پنباری مسجد: اسلامی فن تعمیر کا شاہکار

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 23-11-2022
پنباری مسجد: اسلامی فن تعمیر کا شاہکار
پنباری مسجد: اسلامی فن تعمیر کا شاہکار

 

 

شمس الہدیٰ پٹگیری/ گوہاٹی

شمال مشرقی ریاست آسام میں جو تاریخی عمارتیں اور مساجد ہیں، ان میں ایک پنباری مسجد بھی ہے۔جسے رنگامتی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دھوبری ضلع میں واقع ہے۔

کچھ مورخین کا خیال ہے کہ یہ جنوبی آسام کی پہلی مسجد تھی۔ یہ مسجد دھوبری شہر سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ 15ویں اور 16ویں صدی میں تعمیر ہونے والی تین گنبد والی یہ مسجد اسلامی فن تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ 

رنگامتی مسجد بنگال کے سلطانوں کے روایتی فن تعمیر کی اعلیٰ شاہکار ہے۔ مسجد کا فن تعمیر اندر اور باہر سے متاثر کن ہے۔اس کا خوبصورت گنبد مغلیہ دور کے اسلامی فن تعمیر کی جھلک دکھلاتا ہے۔

awazthevoice

رنگامتی مسجد یا پنباری مسجد کی تعمیر کی تاریخ کے بارے میں دو آراء رائج ہیں۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ پنباری مسجد بنگال کے سلطان علاؤالدین حسین شاہ نے 1493 اور 1519 کے درمیان بنائی تھی۔ کومتا پور کی سلطنت کو فتح کرنے کے بعد انہوں نے اپنی فتح کا جشن منانے اور نماز ادا کرنے کے لیے یہ مسجد بنائی۔ جب کہ دیگر کا خیال ہے کہ یہ مسجد 1662 میں مغل حکمران اورنگ زیب اور بنگال کے نواب کے جنرل میر جملا نے آسام پر حملے کے دوران تعمیر کی تھی۔

مسجد کے ساتھ ہی ایک خوبصورت عیدگاہ اور ایک کنواں بھی ہے جو غالباً ایک ہی وقت میں بنایا گیا تھا۔مسجد کےاحاطے میں بعد میں ایک مینار بھی بنایا گیا ہے۔ اس مسجد میں تقریباً150 لوگ بیک وقت نماز پڑھ سکتے ہیں۔ رنگامتی کبھی کونچ بادشاہوں کی سلطنت میں ایک خوشحال جگہ ہوا کرتی تھی۔ یہ ٹوپی بازار کے ساتھ کونچ سلطنت کا ایک اہم سرحدی قلعہ تھا۔  اس علاقے کے لوگ قریبی سرحدی صوبے گارو کے ساتھ معاشی طور پرروابط رکھے ہوئے تھے۔

awazthevoice

تاہم بعد میں آسام کے حملہ آوروں نے بنگال کے سلطان اور مغل سلطنت پر قبضہ کرلیا اور اسے پڑوسی آہوم سلطنت کے خلاف استعمال کیا۔ اگرچہ بعض مورخ کا خیال ہے کہ یہ علاقہ علاؤالدین حسین شاہ کا صدر مقام تھا اور پنباری مسجد مسلمان سپاہیوں کی واحد عبادت گاہ تھی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس مسجد کو مقامی لوگوں نے تقریباً 200 سال قبل پنباری پہاڑیوں کے جنگل کے بیچوں بیچ دریافت کیا تھا۔ انہوں نے اسے صاف کیا اور بعد میں یہاں عبادت شروع ہوگئی۔  یہ علاقہ اب ایک مذہبی سیاحتی مقام ہے۔ علاقے میں کھدائی سے مغل شہر کی باقیات، اینٹوں کی قربان گاہیں، جلے ہوئے مٹی کے برتن وغیرہ برآمد ہوئے ہیں۔

پنباری مسجد بھی آسام میں قومی اہمیت کی یادگاروں میں سے ایک ہے۔ اس کے ارد گرد بکھرے کھنڈرات آسام کی ریاستی محفوظ یادگاروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ اسلام کے اہم تہوار، عید الفطر اور عیدالاضحیٰ، پنباری مسجد میں تزک و احتشام کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔اس مسجد میں اندرون و بیرون ملک سے مختلف زائرین آتے ہیں۔

awazthevoice

یہاں ہر جمعہ کو بہت سے لوگ جمع کر جمعہ کی نماز ادا کرتے ہیں۔ پنباری مسجد قومی شاہراہ نمبر ایک پر واقع ہے۔

پنباری مسجد تک جانے کے لیے دھوبری،گوہاٹی اور کوچ بہار سےباقاعد بسیں جاتی ہیں۔ یہ فقیراگرام ریلوے اسٹیشن سے تقریباً 30 کلومیٹر دور ہے۔ جب کہ ہوائی اڈے سے اس مسجد کی دوری دو سو کلو میٹر ہے۔