امجدی بیگم: خلافت تحریک کی ایک اہم اور طاقت ور ستون

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 27-09-2021
امجدی بیگم: خلافت تحریک کی ایک اہم اور طاقت ور ستون
امجدی بیگم: خلافت تحریک کی ایک اہم اور طاقت ور ستون

 

 

awaz

 ثاقب سلیم، نئی دہلی

برطانیہ کے ایک اہم سیاست داں ملکم ہیلی (Malcolm Hailey) نے مرکزی قانون ساز اسمبلی میں ہندوستان کی جنگ آزادی کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ خلافت تحریک کے پیچھے امجدی بیگم (محمد علی کی بیوی) اور عبادی بانو بیگم (محمد اور شوکت علی کی والدہ) کی طاقت کارفرما تھی۔

وہ دونوں نہ صرف خلاف تحریک کے پیچھے ایک طاقت ور محرک بنی ہوئیں تھیں، بلکہ انھوں نے اس کے لیے رقمیں بھی اکٹھی کی تھیں۔

امجدی بیگم اگرچہ محمد علی جوہر کی اہلیہ تھیں، تاہم ان دونوں کا رشتہ ایک مشترکہ قومی مقصد کے لیے باہمی محبت، اعتماد، صحبت اور عقیدت کا ایک دلچسپ ملاپ بنا ہوا تھا۔

 آزادی کی جدوجہد کے ایک اور مقبول رہنما مولانا عبدالماجد دریابادی نے اپنی کتاب  میں لکھا ہے کہ امجدی بیگم اور محمد علی جوہر کے درمیان بے پناہ محبت تھی ، لیکن جب وہ دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچے تو ان کی محبت بھی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

ان دونوں کی محبت محض جسمانی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے نہ تھی بلکہ اس چیز کے لیے تھی، جس نے ان دونوں کو زندگی میں استحکام اور سکون عطا کیا تھا۔

ان دونوں کی محبت نے انہیں زندگی کا عظیم مقصد عطا کیا ، جس کی تکمیل میں وہ دونوں لگ گئے۔ مولانا عبدالماجد دریاآبادی کے مطابق عربی زبان میں اس محبت کو 'انس' کہا جاتا ہے، جس کے معنی ہیں دوست۔

دونوں نے سیاسی دوروں کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ سفر کیا اور ایک ساتھ عوامی جلسوں سے خطاب کیا۔ جب محمد علی کو قید کیا گیا تو ان کی اہلیہ امجدی بیگم نے عوامی خدمت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی۔ امجدی بیگم نے متعد اسفار کئے، مختلف جلسوں سے خطاب کیا، تحریک کے لیے چندہ اکٹھا کیا۔

اس کے علاوہ انھوں نے آزادانہ طور پر بہت سے سماجی و فلاحی کام بھی کیے۔ محمد علی خود لکھتے ہیں کہ جیسے ہی امجدی بیگم کو احساس ہوا کہ ان کے شوہر قومی مقصد کے لیے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں وہ خود بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوگئیں۔ ایک پردہ نشین خاتون امجدی بیگم ایک ہندوستانی مسلم خاتون کی جامع تصویر نظر آتی ہیں۔

انہوں نے جلسوں سے خطاب کیا، چندہ اکٹھا کیا اور خلافت کمیٹی کے کام کا انتظام سنبھالا۔ وہ بہت ہی جذباتی انداز میں جلسوں سے خطاب کرتی تھیں، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ انہیں چندہ دینے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ  چندہ کے  لیے جب اپیل کرنی ہوتی تو تقریر کے لیے انہیں مدعو کیا جاتا تھا۔

ان کی براہ راست کوششوں کی وجہ سے مہاتما گاندھی کے 'تلک سوراج فنڈ' اور 'خلافت فنڈ' کے لیے کروڑوں روپے اکٹھے ہو گئے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر عابدہ سمیع الدین کا کہنا ہے کہ یہ صرف بیگم اور ان کے خاندان کی کوششوں کی وجہ سے تھا کہ گاندھی جی پورے ہندوستان میں سفر کر سکے اور ایک مقبول رہنما بن گئے۔

جہاں امجدی بیگم کی تقریروں کے سبب چندہ اکٹھا ہوا وہیں، ان کی تقریروں خواتین کے درمیان مہاتما گاندھی کو مقبول بنا دیا۔ گاندھی نے خود اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اس 'بہادر خاتون' نے چندہ اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ خیال رہے کہ امجدی بیگم نے اپنے شوہر محمد علی جوہر اور مہاتما گاندھی کے ہمراہ پورے ہندوستان کا سفر کیا۔

گاندھی جی لکھتے ہیں کہ انھوں نے سوچا کہ کیا وہ اپنے شوہر کو عوامی تقریر کا ایسا فن سکھا سکتی ہے ، جو سامعین کے دلوں کو چند ہی الفاظ میں متاثر کردے۔اپنے ایک مضموں میں مہاتما گاندھی نے والٹیر اسٹیشن پر امجدی بیگم کی بہادری کی جانب اشارہ کیا ہے؛ یہ اس وقت کی بات ہے جب محمد علی جوہر کو 14 ستمبر 1921 کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔

اس وقت محمد علی جوہر سے ملنے کی اجازت صرف ان کی اہلیہ امجدی بیگیم کو تھی، حتی کہ مہاتما گاندھی بھی ان سے نہیں مل سکتے تھے۔ جب وہ ملاقات کے بعد واپس آئیں تو گاندھی نے پوچھا کہ کیا وہ ٹھیک ہں؟

