بھوک کے خلاف ’جنگ'کے10 سال: اظہرمخصوصی کی مثالی کہانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
اظہر مقصوصی کا مشن
اظہر مقصوصی کا مشن

 

 

 منصور الدین فریدی ۔ نئی دہلی/حیدرآباد

بھوک کے خلاف جنگ، بھوک مٹانے کا عہد،کسی کو خالی پیٹ نہ سونے دینے کا عزم۔یہ مشن ہے حیدر آباد کے سید عثمان اظہرمخصوصی کا جو اپنی بے پناہ انسانی خدمت کے سبب حیدرآباد کا جانا پہچانا چہرہ ہے۔جس کے ساتھ ہزاروں ایسے لوگوں کی دعائیں ہیں جن کے پیٹ بھرنے کےلئے اظہر مخصوصی نے اپنی زندگی کو وقف کردیا ہے۔ان کے ساتھ اظہرکی پیٹھ بالی ووڈ کے شہنشاہ امیتابھ بچن نے بھی ٹھونکی اور با لی ووڈ کے ’بھائی جان‘ سلمان خان نے بھی۔ جن کو محمد اظہر الدین نے بھی سلام کیا ۔آج سے دس سال قبل اظہر مخصوصی نے 10 اپریل کو حیدرآباد کے دبیرپورہ فلائی اوور کے نیچے بھوکوں اور غریبوں کو کھانا کھلانے کا کام شروع کیا تھا تو وہ تنہا تھے۔لیکن ان دس سال کے دوران ان کا مشن اب ملک بھر میں پیر پھیلاتا نظر آرہا ہے۔ ملک کے کونے کونے سے انہیں مدد مل رہی ہے اور لوگ اس مہم کا حصہ بن رہے ہیں ۔جسے نام دیا ہے

‘Hunger has no Religion‘

 سب کی امید

 در اصل پرانے حیدرآباد میں دبیر پورہ علاقہ میں ایک فلائی اوور کے نیچے ہر دن کوڑہ چننے والے اور مزدور اور فقیر کسی کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں ،جو ان کےلئے کھانا لے کر آتا ہے۔ یہ شخص ہے اظہر مخصوصی ، ساڑھے بارہ بجتے ہیں اور بظاہر ایک دبلا پتلا مگر فولادی قوت ارادی کا مالک اظہر مخصوصی نمودار ہوتا ہے۔ بہت ہی منظم اور صاف ستھرے طریقہ سے سب کو باقاعدہ بیٹھا کر کھانا کھلانے کا کام شروع کرتا ہے۔لوگوں کی نظروں میں محبت ہوتی ہے اور چہرے پر خوشی۔دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ بس یہی ہے اظہر مخصوصی کا مشن۔

 حیدر آباد کے عوام اس منظر کو ہر دن دیکھتے ہیں۔ 2012 سے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا اور اب بھی جاری ہے ،جس کو اظہر اللہ کی مہربانی مانتے ہیں جو خود اس بھوک کا شکار ہوچکے تھے۔جنہوں نے بچپن اس بھوک کی شدت کو محسوس کیا تھا اب کسی اور کو اس کا شکار ہوتا دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے دس سال سے ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا ہے جب اظہر نے کھانا کھلانے کے کام میں ناغہ کیا ہو۔

awazurdu

دبیر پورہ کے فلائی اوور کے نیچےاظہر ۔۔۔۔۔ ان کے مہمانوں کے چہروں کی خوشی دیکھئے  

 کڑیاں جڑتی گئیں

 حیدرآباد میں دبیر پورہ فلائی اوور کے نیچے غریبوں اور ضرورت مندوں کیلئے کھانے کا اہتمام کرنا کے بعد ان کی اگلی منزل حیدرآباد کے سکندرآباد میں واقع گاندھی اسپتال رہی۔ جس کے سامنے مریضوں کے رشتہ داروں کےلئے انہوں نے کھانا سپلائی کرنا شروع کیا ۔یہ شہر کا سب سے بڑ اسرکاری اسپتال ہے۔ فاؤنڈیشن کی گاڑی روزآنہ 150-200 لوگوں کا کھانا لے کر جاتی ہے۔

 اس کے بعد اظہر نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔وہ تنہا چلے تھے مگر لوگ جڑتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ اب’بھوک کا کوئی مذہب نہیں‘ کی مہم صرف حیدرآباد تک محدود نہیں۔بنگلور،بھونیشور،رائچور، گواہاٹی،کٹک کے ساتھ اور بھی شہروں میں پھیل چکی ہے اور مزید شہر قطار میں ہیں۔ اب مختلف شہروں میں ہر روز پندرہ سو افراد کو کھانا کھلانے کا کام بلا ناغہ جاری ہے۔۔ اب یہ پورا کام اظہر کی ایک تنظیم’ ثانی ویلفیئر فاؤنڈیشن‘ کے ذریعہ ہوتا ہے ۔ تنظیم نے کھانا پکانے کے لئے دوباورچی بھی رکھے ہیں۔

 درد بھری کھانی ہے

 اظہر کی اپنی کہانی بھی بہت درد بھری ہے لیکن انہوں نے اپنے بچپن کی تکلیفوں اور مشکلات میں الجھنے کے بجائے اسی طرح کی پریشانیوں کا شکار لوگو ں کی مدد اور خدمت شروع کی ہے۔ اس کام کا آغاز بیس سے تیس افراد کو کھانا کھلانے سے کیا تھا، اب وہ ملک کے مختلف شہروں میں 1500افراد کو کھانا کھلا رہے ہیں۔ان کی انسانی خدمات کے سبب ہر کوئی انہیں جانتا ہے اور پہچانتا ہے۔ بالی ووڈ کے شہنشاہ امیتابھ بچن نے ایک خاص پروگرام”آج کی رات ہے زندگی‘ میں اظہرکو بلایا تھا،انہیں دنیا کے سامنے پیش کیا ،ان کی خدمات کو سلام کیا تھا ۔ یہی نہیں بلکہ ساتھ ہی بالی ووڈ کے ’بھائی جان‘ سلمان خان نے تو اپنی این جی او "بی انگ ہیومن" کی تشہیر کیلئے حقیقی زندگی کے جن چھ ہیرو چنے تھے ان میں ایک اظہربھی تھے۔

 بلا شبہ اب اظہر مخصوصی حیدرآباد کی نئی پہچان بن گئے ہیں کیونکہ اپنی غریبی اور بھوک کا سامنا کرنے کے بعد انہوں نے کسی اور کو اس کا شکار نہ ہونے دینے کا عہد کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی رات کو بھوکا نہ سوئے۔کوئی کھانے کیلئے نہ ترسے۔کسی کی بھوک اس کو خون کے آنسو نہ رلائے۔یہی وجہ ہے کہ جب اپنی غریبی اور مفلسی کو ذاتی جدوجہد اور محنت سے دور کیا،پیروں پر کھڑے ہوئے تو سب سے پہلے ’بھوک‘ کو دور کرنے کیلئے بیڑا اٹھایا۔

awazurdu

گاندھی اسپتال کے سامنے کھانا تقسیم کرتے ہوئے اظہر 

 آواز دی وائس پر ہم اب پیش کریں گے اظہر مخصوصی کا ایک تفصیلی انٹر ویو ۔جس میں ان کی زندگی کے مختلف پہلووں کو وہ خود آپ کے سامنے پیش کریں گے۔وہ بتائیں گے اپنے بچپن کی کہانی اور بتائیں گے کس نے دی انہیں اس مشن کی ہمت۔ کس نے دیا ساتھ اور خود انہوں نے کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد اس مشن کو رکنے نہیں دیا۔