خوشیوں کےشہرکولکاتا کا سفر

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 02-06-2022
خوشیوں کےشہرکولکاتا کا سفر
خوشیوں کےشہرکولکاتا کا سفر

 

 

معصوم مرادآبادی

مرزا غالب کو کلکتہ کا سفر طےکرنے میں مہینوں لگے تھے، مگر یہ کچھ کم دوصدی پرانی بات ہے۔ ظاہر ہے اس وقت نقل وحمل کے ذرائع محدود تھے اوردہلی سے کلکتہ کی مسافت طے کرنا آسان نہیں تھا، مگر اب دنیا بدل گئی ہے اور آپ پلک جھپکتے ہی کلکتہ پہنچ سکتے ہیں بشرطیکہ فضا سازگار ہو اور موسم کی خرابی آپ کے سفر میں حائل نہ ہوجائے۔

 کلکتہ میں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ زمانے کی اتنی تبدیلی کے باوجود یہاں کی سڑکوں پرآج بھی آپ کو صدی سے زیادہ پرانی ٹرام اور ہاتھوں سے کھینچا جانے والا یکّہ نظرآجائے گا۔کلکتہ ایشاء کا پہلا شہر تھا جہاں سے 1902 میں الیکٹرک ٹرام شروع ہوئی تھی۔اس ٹرام کی خوبی یہ ہے کہ پٹری پر چلنے کے باوجود اس کے لئے کہیں ٹریفک نہیں روکا جاتا۔

کلکتہ کا نام بدل کر اب کولکتہ کردیا گیا ہے لیکن اس میں واو کے اضافے کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں  آئی ہے۔ کلکتہ بلاشبہ مشرق ومغرب کا حسین سنگم ہے۔  کلکتہ کو ہندوستان کا تہذیبی دارالخلافہ بھی کہا جاتا ہے۔عرف عام میں شہر نشاط(سٹی آف جوائے)کے نام سے جانا جاتا ہے۔مجھے یہاں سیروتفریح کرتے ہوئے اکثر بمبئی اورلندن کی یاد ستاتی ہے کہ کلکتہ کی بہت سی عمارتیں اور شاہراہیں بالکل بمبئی اور لندن جیسی ہیں۔اس شہر کو 1690 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بسایا تھا۔کلکتہ جس ہگلی ندی کے ساحل پر آباد ہے وہ بلاشبہ سمندر کا سماں پیش کرتی ہے۔

اردو والوں کی یہ عجب مجبوری ہے کہ غالب کا تذکرہ کئے بغیر کلکتہ کا ذکر مکمل نہیں ہوتا۔ظاہر ہے کلکتہ کے بغیر غالب اور اور غالب کے بغیر کلکتہ کی داستان ادھوری ہے۔ کلکتہ میں آپ مرزا غالب روڈ سے گزرتے ہوئے اس زمانے کو یاد کرسکتے ہیں جب یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی عمل داری تھی  اور غالب اپنا وظیفہ بڑھوانے یہاں آئے تھے۔

غالب کاسفر کلکتہ کھٹی میٹھی یادوں سے عبارت ہے، کیونکہ تمام کوششوں کے باوجود وہ یہاں سے نامراد واپس گئے تھے۔ مگر ہمارے ساتھ ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ ہم وہاں سے خوشگوار یادوں کے ساتھ دہلی واپس آئے ہیں۔

فرق صرف اتنا ہے کہ غالب نے اس شہر میں دو سال قیام کیا تھا، لیکن ہمیں یہ مہلت صرف تین دن ملی۔یوں تو کئی بار اس شہر نشاط کی سیر کا موقع ملا ہے، لیکن اس سفر کی خوبی یہ تھی کہ ہم نے یہاں مہمان نوازی کے کئی گُرسیکھے اور اس کا کریڈٹ بلاشبہ مغربی بنگال اردو اکاڈمی اور اس کے کارپردوازوں کو ملنا چاہئے،جنھوں نے شب وروز کی محنت سے اردوصحافت کے دوسوسالہ جشن کو یادگار بنادیا۔

 اس دوران صحافت کی دنیا کے ان لوگوں سے خوب ملاقاتیں رہیں جنھیں بچھڑے ہوئے زمانہ ہوگیا تھا۔بنگال اردو اکاڈمی نے اردو صحافت کے دوسوسال کی اس تقریب کو ’جشن جام جہاں نما‘ کا عنوان دیا تھا۔ اب سبھی لوگ یہ جان گئے ہیں کہ اردو کا پہلا اخبار ’جام جہاں نما‘ 1822میں کلکتہ سے ہی نکلا تھا۔نکالنے والے کوئی مولوی صاحب نہیں تھے بلکہ ایک بنگالی ہندو ہری ہر دت تھے اور اس کے ایڈیٹر تھے سداسکھ لال۔

کلکتہ کے لورچت پور روڈ سے چند قدم کے فاصلے پرواقع 2 نمبرکولوٹولہ اسٹریٹ ہی وہ مقام ہے جہاں سے ’جام جہاں نما‘ کی اشاعت شروع ہوئی تھی، لیکن اب وہاں اس کا کوئی نام ونشان نہیں ہے۔ اس مقام پراب رنگین پلاسٹک چادورں کی ایک دکان ہے اوراس دکاندار کو یہ بات معلوم نہیں کہ وہ ایک ایسی جگہ بیٹھا ہوا ہے جہاں سے اردو صحافت کا آغاز ہوا اور ایک تاریخ رقم ہوئی۔کلکتہ دراصل تمام زبانوں کے اخبارات کی ’جنم بھومی‘ ہے۔ یہاں سے نہ صرف اردو بلکہ انگریزی، ہندی، فارسی،بنگلہ اور دیگر زبانوں کے اخبارات شروع ہوئے۔

