مولانا محمود مدنی کی اپیل اور عامر ادریسی کی ایک مثبت کوشش

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
مولانا محمود مدنی کی اپیل اور عامر ادریسی کی ایک مثبت کوشش
مولانا محمود مدنی کی اپیل اور عامر ادریسی کی ایک مثبت کوشش

 

 

prof akhtarul wasay

پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی

ایک ایسے وقت میں جب کہ چند شرپسند عناصر ہمارے وطن عزیز کے سیکولر تانے بانے کو چھن بھن کر دینا چاہتے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کسی مسجد، مقبرے یا مزار کے خلاف کوئی فتنہ پردازی نہ ہوتی ہو۔

مسلمانوں سے زیادہ اس پر ہمارے برادرانِ وطن پریشان ہیں۔ ایسے وقت میں مسلمانوں کا مضطرب ہونا اور مسلم سماج میں ہیجان کی کیفیت پیدا ہونا فطری بات ہے لیکن یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ مسلمان صبروتحمل کا دامن نہیں چھوڑ رہے ہیں اور ان کی قیادت کے اکثر لوگ اس سلسلے میں قابلِ تعریف رول انجام دے رہے ہیں اور اس میں ایک انتہائی دردمندانہ اور دانشمندانہ اپیل جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ:

۱۔ گیان واپی مسجد وغیرہ کے مسئلے کو سڑک پر نہ لایا جائے اور ہر طرح کے عوامی مظاہروں سے گریز کیا جائے۔

۲۔ اس معاملے میں مسجد انتظامیہ کمیٹی فریق کی حیثیت سے مختلف عدالتوں میں مقدمہ لڑ رہی ہے، ان سے امید ہے کہ وہ مضبوطی سے یہ مقدمہ اخیر تک لڑی گے۔ ملک کی دوسری تنظیموں سے اپیل ہے کہ وہ براہ راست اس میں مداخلت نہ کریں۔ جو بھی مدد کرنی ہے وہ بواسطہ انتظامیہ کمیٹی کی جائے۔

۳۔ علماء، مقررین، واعظین اور ٹی وی مناظرین سے اپیل ہے کہ وہ ٹی وی ڈیبیٹ اور مباحثوں میں شرکت سے احتراز کریں۔ یہ قضیہ عدالت میں زیر بحث ہے، اس لیے پبلک ڈیبیٹ میں اشتعال انگیز مباحثے ار سوشل میڈیا پر تقاریر ہرگز ہرگز ملک اور ملت کے مفاد میں نہیں ہیں۔

ہم مولانا سید محمود اسعد مدنی، صدر جمعیۃ علماء ہند کی اس اپیل کی حرف حرف تائید کرتے ہیں اور ہمیں پختہ یقین ہے کہ مسلمان مخالف شرپسندوں کو شکست دینے کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔اس وقت ملک اور مسلمانوں کو یرغمال بنانے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں اور حکومت جس طرح خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ مسلمان مشتعل ہو جائیں، اپنا آپا کھو دیں، تاکہ اشرار کو اور سرکار کو مسلمانوں کے خلاف کارروائی کا موقعہ مل جائے۔

جہاں تک گیان واپی مسجد کا مسئلہ دوبارہ اٹھائے جانے کی کوششوںکا سوال ہے، سپریم کورٹ اپنے دو سابقہ فیصلوںمیں یہ بات صاف کر چکی ہے کہ 1991کا مذہبی مقامات کے تحفظ سے متعلق قانون اپنی جگہ قائم و دائم ہے اور اس کے ہوتے ہوئے کسی عبادت گاہ پر حرف گیری نہیں ہو سکتی۔

ویسے بھی ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ 1991 کے قانون بننے کے سات سال بعد اس ملک میں پہلی بی جے پی حکومت بنی تھی جس میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی تھے اور نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ شری لال کرشن اڈوانی۔ لیکن انہوں نے کبھی اس قانون سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی اور 2004تک اپنے دورِ اقتدار میں کسی کو اس طرح کی ہرزہ سرائی اور ماحول خراب کرنے کی کوشش بھی نہیں کرنے دی جیسی کہ آج دیکھنے کو مل رہی ہے۔

