کیا ایک مسجد میں ایک نماز کی کئی جماعتیں ہوسکتی ہیں؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 02-05-2022
کیا ایک مسجد میں ایک نماز کی کئی جماعتیں ہوسکتی ہیں؟
کیا ایک مسجد میں ایک نماز کی کئی جماعتیں ہوسکتی ہیں؟

 

 

 ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

سکریٹری شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند، نئی دہلی

مسلمانوں میں پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی کے سلسلے میں تو اتنی بیداری نہیں ہے جتنی مطلوب ہے ، لیکن الحمد للہ جمعہ اور عیدین کی نمازیں وہ بہت اہتمام سے پڑھتے ہیں اور ان کی بہت بڑی تعداد ان نمازوں میں شریک ہوتی ہے۔

چنانچہ مسجدیں تنگ پڑ جاتی ہیں اور بہت سے لوگ سڑکوں پر نماز پڑھنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اگرچہ لوگوں کو آمد و رفت میں کچھ زحمت ہوتی تھی ، لیکن ایک مذہبی عمل ہونے کی وجہ سے اسے گوارا کیا جاتا رہا ہے _ اِدھر کچھ عرصے سے ہندو شدّت پسندی میں اضافہ ہوا ہے اور ہندوتو کے علم بردار اسلامی مظاہر اور شعائر سے چڑھنے لگے ہیں ، چنانچہ ان کی طرف ان کی مخالفت میں آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔

تعلیم گاہوں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے کی مخالفت ، ہندو تہواروں کے موقع پر گوشت فروخت کرنے پر پابندی اور لاؤڈ اسپیکر کی بلند آواز سے اذان دینے کی ممانعت اس کی چند مثالیں ہیں۔اب یہ آواز بھی اٹھنے لگی ہے کہ جمعہ اور عید کی نمازیں مسلمانوں کو سڑکوں پر نہیں ادا کرنے دی جائے گی۔

شدّت پسندوں کے دباؤ میں حکومت ، انتظامیہ اور پولیس کے ارادے بھی ایسے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ نمازیں اصلاً مسجدوں اور عید گاہوں ہی میں ہونی چاہییں۔ اسی لیے ان کی تعمیر ہوتی ہے۔

ہر جگہ جہاں مسلمان آباد ہوتے ہیں سب سے پہلے مسجدوں کی تعمیر کرتے ہیں ، لیکن حالات کی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ بہت سی مسجدیں آباد نہیں رہ سکیں ، ان پر غیروں نے قبضہ کرلیا اور حکومتوں نے بھی انہیں آثارِ قدیمہ کی فہرست میں شامل کرکے ان میں نمازوں پر پابندی عائد کردی۔

مرکزی اور ریاستی سطح پر اوقاف کی وزارتیں ، فاؤنڈیشن اور ٹرسٹ مسجدوں اور دیگر موقوفہ جائدادوں کے تحفظ کے لیے قائم کیے گئے تھے ، لیکن وہ اپنی ذمے داریاں صحیح طریقے سے انجام نہ دے سکے۔ اگر یہ تمام مسجدیں مسلمانوں کی تحویل میں دے دی جائیں تو مسجدوں کے باہر نماز پڑھنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔

اب اگر مسلمانوں کو جمعہ اور عیدین کی نمازیں مسجدوں کے باہر نہ پڑھنے دی جائیں اور ان کی ادائیگی انہیں ہر حال میں مسجدوں کے اندر ہی کرنی پڑے تو سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا ایک مسجد میں ایک نماز کی کئی جماعتیں ہوسکتی ہیں؟

حنابلہ کے نزدیک مسجد میں عام حالات میں کسی بھی نماز کی دوسری جماعت کی جاسکتی ہے۔ وہ دلیل میں ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص مسجدِ نبوی میں آیا۔اس وقت جماعت ہوچکی تھی _ وہ شخص تنہا نماز پڑھنے لگا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے دیکھا تو فرمایا : کون شخص اس پر صدقہ کرے گا؟ (یعنی اس کے ساتھ نماز میں شامل ہوجائے گا ، تاکہ اسے جماعت کا ثواب ملے۔) یہ سن کر ایک شخص اس کے ساتھ نماز میں شامل ہوگیا۔(مسند احمد)

فقہائے احناف نے عام حالات میں ایک مسجد میں ایک نماز کے لیے ایک سے زائد جماعتوں کو مکروہ قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اسے جائز قرار دے دیا جائے تو پہلی جماعت میں شرکت کے معاملے میں لوگ سستی کا مظاہرہ کرنے لگیں گے۔بعض احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ کسی کام سے مدینہ کے مضافات میں تشریف لے گئے ، واپسی میں دیر ہوگئی اور صحابہ نے آپ کا انتظار کرکے نماز پڑھ لی تو آپ گھر تشریف لے گئے اور وہاں گھر والوں کے ساتھ نماز ادا کی۔ (مجمع الزوائد ، الطبراني فی الکبیر و الاوسط) لیکن اگر کسی وجہ سے مسجد میں تمام نمازیوں کے لیے بہ یک وقت نماز ادا کرنا ممکن نہ ہو تو ان کے نزدیک بھی تھوڑے تھوڑے وقفے سے کئی جماعتیں بلا کراہت کی جاسکتی ہیں۔