عبداللہ: قوم پرستوں کا ہمدرد جس نے چیف جسٹس کا قتل کیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
عبداللہ: قوم پرستوں کا ہمدرد جس نے چیف جسٹس کا قتل کیا
عبداللہ: قوم پرستوں کا ہمدرد جس نے چیف جسٹس کا قتل کیا

 

 

 ثاقب سلیم/ نئی دہلی

بات 28 ستمبر 1871 کی ہے جب کولکاتا کے ٹاؤن ہال میں یورپی اور ہندوستانی عہدیداروں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی جمع تھے ۔ ہجوم اتنا بڑا تھا کہ پولیس کمشنر کے لئے اس پر قابو پانا مشکل تھا ۔ جسٹس پال کی عدالت میں ایک مقدمہ آیا تھا جس میں عبد اللہ نامی ایک شخص نے آٹھ دن قبل چیف جسٹس جان پاکسٹن نارمن کو قتل  کیا  تھا۔ اس وقت تک نارمن ایسے اعلی ترین برطانوی اہلکار تھے جنہیں کسی ہندوستانی قوم پرست کے ہاتھوں اپنی جان گنوا نی پڑی ۔

ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک ہندوستان برطانوی حکمرانی کے زیر نگیں تھا جس کی ہندوستانی مسلسل مزاحمت کرتے رہے ۔ کچھ سال قبل 1857 کی گرمیوں میں انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی اور بہادر شاہ ظفر کی زیر قیادت ہندوستانی سپاہیوں کے مابین ایک وسیع پیمانے پر مسلح مزاحمت ہوئی جس نے ہندوستان میں برطانوی سلطنت کے وجود کو خطرہ میں ڈال دیا تھا۔ برطانوی حکام خوفزدہ تھے اور وہ یہ یقینی بنانا چاہتے تھے کہ 1857 جیسی بغاوت مستقبل میں کبھی نہ ہو۔ 1857 کے غدر نے انگریزوں کے اذہان میں یہ بات واضح کر دی کہ ہندوستانی باشندوں کے درمیان اخوت اور اتحاد کا احساس بہت گہرا ہے ۔ مذاہب ، خطوں اور ذاتیات کے تعصب سے اوپر اٹھ کر لوگ غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھا چکے ہیں ۔ برطانوی حکام نے سن 1857 کے بعد ، شعوری طور پر ایک بیانیہ گڑھا کہ صدیوں سے ہندوستانی ایک تقسیم شدہ لوگ رہے ہیں۔ تاریخی بیانیے کی غلط تاویل اورفرقہ وارانہ بنیادوں پر زہر اگلنے والے اپنے وفاداروں کی کفالت کے ذریعہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین دشمنی اور نفرت کا بیج بویا گیا ۔

شعوری طور پر "پھوٹ ڈالو اور راج کرو " کی پالیسی کے تحت ہندوستان میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے محرکات کو تقویت دینے کے ساتھ ساتھ انگریزوں نے قوم پرست ہندوستانیوں کی ان کے مذاہب ، ذاتوں اور خطوں کے لحاظ سے درجہ بندی کرنی شروع کردی ۔ اس طرح جب ہندوستانی انقلابی رہنماؤں کو مسلمان پایا گیا تو اس معاملے کو وہابی ٹرائلز (1862-1871) کے طور پر پریس میں رپورٹ کیا گیا اور انقلابی رہنما کے ہندو ہونے کی صورت میں معاملے کو ہندو سازش کیس (1917) کے طور پر رپورٹ کیا گیا ۔

