ہم طالبان کیلئے نرم گوشہ نہیں رکھتے ۔مولانا ارشد مدنی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 23-08-2021
طالبان اور دیوبند
طالبان اور دیوبند

 

 

آٓواز دی وائس : نئی دہلی

جب سے افغانستان میں طالبان کا قبضہ ہوا ہے ،کابل پر طالبان کا پرچم لہرایا ہے۔ اچانک طالبان کے ساتھ ان کے مذہبی نظریات اور فکر پر بھی بحث شروع ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس بحث میں خود بخود دیوبند کا نام بھی جڑ گیا۔

بہرحال جتنے منھ اتنی باتیں۔ اخبارات اور الیکٹونک میڈییا  میں اب دیوبند سے طالبان کے رشتہ پر بحث ہورہی ہے۔

اب اس معاملہ میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے  ایک تفصیلی انٹرویو دیا ہے ۔جس میں انہوں نے اس معاملہ  پر مکمل روشنی ڈالی ہے۔

انہوں نے افغانستان کے موجودہ تناظرمیں میڈیا کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کچھ لوگ طالبان کو دیوبند اور دارالعلوم سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں،جب کہ میرے خیال میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔

اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ طالبان حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی طرف اپنے کو منسوب کرتے ہیں اورچونکہ حضرت شیخ الہندؒ دیوبند کے رہنے والے تھے۔

دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین تھے اور اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عالم تھے اور انگریزوں سے دشمنی ان کے رگ و ریشہ کے اندر سرایت تھی، اس لئے انگریزوں نے ان کو پکڑااور ان کو مالٹا کی جیل میں بند کیا، وہ چار سال مالٹا کی جیل میں رہے۔

ہندوستان میں انگریز حکومت کے خلاف سب سے پہلے شیخ الہندؒ ہی وہ شخص ہیں، جنہوں نے افغانستان کے اندر اس وقت آزاد حکومت قائم کی تھی، جس کا صدر مہاراجہ پرتاپ سنگھ کو بنایا تھا۔ مولانا برکت اللہ بھوپالی کو وزیر اعظم اور اپنے ہونہار شاگردمولانا عبید اللہ سندھیؒ کو وزیر خارجہ بنایا تھا۔

مولاناارشد مدنی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آج، جو طالبان ہیں، وہ اصل میں حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک سے جڑے ہوئے ان لوگوں کی اولاد ہیں، جوآزادی ہند کیلئے جدوجہد کررہے تھے یاان کی اولاد کی اولاد ہیں، اس لئے طالبان ان کو اپنا امام مانتے ہیں۔

وہ یہ کہتے ہیں کہ جس طرح حضرت شیخ الہندؒ نے اپنی ساری زندگی ملک کی آزادی کیلئے جدوجہد کی، جو انگریز جیسی غیرملکی طاقت کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا ، آج ہم بھی ان کے راستہ پر چل رہے ہیں، اصل حقیقت صرف اتنی ہی ہے۔

رہا لوگوں کا یہ کہنا کہ وہ دیوبند کے پڑھے ہوئے ہیں ، درست نہیں ہے، کیونکہ ملک کی آزادی سے پہلے تو لوگ پڑھتے تھے اور میری معلومات کے مطابق آج ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہے،یہ لوگ وہ ہیں، جو ان سے پڑھے ہوئے ہیں اور ان کے شاگرد ہیں۔

مولانا مدنی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ طالبان کے یہ کہنے کی بنیاد صرف اتنی ہے کہ جس طرح شیخ الہندؒ نے ملک کی آزاد ی کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا اور شاگردوں کی ایک ایسی فوج کھڑی کردی، جنہوں نے 10-10 سال جیلوں کے اندر گزارے اور پھر ملک کو غیر ملکی طاقتوں سے آزاد کرایا۔

ہم بھی اپنے ملک کو غیروں کے تسلط سے آزاد کرانے کیلئے کام کررہے ہیں، تو گویا کہ جومشن ان کا تھا اور جس کیلئے زندگی بھرکام کرتے رہے،ہم بھی اسی لائن پر چل رہے ہیں۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ہم طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں یہ بات سراسرغلط ہے، ہم تو کسی کے بارے میں بھی کوئی رائے نہیں رکھتے، یہ تو مستقبل بتائے گا کہ ان کا طریق کار کیاہوتاہے اور اپنے ملک کے نظام کو کس طرح چلاتے ہیں۔

ملکی دستور میں شریعت اسلامی کو حاکم بناتے ہیں یا نہیں؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی حکومت کی پائیداری کیلئے 2 بڑی بنیادیں ہیں:پہلی یہ کہ قومی یکجہتی اور بھائی چارہ ہو، شہریوں کے درمیان مساوات ہو، اقلیت اور اکثریت کے درمیان امتیاز نہ ہو، مسلکی منافرت نہ ہو۔

لہٰذا اگر وہ اقلیت اور اکثریت کیلئے ایک پیمانہ رکھتے ہیںاور ان کو معاشی ، تعلیمی اور دوسرے شہری حقوق دیتے ہیںتو ہم ان کی تعریف کریں گے،اسی طرح سے اگر وہ ملک میں امن و امان کے قیام کو یقینی بناتے ہیں اورہرشہری کی جان، مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں ۔

ہر شہری کو یکساں حقوق فراہم کرتے ہیں تو ہم تالی بجائیں گے اور ہم کہیں گے کہ یہ انقلاب اسلامی انقلاب ہے اور اگر اس طریقہ پر نہیں چلتے ہیں،تو دنیا میںان کی مخالفت ہوگی، ہم بھی اسی لائن کے اندر کھڑے ہوںگے۔

