۔ کیوں بن گئی موت کی واد ی K2

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-02-2021
ایک جنون جو موت کو دعوت دیتا ہے  K2
ایک جنون جو موت کو دعوت دیتا ہے K2

 

 

دنیا کی سب سے بلند چوٹی ایورسٹ کو سر کرنا تو آسان ہے،لیکن دوسری سب سے بلند چوٹی‘کے ٹو‘کو سر کرنا اتنا آسان نہیں۔کچھ تو ہے جو اس کو سر کرنے کو موت کا کھیل بنا رہا ہے۔ جس کا ایک نمونہ حال میں اس وقت ملا ہے جب پاکستان کے کوہ پیما محمد علی اور چلی کے ’جے پی موہر‘ اور آئس لینڈ کے جان سنوری پانچ فروری کو ’کے ٹو‘ پر جھنڈا گاڑ کر واپس لوٹتے ہوئے لاپتہ ہوگئے جن کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔اخبار کی سرخیوں میں ہیں ان کے نام۔ زندگی کی دعائیں ہورہی ہیں۔ فوجی ہیلی کاپٹرس کا استعمال ہورہا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔دراصل’کے ٹو‘کو سر کرنے کی خواہش رکھنے والے ہر چار میں سے ایک کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے مگر پھر بھی دنیا بھر کے کوہ پیما ہر سال ’کے ٹو‘کے بیس کیمپ پر ڈیرے ڈالتے ہیں۔ان کی منزل ہوتی ہے ’کے ٹو‘۔یہ ایک جنون ہے جوانسانوں کو موت سے دو دو ہاتھ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔  

k2

 کے ٹو کو فتح کرنا آسان ہے اور نہ فتح کے بعد نیچے اترنا

دلچسپ بات یہ ہے کہ سردیوں میں کبھی نہ سر ہونے والے اس خطرناک پہاڑ کو نیپالی کوہ پیماؤں نے اس سال پہلی دفعہ سر کیا اور تاریخ رقم کی اور یہی اعزاز اپنے نام کر کے واپس آتے ہوئے آئس لینڈ کے جان سنوری، چلی کے جے پی موہر اور پاکستان کوہ پیما محمدعلی صدپارہ 5 فروری کو لا پتہ ہو گئے۔ ’کے ٹو‘کا خونی روپ کوئی نیا نہیں ہے۔اس کاحادثات کا رشتہ بہت پراناہے۔بلکہ ایک تاریخ کی شکل لے چکا ہے۔ ’کے ٹو‘ پر حادثات کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔

سب سے پہلی بار 1939 میں اسے سر کرنے کی کوشش میں 4 کوہ پیما 8 ہزار میٹر سے اْوپر کی بْلندی پر لاپتہ ہوگئے اور پھر یہ تاریخ چل نکلی اور 2008 میں ایک ہی دن میں 11 کوہ پیما اس پہاڑ کو سر کرتے ہوئے حادثے کا شکارہوئے اور کبھی واپس نہیں لوٹے۔ 8611 میٹراونچے اس برف پوش پہاڑ پر جب کوئی لاپتہ ہوجاتا ہے تو اس کھیل کے کھلاڑی جانتے ہیں کہ اسے ڈھونڈنا تقریباً ناممکن بات ہے اور اکثر ریسکیومشن پر جانے والے افراد کی اپنی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے اور اگر لاپتہ ہونے والے افراد 8 ہزار میٹر سے اوپر لاپتہ ہوئے ہیں تب انہیں دْھونڈنا موت کا کھیل بن جاتا ہے۔

k2

موت کا کھیل 

سو سے زیادہ افراد کا قبرستان

دنیا کا دوسرابلند ترین پہاڑ ’کے ٹو‘ 1856 میں برطانوی جیوگرافر کرنل مونٹگمری نے دریافت کیا۔ اس کا نام کے ٹو رکھا کیونکہ یہ قراقرم سلسے کا دوسرا پہاڑ تھا جس کی اونچائی ناپی گئی تھی۔ یہ پہاڑ پاکستان اور چین کامشترکہ سب سے اونچا پہاڑ ہے جس کی اونچائی 8611 میٹر ہے۔’کے ٹو‘ کو پہاڑوں کا پہاڑ، پہاڑوں کا بادشاہ اور کوہ پیماؤں کا پہاڑ بھی کہا جاتا ہے اور اپنے بیس کیمپ سے یہ تقریباً 4570 میٹر اونچا ہے جس پر چڑھنے کی سب سے پہلی کوشش 1902 میں اینگلو سوئس کوہ پیماؤں نے کی اور وہ 5670 میٹر تک اس پہاڑ پر چڑھ سکے یعنی بیس کیمپ سے 1100 میٹر۔دوسری ناکام کوشش 1909 میں ہوئی اوراطالوی کوہ پیما 6100 میٹر تک اس پہاڑ کو سر کر سکے پھر 1938 میں امریکی کوہ پیما 7925 میٹر تک کی اونچائی چھونے کے بعد ناکام واپس لوٹے، 1939 میں ایک اور امریکی ٹیم 8380 میٹر تک جا پائی مگر پھراسے بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