سن 1857 کی ناکام بغاوت کے بعد بھی ہندوستانیوں نے شکست قبول نہیں کی اور انگریزوں کے خلاف ایک اور جنگ کی تیاری شروع کردی۔ 1861 میں انگریزوں نے ایک بغاوت کا منصوبہ پکڑاجس میں پٹنہ ، امبالا ، پشاور اور لاہور کے ہندوستانی مسلم قائدین ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا اگلے ایک عشرے کے دوران سیکڑوں مسلمان علما کی گرفتاری عمل میں آئی اور سینکڑوں مسلم علما کو انڈمان پہنچایا گیا۔ انگریزوں نے اس کوشش کو وہابی کے نام سے موسوم کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کو ہم وطنوں کی نظر میں بدنام کیا جاسکے اور ہندوؤں کو اس سے دور رکھا جاسکے۔ لیکن وہ صرف جزوی طور پر کامیاب ہوئے کیونکہ بپن چندرا پال جیسے ہندو رہنماؤں نے عوامی طور پر مسلمانوں کی ان کوششوں کو  انگریزوں کے خلاف ایک قوم پرست مزاحمت قرار دیا اور اس کی بھرپور انداز میں تائید کی ۔

سن 1870 میں ، برطانوی عدالتوں نے ایک مبینہ وہابی رہنما عامر خان کو انڈمان کی آمدورفت کے الزام میں سزا سنائی۔ ہزاروں مسلمان ان کے مرید تھے اور اس میں وہ اپنے ایک رہنما کا عکس دیکھتے تھے ۔ انگریزوں نے پوری تحریک کو دھچکا لگانے کی کوشش کی جس نے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو مشتعل کر دیا جو اس تحریک کا حصہ تھے۔ جس جج نے عامر خان کو سزا سنائی اس کا نام جان نارمن تھا۔ عامر خان کی سزا کے بعد انٹیلی جنس کو جج سے انتقام لینے کے منصوبوں کی اطلاعات ملیں ۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک مسلمان ، عبداللہ کلکتہ پہنچا اور  مسجد کے نگران کی حیثیت سے وہاں رہنے لگا۔ 20 ستمبر 1871 کو ہائی کورٹ کے قریب واقع اس مسجد میں رہنے والے عبد اللہ نے عدالت کی سیڑھیاں پر جسٹس نارمن پر حملہ کیا۔ نارمن موقعہ پر ہی فوت ہوگیا اور عبد اللہ کو گرفتار کرلیا گیا۔

ان کی گرفتاری پر عبداللہ نے اپنے کسی ساتھی کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کیں۔ عدالت میں عبد اللہ نے دعویٰ کیا کہ ان کا کوئی ساتھی نہیں تھا اور یہ قتل غیظ و غضب کی کارروائی ہے۔ پولیس کی رپورٹ کی بنیاد پر عدالت نے کبھی بھی ان کے بیان کو قبول نہیں کیا۔ پولیس نے پہلے ہی اس مسجد کی جہاں وہ رہتے تھے، کی تلاشی لی اور اس کی نقل و حرکت کا پتہ لگا یا اور تفتیش سے ایک بڑی سازش کا اشارہ ملا ۔ جب عدالت میں جج نے اپنے رہنماؤں کا نام اور سارے منصوبے کا انکشاف کرنے کی شرط پر سزا میں تخفیف کی پیش کش کی تو عبد اللہ نے کوئی جواب نہیں دیا ۔

 مقدمے کے فیصلے میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ عدالت کو یقین ہے کہ یہ ایک سازش ہے جس کی مکمل تفصیلات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکیں ہیں اور عبد اللہ بھی اس سازش کا حصہ تھا۔

 عدالت کا یہ مشاہدہ غلط ثابت نہیں ہوا اور واقعے کے چند ماہ بعد ہی شیر علی نے وائسرائے لارڈ میو کا قتل کیا اور دوران سماعت کہا کہ عبداللہ میرا بھائی تھا۔

عبداللہ کو اسی دن پھانسی دے دی گئی اور حکام کو حکم دیا گیا کہ وہ پنجاب میں اس کے لواحقین اور دوستوں پر نگاہ رکھیں۔

یہ ایک المیہ ہے کہ قوم کے لئے لڑتے ہوئے اپنی جانیں نچھاور کرنے والے ہیرو گمنام ہی رہے۔