بیگم نے جواب دیا کہ وہ کیوں پریشان ہوں گی کیونکہ ان کے شوہر نے قوم کے تئیں اپنا فرض ادا کیا ہے۔اس ملاقات کے بارے میں محمد علی نے لکھا کہ بیگم نے علیحدگی کے دوران ان سے کہا کہ وہ اپنی اور اپنی بیٹیوں کی فکر نہ کریں۔

محمد علی جوہر کی گرفتاری امجدی بیگم گاندھی جی کےہمراہ کیرالہ میں چندہ اکٹھا کرنے کے لیے ٹرین کا ایک لمبا سفر کیا، اس وقت تک محمد علی جوہر کو کراچی جیل مں شفٹ کیا جاچکا تھا۔

جب علی برادارن جیل میں تھے، امجدی بیگم نے خلافت تحریک کی قیادت خود سنبھال لی۔ اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں انہوں نے تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سرپرستی بھی کی، جس کے قیام کو ابھی چند برس بھی نہیں گزرے تھے اور جس کا دفتر علی گڑھ ابھی نئی دہلی منتقل نہیں ہوا تھا۔

امجدی بیگم نے روتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علموں سے خطاب کیا اور کہا کہ انہیں خدا پر یقین رکھنا چاہیے، یاد رکھیے انسانی زندگی عارضی چیز ہے، تاہم اس کے اہداف ابدی ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ بیگم خلافت تحریک کے نمائندے کی حیثیت سے مختلف ریاستوں کے اہم نمائندوں سے ملاقاتیں بھی کیں، نیز کانگریس کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔

محمد علی نے نے ان کے بارے میں لکھا کہ وہ نہ صرف ان کی شریک حیات نہ تھیں، بلکہ وہ ایک اچھی دوست اور کامریڈ بھی تھیں۔

جب امجدی بیگم کو قید کیا گیا تو انھوں نے پردہ کرنا بند کر دیا اور تحریک کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ اس کے بعد خلافت تحریک خواتین میں بھی بے حد مقبول ہوگئی۔

محمد علی جوہر نے امجدی بیگم کی بہترین انتظامی صلاحیت اور قوم کے تئیں ان کے ایثار و قربانی کا اعتراف اچھے الفاظ میں کیا ہے۔

سنہ 1930 میں محمد علی جوہر بہت زیادہ بیمار ہوگئے اس کے باوجود بھی وہ وطن کی خاطر لندن کی گول میز کانفرنس میں شرکت کے روانہ ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ وہ بیگم کو اپنے ساتھ لے جائیں گے کیونکہ وہ زندگی کی ہر مشکل میں ان کی ساتھی رہی ہیں اور وہ اپنے ساتھی کے بغیر اتنے اہم مشن پر نہیں جا سکتے ہیں۔ یہ اتفاق ہے کہ محمد علی سفر کے دوران لندن میں انتقال کر گئے۔

ان کے انتقال کے بعد امجدی بیگم نے بہت ہی جذباتی انداز میں اپنی کی بیٹی کو خط لکھا کہ ان کے انتقال کے بعد میں زندہ لاش بن گئی ہوں، تقدیر نے مجھے کیوں زندہ رکھا ہے؟ جس شخص کی تمہیں مجھے اور قوم کو ضرورت تھی وہ ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ قوم کا مجاہد اپنے ہونٹوں پر اس دعا کے ساتھ لندن گیا تھا کہ وہ غلام ملک میں کبھی واپس نہ آئے اور خدا نے اپنے پیارے بندے کی عزت رکھ لی ہے۔ اس نے آزاد لندن میں آخری سانس لی اور اسے شاندار انداز میں فلسطین میں واقع مسجد اقصیٰ کے احاطے میں دفن کر دیا گیا۔اس پر ایک شاعر نے تبصرہ کیا ہے کہ جوہر کی موت پر پوری دنیا رشک کرتی ہے۔ ایسا اعزاز صرف اللہ ہی دے سکتا ہے۔

امجدی بیگم نے اپنے شوہر، عاشق اور کامریڈ کو کھو دیا تھا تاہم ابھی مشترکہ سماجی مقصد ابھی باقی تھے۔

محمد علی کی زندگی میں ہی انہوں نے سیاسی اختلافات کی وجہ سے گاندھی اور کانگریس سے دوری اختیار کر لی اور مسلم لیگ سے وابستہ ہوگئیں۔

اپنے شوہر کی وفات کے بعد وہ مسلسل 16 برسوں تک زندہ رہیں، مگر سیاست میں سرگرم رہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امجدی بیگم مرد و خواتین کے درمیان یکساں مقبول تھیں۔ امجدی بیگم ان خواتین کی ایک روشن مثال ہیں جن کا اپنا وجود ہوتا ہے۔

وہ کسی تعارف کے لیے محمد علی پرانحصار نہیں کرتی تھی کیوں کہ بیگم اپنی ذات میں خود ایک رہنما تھیں، اور محمد علی جوہر اپنے اعتبار سے ایک الگ رہنما تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں نے ملک و قوم کی یکساں انداز میں خدمت کی، ہر ہر لمحمہ وہ قدم قدم سے ملاکر چلتی رہیں۔ شاید مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے ان کی ازدواجی زندگی پر درست ہی تبصرہ کیا ہے کہ ان کا رشتہ ایک دوسرے کو فرحت بخشنے والا تھا۔