جب کلیم عاجز کو بچانے بدری نارائن گپتا آئے آگے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
جب کلیم عاجز کو بچانے بدری نارائن گپتا آئے آگے
جب کلیم عاجز کو بچانے بدری نارائن گپتا آئے آگے

 

 

awazthevoice

 

ثاقب سلیم، نئی دہلی

ہندوستان میں آزادی کے بعد جن اردو شعرا نے لکھنا شروع کیا، ان میں کلیم عاجز کا اہمیت کا حامل ہے۔

پدم شری انعام یافتہ کلیم عاجز نے پہلی مرتبہ سنہ 1949 میں ایک مشاعرہ میں شرکت شروع کی تھی۔ شروع سے ہی کلیم عاجز کی شاعری تقسیم کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے درد کی بھرپور عکاسی کرتی رہی۔

سنہ 1946 میں تلہارا نالندہ (بہار) میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں ڈاکٹر کلیم عاجز نے اپنی والدہ اور ہمشیرہ سمیت خاندان کے دیگر 22 افراد کو کھویا تھا۔ فسادات کے بعد زیادہ تر وہ مسلمان جنہوں نے اپنے خاندان کے افراد کو کھوا تھا، پاکستان ہجرت کر گئے۔

تاہم کلیم عاجز کو اپنے وطن سے بے پناہ محبت تھی، وہ ہندوستان میں ہی رہے، سیاسی تحریکوں میں بھی حصہ لیا اور تعلیم کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی شاعری  تقسیم ہند کے درد و الم کی تصویر بیان کرتی ہے۔ وہیں کلیم عاجز نے ایک ایسے شاعر کے طور پر شہرت حاصل کی جو طاقتور لوگوں کے سامنے بے خوف ہوکر گفتگو کر سکتے تھے۔

سنہ1957 میں انہوں نے لوگوں کی فرمائش پر ایک نظم لکھی۔ یہ نظم ریاست بہار کے اس وقت کے گورنر ڈاکٹر ذاکر حسین کے سامنے یوم آزادی کی تقریب کے دوران سنائی گئی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ تعریفی نظم لکھیں گے مگر انہوں نے اپنی نظم میں لوگوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو بیان کیا۔ انہوں نے اپنی نظم میں لوگوں کو اس تشدد کی یاد دلائی جو ملک میں آزادی کے بعد ہوا تھا۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے آزادی کے ساتھ ساتھ تقسیم کے تشدد کے متاثرین کو یاد کرنے کے لیے ایک دن مختص کیا ہے۔

کلیم عاجز نے جب سے شاعری شروع کی تھی تب سے لوگوں کو درد و الم کی باتیں بتاتے رہے ہیں، جو ان پر گزری ہے، اس کو وہ بیان کرتے رہے۔  اور لوگوں کو ظلم کے خلاف لڑنے کے لیے، حق بات کہنے کے لیے شاعری کرتے رہے۔ 15 اگست 1957 کو ڈاکٹر ذاکرحسین کی موجودگی میں انہوں نے یہ شعر پڑھا:

یاد ہے آپ  کو   ہر   روشِ    گلشن    پر

 پھول روندے ہوئے، مسلی ہوئی کلیاں کہیے

کلیم عاجز ایک پرامید اور بااصول انسان تھے جن کا ماننا تھا کہ ملک کو خود غرض سیاستدانوں نے برباد کر دیا ہے، اس ملک سے غداری کی ہے۔ جب کہ انہوں نے غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف متحد ہو کر لڑنے والے ہندوستان سے کبھی امید نہیں ہاری۔ اپنی سوانح عمری میں، عاجز لکھتے ہیں؛ "آزادی سے پہلے ہندوستانی سیاست کا ایک اہم اور اعلیٰ روحانی مقصد تھا۔ اس مقصد نے ہندوستان کو ہار کی موتیوں کی طرح متحد کیا ہوا تھا۔ یہ تمام لوگ الگ الگ شناخت رکھتے تھے لیکن ان کا رشتہ مشترکہ تھا، یعنی وہ ایک ہندوستانی تھے۔

اسی قومی اتحاد کی وجہ سے آزادی کا حصول ممکن ہو سکا۔ ہندوستانی جدوجہد آزادی اورقومی اتحاد کی جن باتوں کو انہوں نے پیش کیا وہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔ جس علاقے میں کلیم عاجز تقسیم ہند سے قبل رہتے تھے وہاں یعنی نالندہ میں سنہ 1946 میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران سینکڑوں مسلمان مارے گئے تھے۔

مسلمانوں کے زیادہ تر مکانات اور جائیدادوں پر بعد میں ان لوگوں نے قبضہ کر لیا جنہوں نے انہیں تباہ کیا تھا۔ عاجز کے گھر کو عارضی طور پر تھانے میں تبدیل کر دیا گیا۔

ان کا خیال تھا کہ تشدد کے دوران تباہ ہونے والی جائیدادوں کو تشدد کے مرتکب افراد کے پاس نہیں جانا چاہیے کیونکہ اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ آزادی کے فوراً بعد انہوں نے حکومت کو پیشکش کی کہ تھانے کو وہاں سے منتقل نہ کیا جائے اوراس کے علاوہ وہ حکومت کواپنی وراثتی زمین بھی عطیہ کرنے کو تیار ہیں۔

awazurdu

ڈاکٹر کلیم عاجز 

ایمرجنسی کے بعد جب کرپوری ٹھاکر ریاست بہار کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے حکم دیا کہ ان کے گھر پر بنے تھانے کو منتقل کر دیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ دن پہلے ٹھاکر نے وعدہ کیا تھا کہ ان کے آبائی گھر کو بچایا جائے گا۔ تین دہائیوں کی قانونی جنگ کے بعد کلیم عاجز ایک شکست خوردہ انسان بن گئے تھے۔

تاہم وہ ہارے تھے، مگرابھی ہندوستان میں بہت کچھ بچا ہوا تھا اور ملک نے اپنی روح کو باقی رکھا ہوا تھا، یہاں بھائی چارہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔

کلیم عاجز نے یاد کیا کہ جب حکومت بے بس تھی تو خدا کے مختلف منصوبے تھے۔ جس دن حکومت نے تھانے منتقل کرنے کا حکم دیا، تلہاڑہ کے ایک مالدار آدمی ان سے ملنے آئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ ان کا آبائی گھر خریدنا چاہتے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ میں اس گھر میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں کروں گا۔ آپ جب چاہیں اپنے آبائی گھر میں جا سکتے ہیں اور رہ سکتے ہیں۔ وہ شخص بدری نارائن گپتا تھے جو ہندو قوم سے تعلق رکھتے تھے۔

بدری نارائن گپتا نے کلیم عاجز کا مکان خریدنے کے لیے 32,500 روپے ادا کیے جو کہ 1979 میں ایک بہت بڑی رقم تھی۔ اپنی موت تک جب بھی کلیم عاجز اپنےآبائی گھر جاتے، بدری نارائن گپتا ان کی خصوصی مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔

ان کے لیے خصوصی بسترتیار کرتے اور ان کے کھانے پینے کا عمدہ نظم کرتے تھے۔ اس کے علاہ بدری نارائن گپتا نے وہاں کی عیدگاہ کے نگراں کا بھی کردار ادا کیا، جب کہ اس علاقے میں کوئی مسلمان نہیں تھے۔ عاجز لکھتے ہیں کہ کعبہ کو بت پرستوں کے درمیان ایک نگران مل گیا تھا۔

اب وہ ہندوستانی معاشرہ کہاں ہے،جس کے لیے ہمارے باپ دادا لڑائی کی تھی؟