k2

خوف کے آگے جیت ہے مگر ۔۔۔

ایک وحشی پہاڑ

جب 1953میں ایک اور امریکی ٹیم نے 7900 میٹر تک اس پہاڑ پر چرھنے کی کوشش کی۔ واپسی پر ٹیم کے ایک رکن جارج بیل نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ”کے ٹو ایک وحشی پہاڑ ہے جو آپ کو مارنے کی کوشش کرتا ہے۔ آج تک اس پہاڑ پر جتنے لوگوں نے چڑھنے کی کوشش کی ہے ان ہر 4 میں سے 1 کی جان اس پہاڑ نے لے لی ہے، پھر 1954 میں اطالوی کوہ پیماؤں نے پہلی دفعہ اس پہاڑ کو کامیابی سے سر کیا۔

’کے ٹو‘پر پہلا حادثہ 1939 میں ہوا جب امریکی ٹیم کے 3 افراد اچانک لاپتہ ہوگئے۔ ایک فردبلندی برداشت نہ کر پایا اور ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہوگیا اور واپس نہ آسکا،دوسرا حادثہ 1954 میں آرٹ گلکی کے ساتھ پیش آیا اوراسے ایک ایوالانچ نے مار ڈالا اور 1954 میں اطالوی نڑاد ماریو پوچوز چڑھائی کے دوران نمونیا ہو جانے کے باعث جابحقہوئے اور یوں یہ سلسلہ چل نکلا۔’کے ٹو‘ کی تاریخ کا پہلا بڑا حادثہ 1986 میں پیش آیا جب اس پہاڑ نے ایک ہی سال میں مختلف ٹیموں کے 13 افراد کو نگل لیا، 1995 میں 8 افراد، 2004 میں 7، 2006 میں 4 اور 2008 میں ایک ہی دن 11 افراد چڑھائی کے دوران گرنے سے لقمہ اجل بن گئے اور پہاڑ کے دامن میں دفن ہوگئے۔

k2 top

اب2021 بھی رہا المناک

اس سال 2021 میں ’کے ٹو‘ کو سردی کے موسم میں سر کرنے کے دوران پہلا حادثہ 16 جنوری کو پیش آیا جب ا سپین کے کوہ پیما سرجی مینگوٹے بیس کیمپ ون سے نیچے اترتے ہوئے گر گئے اور جاں بحق ہوئے اور پھر 5 فروری کو پہلا حادثہ بلغاریہ کے اتانس سکاٹوؤ کے ساتھ پیش آیا جب وہ بیس کیمپ 3 سے نیچے آتیہوئے گر گئے۔ پھر 5 فروری کو ہی ایک دوسری ٹیم کے 3 افراد جن میں پاکستانی کوہ پیما اور پورٹر محمد علی صدپارہ، جان سنوری اور جے پی موہر شامل تھے ’کے ٹو‘سے واپسی پر لاپتہ ہوگئے اور ابھی تک لاپتہ ہیں۔’کے ٹو‘ پر جاں بحق ہونے والے افراد عام طور پر اسی پہاڑ کے دامن میں گم ہوجاتے ہیں اور برف انہیں اپنے نیچے چھپا لیتی ہے اور ریسکیو ٹیم کے افراد انہیں کبھی نہیں ڈھونڈ پائے یوں یہ پہاڑ ایک قبرستان ہے جس میں 100 کے قریب افراد دفن ہیں اور ان افراد کی یاد میں ’کے ٹو‘کے بیس کیمپ پر ایک’یادگار‘ بنائی گئی ہے جس پر چوٹی سر کرنے والوں کے نام درج ہیں۔

اس وقت بھی زبردست برفباری ہے۔’کے ٹو‘ پر برف کی سفید چادر پڑی ہے۔تیز ہواؤں کے جھونکے ہیں اور اس موسم میں بھی لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش جاری ہے۔ اس امید کے ساتھ کے شاید وہ اپنی زندگی کی کوئی بڑی جنگ لڑ رہے ہوں لیکن موسم کا مزاج دیکھ کر نہیں لگتا کہ کوئی اچھی خبر ملے گی۔لیکن کہتے ہیں امید پر دنیا قائم ہے۔ایک جانب جہاں تلاش کا کام جاری ہے کوہ پیماؤں کا کوئی نہ کوئی نیا گروپ اس چوٹی کو سر کرنے کیلئے کمر کس رہا ہوگا۔کیونکہ یہ ایک جنون ہے جو کسی کی موت یا گمشدگی کے سبب تھم نہیں سکتا ہے۔

dd

سرجی مینگوٹے جو برف میں دفن ہوگیا۔

 ا سپین کے کوہ پیما سرجی مینگوٹےکی آخری انسٹا پوسٹ ۔۔