جانیے- جرمنی کی ایک مسجد نے کیوں اعلان کیا کہ -- محبت حلال ہے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
جانیے- جرمنی کی ایک مسجد نے کیوں اعلان کیا کہ -- محبت حلال ہے
جانیے- جرمنی کی ایک مسجد نے کیوں اعلان کیا کہ -- محبت حلال ہے

 

 

 برلن: جرمنی میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کی کسی مسجد کی طرف سے مختلف جنسی میلانات اور رجحانات کے حامل افراد کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے اس کمیونٹی کا مخصوص دھنک رنگ پرچم لہرایا گیا ہے۔ گزشتہ جمعے کے روز برلن کی ابن رشد گوئٹے مسجد میں قوس قزح کا لہراتا پرچم اس بات کی علامت قرار دیا گیا کہ اس علاقے کے مسلمان بھی مختلف جنسی میلانات کے حامل افراد کے خلاف تعصب اور عدم برداشت کے مخالف ہیں

برلن میں جولائی کے مہینے میں 'ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی‘ کی دو بڑی پریڈوں کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔ جرمن دارالحکومت میں ان دو 'گے پریڈز‘ سے قبل کسی مسجد کی طرف سے اس کمیونٹی کے ساتھ اظہار یک جہتی کی ستائش بھی کی جا رہی ہے۔ یہ اس بات کا عندیہ بھی ہے کہ برلن کی مسلم کمیونٹی ہم جنس پسندوں کے خلاف نہیں ہے۔ نماز جمعہ میں شامل ہونے والے متعدد نمازیوں نے اپنے بازوؤں پر دھنک پرچم کے اسٹکرز بھی چپکا رکھے تھے، جن پر لکھا تھا، ''محبت حلال ہے۔‘‘ اس موقع پر برلن کے کلچر سینیٹر کلاؤس لیڈرر بھی وہاں موجود تھے۔

منفرد لبرل مسجد ابن رشد مسجد پانچ برس قبل تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کے منتظم اسے ایک لبرل عبادت گاہ قرار دیتے ہیں۔ وہاں نہ صرف مرد اور خواتین مل کر نماز پڑھ سکتے ہیں بلکہ وہاں ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی نماز ادا کر سکتے ہیں

جرمنی میں یہ اپنی نوعیت کی واحد مسجد ہے، جہاں ہم جنس پسندوں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں برتا جاتا۔ اس مسجد کے چھ اماموں میں سے ایک مو الخطاب کا کہنا ہے کہ وہ 'مختلف لوگوں کو بھی ایک محفوظ راستہ‘ دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ بھی اپنی زندگی میں روحانی تجربات سے مستفید ہو سکیں۔

مو الخطاب نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں اس امید کا اظہار بھی کیا کہ مستقبل میں بہت سی دیگر مساجد بھی ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے اس برادری کا مخصوص پرچم لہرائیں گی۔

مو الخطاب کے مطابق مختلف جنسی میلانات اور رجحانات رکھنے والے افراد بھی مذہبی ہوتے ہیں اور وہ بھی خدا پر یقین رکھتے ہیں، ''ہمیں ان افراد کو صرف برلن کے کلبوں اور بارز میں ہی جگہ مہیا نہیں کرنا بلکہ عبادت گاہوں میں بھی انہیں خوش آمدید کہنا چاہیے۔‘