عزیز الحق: فنگر پرنٹ کی درجہ بندی کے نظام کے موجد

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
عزیز الحق
عزیز الحق

 

 

 ثاقب سلیم

مادی دولت کو لوٹنے کے علاوہ یوروپی نوآبادیاتی نظام نے ہندوستانیوں کی  فکری ملکیت پر بھی زبردست ڈاکہ ڈالا ہے ۔ لگ بھگ دو صدیوں تک انہوں نے ہندوستانیوں کیکی ہوئی ایجادات اور دریافتوں کو اپنا بتایا ۔ اسی طرح کی سینکڑوں بدنصیب دریافتوں میں سے ایک ہے ’فنگر پرنٹس کا ہنری درجہ بندی کا نظام‘ ۔

اس سسٹم کا نام اس کے مبینہ ’’ سرخیل ‘‘ سر ایڈورڈ ہنری کے نام پر رکھا گیا جو ، 1890 میں بنگال پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) تھے ۔ در حقیقت یہ نظام دو ہندوستانی سب انسپکٹرز نے وضع کیا تھا جن کے نام ہیں عزیز الحق اور ہیم چندر بوس۔ دنیا کے پہلے فنگر پرنٹ بیورو کو ان کی نگرانی میں 1897 میں کولکتہ میں قائم کیا گیا تھا۔

عزیز الحق نے اس کو ریاضی کی بنیاد فراہم کی جبکہ بوس نے اسے مربوط بنا کر اور اس کی درجہ بندی کر کے اسے مکمل کیا۔

نوآبادیاتی حکمرانوں کی روایتی بد دیانتی کے نتیجے میں اس کا سہرا ہنری کو دیا گیا اور اس نظام کا نام اسی کے نام پر رکھا گیا ۔ جب ہنری نے 1900 میں اپنا مقالہ "درجہ بندی اور فنگر پرنٹس کے استعمال" شائع کیا تو اس نے ان دو دو ہندوستانی سب انسپکٹروں کے کردار کا ذکر تک نہیں کیا۔

عزیز الحق اور بوس کے کردار کو اجاگر کرنے کے لئے میں دو مضمونوں کی سیریز لکھ رہا ہوں۔ مضمون کے پہلے حصے میں میں حق کے کردار پر گفتگو کروں گا جبکہ دوسرے حصے میں بوس کی شراکت کی وضاحت کی جائے گی۔

عزیز الحق 1872 میں بنگال کے ضلع کھلنا میں پیدا ہوئے۔ والد کی وفات کے بعد انہوں نے گھر چھوڑ دیا اور کولکتہ میں گھریلو ملازم کے طور پر کام کرنے لگے ۔ جس شخص کے یہاں انہوں نے کام کیا اس نے ان کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد کی اور حق کولکتہ کے مشہور پریسیڈنسی کالج تک پہنچ گیے ۔ 1892 میں انہوں نے پولیس کے شماریات کے شعبے کی نوکری شروع کر دی ۔

سن 1897 میں بنگال حکومت نے مجرموں کی شناخت کے لئے ہینری کے درجہ بندی طریقہ کار کو اپنایا اور اس کے لئے پہلا بیورو کولکتہ میں قائم کیا گیا ۔ بہت جلد تقریبا ہر ملک نے اس نظام پر عمل کرنا شروع کر دیا ۔ حقیقت میں اس نظام کی شروعات کسی اور نے نہیں بلکہ عزیز الحق اور بوس نے کی تھی۔

ایس ای ہائلوک نے "فنگر پرنٹ ورلڈ" کے ایک ایڈیشن میں لکھا ، "ایسا لگتا ہے کہ عزیز الحق نے اس درجہ بندی کے نظام کی بنیاد وضع کی ہے جسے ہم اب جانتے ہیں اور اسے اپنے مالک ، ایڈورڈ ہنری کے پاس لے گئے۔" جون 1925 میں ، اڑیسہ اور بہار کے چیف سکریٹری نے عزیز الحق کے نام کو اعزاز کے لئے سفارش کرتے ہوئے لکھا کہ حق نے فنگر پرنٹس کی درجہ بندی پر تحقیق کی اور ان کی ابتدائی درجہ بندی نے ہنری کو یقین دلایا کہ انگلیوں کے نشانوں کی درجہ بندی کرنے کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد ، حق نے فنگر پرنٹس کی مزید درجہ بندی کے ارتقا میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

سن 1922 میں انڈیا آفس کے ایک افسر ایف ڈبلیو ڈیوک نے ہنری سے بات کرنے کے بعد بہار اور اڑیسہ کے گورنر کو خط لکھا۔ اس خط میں انہوں نے لکھا ہے ، "عزیز الحق نے اس درجہ بندی کو وضع کیا جو اب نہ صرف ہندوستان میں بلکہ عملی طور پر پوری مہذب دنیا میں نافذ ہے۔

لیکن اس کے بعد ڈیوک نے بد دیانتی کرتے ہوئے ہندوستانی پولیس آفیسر کی کارنامے کو کمتر بتاتے ہوئے لکھا ، "اس دریافت کے لئے شاید کسی غیر معمولی صلاحیت کی ضرورت نہیں ہوئی ہوگی کیونکہ اگر عزیز الحق اسے نہ کرتا تو کوئی دوسرا کر لیتا "۔

کیا یہ مذاق نہیں لگتا ؟ یہ کہنا بلکل ایسا ہے کہ کوئی کہے کہ اگر نیوٹن نہ کرتا تو کوئی بھی دوسرا کشش ثقل کے قوانین کو دریافت کر لیتا ۔ یہ اس تعصب اور نفرت کا ننگا مظاہرہ ہے جو یورپی نوآبادیات کو ہندوستانیوں سے تھی ۔

ایڈورڈ ہنری نے 1926 ء تک اپنی کسی بھی تحریر یا تقاریر میں عزیز الحق کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا ۔ بعد میں انہوں نے حق کا نام تو لیا لیکن ادھورے من سے اور کہا کہ ، " یہ دریافت ٹیم ورک کا نتیجہ ہے ۔" یہ قبول کر لینے کے بعد بھی کہ عزیز الحق اس نظام کی درجہ بندی کرنے والا اہم ترین کردار ہے , ہنری اس نظام کو وضع کرنے کا سہرا عزیز الحق کو دینے کے لئے تیار نہیں تھے ۔

افسوس کی بات ہے کہ 1947 میں اس غلامانہ نظام سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی ہم نے ابھی تک اپنی فکری صلاحیتوں کو استعمار کا غلام بنا رکھا ہے اور اپنے فلسفیوں ، سائنس دانوں اور موجدوں کی خدمات کا اعتراف کرنے سے دور بھاگتے ہیں ۔ ہم اپنے کسی کارنامے یا دریافت کے لئے مغرب کی توثیق اور پزیرائی کے متمنی ہوتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم استعمار کے بناے بیانئے کو مسترد کر دیں اور اپنی کامیابیوں کا پتہ لگانے کے لئے سرگرداں ہوں ۔