 ہری ہردت کے والد تارا چند دت بنگالی زبان کے معروف صحافی تھے اور ان کا نام بنگلہ ہفتہ وار ’سمباد کمودی‘ کے بنیاد گزاروں میں لیا جاتا ہے جو 1819میں راجہ رام موہن رائے نے شائع کیا تھا اور اس کے ذریعہ ستی کی رسم کے خلاف کا میاب تحریک چلائی تھی۔ آج کلکتہ میں ایک گلی ہری ہردت کے والد تارا چنددت نام سے ضرورموسوم ہے، لیکن اس شہر میں ہری ہردت اور سداسکھ لال کی کوئی یادگار نہیں ہے۔مجھے خوشی ہے کہ  ان دونوں نابغہ روزگار شخصیات کے نام سے کلکتہ کی کسی شاہراہ کو موسوم کئےجانے کی میری تجویز کو شرف قبولیت حاصل ہو ا ہے اور کلکتہ کے میئر نے اس پررضامندی ظاہر کردی ہے۔

 اردو کا پہلا اخبار’جام جہاں نما‘ 27مارچ 1822 کو کلکتہ سے شروع ہوا تھا۔اس مناسبت سے پورے ملک میں اردو صحافت کے دوسوسال مکمل ہونے کا جشن منایا جارہا ہے۔ اس سلسلے کا پہلا پروگرام  خاکسار نے 30 مارچ کو دہلی کے انڈیا اسلامک کلچر سینٹر میں کیا تھا، جس کا افتتاح سابق نائب صدر جمہوریہ محمدحامدانصاری نے کیا تھا۔

یہ دراصل میرا ایک خواب تھاجسے اصل تعبیر مغربی بنگال اردو اکاڈمی نے بخشی ہے۔ 24تا 26مئی کو اردو صحافت کا جو جشن کلکتہ کی سرزمین پر برپا کیا گیا،وہ واقعی میرے لیے ایک خوشی کا لمحہ تھا، کیونکہ اکاڈمی کے ذمہ داران نے پورے ملک سے اردو کے سرکردہ صحافیوں کو جمع کرکے ان کی خوب خاطر مدارات کی اور ان میں سے بعض چنندہ صحافیوں کو اعزاز سے بھی نوازا۔

اس جشن کا آغاز پروفیسر اخترالواسع کے نہایت بلیغ کلیدی خطبہ سے ہوا۔بین الاقوامی سیمینار کی پانچ نشستوں میں دودرجن سے زیادہ مقالات پیش کئے گئے۔ شرکاء میں اردو کے علاوہ انگریزی، ہندی اور بنگالی زبان کے سرکردہ صحافی بھی شامل تھے۔ یہ کسی اردو اکاڈمی کی پہلی ایسی تقریب تھی جس میں دیگر زبانوں کے ماہرین صحافت سے بھی استفادہ کیا گیا۔

 بلاشبہ ان لوگوں کے مشاہدات ہم سب کے لیے بیش قیمت تھے۔ اس دوران اردوصحافت کی ترقی اور ترویج کے لیے جدید ذرائع سے استفادہ کرنے کی تجاویز پیش کی گئیں۔

اس سیمینار کی سب سے خوبصورت تقریب دراصل ایوارڈ فنکشن ہی تھا جس کا اہتمام کلکتہ کی مشہورزمانہ نیشنل لائبریری کے انتہائی خوبصورت لان میں کیا گیا تھا۔ حالانکہ اچانک ہونے والی بارش نے اس میں کچھ خلل ڈالنے کی کوشش کی، لیکن منتظمین کی دور اندیشی دیکھئے کہ انھوں نے چھتریوں کا انتظام پہلے ہی کررکھا تھا۔اس تقریب میں خاکسار سمیت ایک درجن صحافیوں کو کلکتہ کے میئر اور صوبائی وزیر فرہاد حکیم نے ایوارڈ پیش کئے۔ شاید ہی کسی اردو اکاڈمی نے کبھی ایسی شاندارکوئی تقریب منعقد کی ہو۔

کسی زمانے میں دہلی اردو اکاڈمی کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ ملک کی سب سے نیک نام اکاڈمی کہلاتی تھی۔ کچھ عرصہ کے لیے آندھرا پردیش اردو اکاڈمی نے بھی اردو والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی تھی اور اس کا بجٹ 28کروڑسے تجاوز کرگیا تھا، لیکن آج ان دونوں  کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اس اعتبار سے اگر آپ بنگال اردو اکاڈمی کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو وہ سب سے بہتر نظرآتی ہے۔اس کے لیے اکاڈمی کے وائس چیئرمین محمدندیم الحق(ایم پی)، تقریبات کمیٹی کے چیئرمین محمد شہاب الدین حیدر، سیمینار سب کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر دبیراحمداور سیکریٹری نزہت زینب مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اس سیمینار کے دوران جس پہلو نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس میں کلکتہ کے عام اردو والوں کی غیرمعمولی دلچسپی تھی۔ عموماً اس قسم کے سیمیناروں میں ہال اس وقت بھر تا ہے جب کھانے کا وقفہ قریب ہوتا ہے، لیکن یہاں اردو کے شائقین شروع سے آخر تک اسی انہماک سے موجود رہے اور ہرسیشن میں ہال کھچاکھچ بھرا رہا۔

اس سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ سیمینار کے اختتام پر کلامندر تھیٹر میں منعقدہ مشاعرہ میں تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی ۔داخلہ بذریعہ دعوت نامہ تھا، لیکن وہاں اتنی بڑی تعداد میں شائقین پہنچ گئے تھے کہ انھیں روکنے کے لیے باؤنسروں کی مددلی گئی۔