ہمارا یہ پختہ یقین ہے کہ اس طرح کی تمام کوششوں کو صبروتحمل کا مظاہرہ کرکے ہی ناکام بنایا جا سکتا ہے اور اسی لئے مولانا محمود اسعد مدنی کا مشورہ نیک اور صائب ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک بھر میں کہیں نہ کہیں مذکورہ بالا شرپسندی کا ماحول ہے، اے۔ ایم۔ پی (ایسوسی ایشن آف مسلم پروفیشنلس) کے جواں سال و حوصلہ مند بانی عامر ادریسی نے دہلی میں ہندوستان بھر سے بعض این جی اوز کو دعوت دی کہ وہ آئیں، سر جوڑ کر بیٹھیں اور انجینئرنگ اور میڈیکل وغیرہ میں داخلے کے لیے جو کوچنگ کرائی جا رہی ہے اس کو باہمی اشتراک و تعاون سے زیادہ بہتر اور فیض رساں بنایاجائے۔

عامر ادریسی علمی اسناد کے حوالے سے سافٹ ویئر انجینئر ہیں، پیشے کے اعتبار سے تاجر ہیں لیکن سماجی بنیاد گزار، وہ جذبے کی صداقت و فراوانی کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے 2008 میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ این جی اوز اور سماجی رہنماؤں نیز علماء اور اصحابِ مدارس کے بیچ ربطِ باہمی کے لیے کوشش کریں گے تاکہ مسلمانوںکی علمی، معاشی اور سماجی صورتحال بہتر ہو اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے ایک بڑا نیٹ ورک بنا بھی لیا جس کے تحت وہ روزگار کے میلے منعقد کرتے ہیں اور اب تک تقریباً 30 ہزار سے زیادہ ضرورت مندوں کو اچھی کمپنیوں میں روزگار دلا چکے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ پانچ ہزار سے زیادہ نوجوانوں کو اب تک اے۔ ایم۔ پی کے ذریعے حرفہ کی تعلیم دے کر ان کو ایک بہتر معاشی زندگی گزارنے کے امکانات پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے اب تک آن لائن اور آف لائن 59 روزگار میلے اور 319 روزگار کی فراہمی کے لیے پورے ملک میں پروگرام کیے ہیں۔انہوں نے ایک کام وہ بھی کیا جو آج کے دور میں سب سے ضروری ہے لیکن ہم ہیں کہ اس طرف توجہ نہیں دیتے اور وہ ہے ایک ایسا ڈیٹا بیس (database)جس سے یہ پتا چلے کہ کس طرح کی اسناد رکھنے والے کتنے نوجوان کہاں کہاں بے روزگار ہیں اور ان کی پھر صحیح طور پر رہمنائی کی جا سکے۔

اے ایم پی نے اس کے علاوہ جس طرح ایک نئی بیداری کی مہم چلائی اور خاص طور سے کورونا کے زمانے میں جس طرح لوگوں کے کام آئے اور مدد کی وہ انتہائی قابل تحسین ہے۔

بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں جا پہنچی۔ بات یہ تھی کہ اے ایم پی نے ایک ایسے ماحول میں جب مسلمان اور اسلام دونوں نشانہ بنائے جا رہے ہوں، سڑکوں پر آنے، نعرے بازی کرنے، اخباروں میں احتجاجی بیان چھپوانے کے بجائے اس بات کو ترجیح دی کہ مسلمان لڑکے اور لڑکیاں کس طرح زیادہ سے زیادہ تعداد میں بہتر سے بہتر کوچنگ لے کر میڈیکل، انجینئرنگ، بزنس مینجمنٹ، لاء اور سائنس کے مقتدر ترین اداروں میں داخلے پا سکیں۔چوں کہ اچھی تعلیم ہی وہ شاہ کلید ہے جو ہماری زندگیوں کو دنیوی نعمتوں سے حقیقی معنوں میں نواز سکتی ہے۔ ہمارے لیے عزت اور وقار کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