مولانا مدنی نے طالبان اور ملا عمر کودیوبند سے جوڑے جانے کے بارے میں کہا کہ دنیا میں، جو لوگ بھی دارالعلوم سے براہ راست یا بالواسطہ پڑھ کر گئے ہیں، وہ اپنے ملک میں اپنے اپنے طریقے سے دین کا کام کررہے ہیں، اس وقت طالبان تنہا وہ لوگ ہیںجو یہ کہتے ہیں کہ ہم آزادیٔ وطن کیلئے لڑرہے ہیں، جس طرح ہمارے ملک کے اندر آزادیٔ وطن کیلئے جد وجہد ہوئی، اسی طرح وہ بھی کررہے ہیں۔

طالبان کا تعلق ایسی غیور قوم سے ہے، جس نے کبھی بھی کسی غیر کے تسلط کو قبول کیا ہی نہیں اور وہ اپنی اس آزادیٔ وطن کی جدوجہد کو دیوبند سے جوڑتے ہیں، حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک سے جوڑتے ہیں، لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک افغانستان میں رنگ لائی تھی۔

وہاں ایک طبقہ تھا، جو ان کے ساتھ کھڑا ہوگیا تھا اورانہوں نے وہاں ہندوستان کی آزاد حکومت قائم کردی تھی، یہ سب حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک سے جڑے ہوئے لوگ تھے، اسی لیے حضرت شیخ الہندؒ کے انتقال پر وہاں ان لوگوں نے، جو تعزیتی جلسہ کیا تھا۔

اس میں افغانستان کے چوٹی کے لوگ موجود تھے۔ اس موقع پر وہاں کے حاکم نے کہا تھا کہ ’جس چیز کو شیخ الہند رحمہ اللہ نہیں پورا کرسکے اور دنیا سے چلے گئے، میں اس چیز کو پورا کروں گا‘ آج اس کا نتیجہ دیکھنے کو آرہا ہے، وہ قوم کھڑی ہوگئی ہے۔

لیکن چونکہ افغانستان میںاقلیت بھی ہیں، اکثریت بھی، طالبان پشتو زبان بولنے والے ہیں،جو جنوبی افغانستان کے ہیں، شمالی افغانستان، جو اوپر ہے اور روس کی ریاستوں سے ملتا ہے،تاجکستان اور اس کے درمیان میں ایک دریا ہے، ادھر تاجکستان ہے،ادھر افغانستان ہے،وہاں کے لوگ فارسی بولنے والے ہیں۔

ہمارا ماننا یہ ہے کہ حکومت کامیاب، جب ہوگی،جب سب کیلئے ایک پیمانہ ہو،جب یہ صورت ہوگی تو ہم کہیں گے کہ حکومت کامیاب ہے، ورنہ یہ ناکام شمارہوگی۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ اسلامی انقلاب ہے۔

میرا ماننا ہے کہ یہ اسلامی انقلاب ہے یا نہیں ہے، اس کو مستقبل بتائے گا، جس طرح دنیا کی اچھی حکومتیں اقلیت اور اکثریت کے حقوق کو مانتی ہیں۔اسی طرح اگریہ حکومت بھی مانے گی، تبھی حکومت کو کامیاب اسلامی حکومت مانا جائے گا اور ہمارے نزدیک کامیاب حکومت کی بنیادیں2 ہیں: ایک توہر سطح پر امن و امان ہو اورہر شہری کی جان، مال اور عزت و آبرو محفوظ ہو، اور دوسرا یہ کہ ہر شہری کیلئے ایک ہی پیمانہ ہو، اگر ایسا ہوتا ہے، تب تو حکومت چلے گی اور اگر ایسا نہیں ہوا تو اسی کے اندر سے دوسرا طبقہ کھڑا ہوگا، جو ان کی مخالفت کرے گا۔

حکومت کی طرف سے دیوبند میں اے ٹی ایس کے ٹریننگ سینٹر بنائے جانے کے اعلان پرمولانامدنی کہا کہ فرقہ پرستی کی ہوا چل رہی ہے،ایسا کہا جاتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند دہشت گردی کا اڈّہ ہے، لیکن ہماری تعلیمات تو کھلی ہوئی ہیں، 24 گھنٹے دروازے کھلے رہتے ہیں۔

ہمارے اسباق میں کسی کے بیٹھنے پر کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے، کوئی آکر سبق سن سکتا ہے اور دیکھ سکتا ہے، ہم کیا پڑھا تے ہیں، رات دن ایسے لوگ بھی ہیں، جو ہمارے ساتھ رہتے ہیں، ہمیں خبر ملتی ہیں کہ وہ مخبر ہیں، لیکن ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی، ہم تو جو سبق دیتے ہیں، وہ میل ملاپ کا سبق ہے، مذہب سے اوپر اٹھ کر ہر آدمی کے ساتھ میل ملاپ کا سبق ہم دیتے ہیں۔

لوگ کہتے ہیں کہ گورنمنٹ اے ٹی ایس کادیوبندمیں مرکز بنانے جارہی ہے، ہم کہتے ہیں کہ گورنمنٹ کو اس کا اختیار ہے،وہ جو چاہے کرے، ہمارے اوپر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا، جو ہم پڑھاتے ہیں، وہ چودہویں رات کی چاند کی طرح روشن ہے، جس کا جی چاہے، ہمارے سبق کے اندر بیٹھ جائے۔

ہم تو پیار ومحبت ہی کی تلقین کرتے ہیں اور اسلام دنیا میں، جو جنگل کی آگ کی طرح پھیلا ہے، وہ کسی سے دشمنی کرکے تھوڑی پھیلا ہے، وہ تو پیار و محبت ہی کے ساتھ پھیلا ہے، دنیا کی ہر قوم نے اس کو قبول کیا ہے۔