مسلمانوں کا نام لے کر کہا کہ این آر سی اور سی اے اے مسلمانوں کے خلاف ہرگز نہیں ہے۔ اس کے بعد مسلم دانشوروں کا کام تھا کہ وہ فوری طور پر وزیر اعظم سے ملتے اور انھیں این آر سی اور سی اے اے پر اپنی حمایت کا یقین دلاتے۔ لیکن مسلمان دانشوروں نے یہ کام بھی نہیں کیا۔ اس بات کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ این آر سی اور سی اے اے کا بِل کانگریس کا پیش کردہ ہے مگر ہم آج بھی کانگریس کے خیمے میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اور اسی کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔

بی جے پی کا شجرہ ئ ممنوعہ سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ یہ دنیا کی سب بُری جماعت ہے۔ درست فیصلہ نہیں کہلائے گا۔ گزشتہ سال سر سید ڈے پر وزیر اعظم مودی کو بلانے اوراُن کی تقریر کو لے کر مسلمانوں میں بہت ہیجان تھا۔ مگر جب انھوں نے تقریر کی تو سب کو سانپ سونگھ گیا۔

انھوں سر سید کے کام کو نہ صرف سراہا بلکہ اسے قابل تقلید بتایا اور یونیورسٹی کو ثقافتی ورثہ قرار دیا۔اور اعلان کیا کہ اُن گمنام مسلمانوں کی خدمات پر مضامین لکھے جائیں جنھوں نے جنگ آزادی میں بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔حکومت نہ صرف لکھنے والوں کو معاوضہ دے گی بلکہ کام کو انڈیابک ٹرسٹ کے تحت شائع بھی کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کے اس قدم کو ایک مثبت قدم کہا جائے گا۔ لیکن ہم اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یاد رکھئے مخالفت کرنا آپ کا حق ہے کہ اس سے راہیں نکلتی ہیں۔لیکن مخاصمت موت ہے اسے مسلمانوں کو بھی سمجھنا ہوگا اور بی جے پی اور آر ایس ایس کو بھی۔

سیاسی نظریہ کوئی عقیدہ نہیں ہوتا کہ بدلا نہ جاسکے، بنچ آف ٹھاٹ سے وہ تمام متنازعہ جملے جو مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف تھے آر ایس ایس نکال چکی ہے۔ اس کے بعد ڈائیلاگ کا راستہ ہموار ہوا ہے۔ مسلمانوں کو اس موقع کو غنیمت جاننا چاہئے۔ اور اپنے مسائل کے حل کے لئے وزیر اعظم سے ملنا چاہئے۔ یاد رکھئے جس طرح آپ کو اپنے مسائل کے حل کے لئے اُن کی ضرورت ہے اسی طرح وزیر اعظم کو بھی آپ کا انتظار ہے۔

مودی جی کے کچھ جملے جو اس حوالے سے رائے قائم کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے ہجومی تشدد میں ملوث افراد کو غنڈہ عناصر بتایا اور اس کی مذمت کی۔ اندور کی ایک مسجد میں پہنچے اور مسلمانوں سے گھل مل گئے۔ دوسری بار وزیراعظم بننے پر مسلمانوں کا اعتماد جیتنے کے لئے اپنے سابقہ نعرے ”سب کا ساتھ سب کا وکاس“ میں اضافہ کیا سب کا وشواس۔مسلم نوجوانوں کو اپنی تعمیر و ترقی کے حوالے سے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر رکھنے کی تلقین کی۔اپنے رنگون کے دورے پر وہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قبر پر گئے اور حاضری درج کروائی۔اقلیتوں کے لئے قومی کونسل کی تشکیل کی گئی۔

یہی نہیں وزیر اعظم نے کہا:اس دنیا کے لئے اسلام کی سب سے بڑی خدمت تصوف کا پیغام ہے۔ تصوف کا پھول ہندستان کی کشادگی اور تکثریت میں کھلا ہے۔انھوں نے کہا کہ خواجہ معین الدین چشتی نے کہا کہ اللہ کو عاجز اور مظلوموں کی راحت رسانی بہت پسند ہے۔

انھوں نے کہا میں انھیں سلام پیش کرتا ہوں جنھوں نے مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کو مسترد کردیا۔ انھوں نے ایک جلسے میں کہا کہ ہم جب فلاحی منصوبوں پر عمل کرتے ہیں تو نہیں پوچھتے کہ وہ کس مندر یا مسجد میں جاتا ہے۔ انھوں نے بار بار مسلمانوں کے بھروسے اور اعتماد کو جیتنے پر زور دیا۔مودی جی نے موہن بھاگوت جی کی بات کو ایک بار دہرایا کہ ہندتوا کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان یہاں نہیں رہ سکتے۔

یہاں ایک بات کا ذکر ضروری ہے کہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے کہا: کہ متھرا اور کاشی کی مساجد کو گرانا ہمارے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ سنگھ بھائی چارے کی بات کرتا ہے۔ یہ بھائی چارہ کثرت میں وحدت کا تصور پیش کرتا ہے۔

ان سب باتوں کے باوجود ابھی حکمران جماعت کو مسلمانوں کا بھروسہ جیتنے کے لئے عملی طور پر بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ویسے بھی وہ حاکم ہے اس کو زیادہ کچھ کرنا ہوگا۔ اگر ہم واقعی ایک نئے ہندوستان کی تعمیر چاہتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ ہندوستان عالمی قیادت کا بار اٹھائے تو پھر اسے اپنے عوام کا اعتماد بغیر جیتے یہ منصب حاصل نہیں ہو پائے گا۔ نعروں سے ہم تاریخ نہیں مرتب کر سکتے۔

وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے