وانگ چک : کیسے کررہے ہیں بنجر پہاڑوں کو ہرا بھرا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-06-2021
سونم وانگ چک
سونم وانگ چک

 

 

 آشا کھوسہ / نئی دہلی

جب پوری دنیا کوو ڈ 19 کی وجہ سے رک سی گئی تھی اور نتیجے میں متعدد ممالک کی معیشت جمود کا شکار ہو گئی تھی اسی آزمائش کی فضاء میں لداخ کے کارگل میں ایک دور دراز کے ہمالیائی گاؤں میں جس کی برفانی اونچائی 13،000 فٹ تھی، ایک خاموش انقلاب کروٹ لے رہا تھا ۔اس دوران وائرس کے مہلک وار سے بے نیاز گاؤں والوں کا ایک گروپ پانی ، بیلچے اور انتہائی اہم پودوں کو لے کر بنجر اونچائیوں پر چڑھ گیا ۔ 65-70 جوانوں کے ایک گروپ نے ایک ہفتہ پودوں کو لگانے کے لئے زمین کھودنے میں لگایا اور پھر پودوں کو اندر رکھا اور پانی ڈالا ۔

آخر کار 'یووا کییرٹ' گروپ 4،000 پودے لگانے میں کامیاب ہو گیا اور ایک ایسی بنیاد رکھی دی کہ چند سالوں میں یہ علاقہ منی جنگل کے طور پر لوگوں کے کام آئے گا۔ آخر کون ہے اس مشکل کام کو انجام دینے کا محرک ؟

بنجر پہاڑوں کو جنگل بنانے کے پیچھے مگسیسی ایوارڈ یافتہ سونم وانگ چک کا 'کاربن ٹیکس' کا خیال کارفرما ہے۔ اس نے کاربن ٹیکس کے طور پر دیہاتی برادری کو ایک پودے کو لگانے کے عوض ایک مخصوص رقم بھی ادا کی ہے۔

awazurdu

وانگ چوک کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اپنے جدید دور کی طرز زندگی کے نتیجے میں زمین پر چھوڑے گئے کاربن کے نشانات کی تلافی کرنے کی قیمت ادا کرنا چاہئے۔ چونکہ سب اس کی ادائیگی نہیں کرسکتے اور اس وجہ سے بھی کہ امیر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ نقش چھوڑتے ہیں اس لئے 'کاربن ٹیکس' ایک رضاکارانہ عمل ہوسکتا ہے۔

وہ کیرات کے لوگوں سے کہتے ہیں کہ ہر سال اوسطا ایک ہندوستانی فضا میں ایک ٹن کاربن چھوڑ تا ہے ، جبکہ ایک درخت زندگی میں 250 کلوگرام کاربن جذب کر سکتا ہے۔

اپنے "نوجوان رضاکاروں اور جوان پودوں" سے ملنے کے لئے حالیہ دورے میں انہوں نے گائوں کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ "درخت لگا کر انھیں ایک طرح سے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے میں مدد مل رہی ہے ۔" اپنی تقریر میں انہوں نے گاؤں والوں سے کہا کہ جب میں کام کے لئے ہوائی جہازوں میں سفر کیا کرتا تھا (لاک ڈاؤن سے پہلے) میں نے ماحول کو بری طرح آلودہ کیا تھا۔ آپ نے میرے لئے جو درخت لگائے ہیں وہ اس نقصان کی کچھ تو تلافی کریں گے ۔ وانگچو ماحولیاتی خرابی کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کو تبدیل کرنے یا اس کی رفتار کم کرنے کے لئے اپنے کچھ خیالات کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنے نظریات پر کام کرنے کے لئے اپنے آبائی وطن لداخ کا انتخاب کیا ہے کیونکہ یہ سرد صحرا کا یہ علاقہ ماحولیاتی طور پر ایک نازک ماحولیاتی نظام ہے جو زمین پر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے شدید متاثر ہوگا۔

awazurdu

وانگچک کا مقصد لداخ کو کاربن سے پاک کرنا اور لوگوں کے سامنے یہ واضح کرنا ہے کہ ان کی جو زمین انہیں پائیدار زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرتی ہے، اس کا تحفظ کتنا ضروری اور اہم ہے ۔

گاؤں کے لوگوں نے پودے لگانے اور پیسے کے استعمال کو یقینی بنانے کے لئے یوتھ کمیٹی تشکیل دی ہے جو کمیونٹی کے نوجوان ممبروں کی تعلیم کے لئے وانگچک نے ادا کی تھی ۔

وانگ چوک نے رضاکارانہ "کاربن ٹیکس" کے ذریعے لداخ میں 25،000 درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس سے دنیا کے کسی بھی جگہ بسنے والے ہر حساس انسان کو جسے ماحولیات میں آلودگی پھیلانے کا ادراک ہے، کو ایک موقع فراہم ہوتا ہے کہ وہ لداخ کے انتہائی خطرے سے دوچار علاقوں میں جنگلات کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالے ۔

بالی ووڈ کے مداحوں کے درمیان انتہائی کامیاب فلم تھری ایڈیٹس سونم وانگچک کی زندگی پر مبنی ہے ۔ اس فلم میں عامر خان نے وانگچک کا کردار ادا کیا تھا۔ وانگچوک پیشہ کے لحاظ سے ایک انجینئر ہیں جنہوں نے لداخ میں نظام تعلیم کی اصلاح کا کام کیا۔ انہوں نے "متبادل تعلیم اور ثقافتی تحریک لداخ کے طلباء " نام کا ایک متبادل اسکول قائم کیا ہے ۔

وانگچک کی سوچ ہے کہ لوگوں کو یہ احساس ہو جائے کہ انہیں ان کے ’’ کاربن کے اخراج کے گناہ ‘‘ کی ادائیگی کرنی ہے اور انہوں نے تجربے کے طور پر اس کے لئے کیرات کا انتخاب کیا۔

وانگچک کے مطابق وہ فلائٹ ٹکٹ کی دوگنی رقم 'کاربن ٹیکس' کے لئے الگ سے مختص کرتے ہیں ۔ وہ اس رقم کو ‘درخت لگا کر کاربن کے نشانات ختم کرنے کی کوششوں میں صرف کرتے ہیں ۔

وہ کہتے ہیں کہ دہلی-ممبئی کی پرواز کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گرین ہاؤس گیسوں کو فضا میں خارج کرتی ہے جو آخر کار زمین کی فضا میں حرارت کو اوپر جانے سے روکتی ہے اور گلوبل وارمنگ کا باعث بنتی ہے ، یہ ہے وہ خطرہ جس کی وجہ سے گلیشیر پگھلتے ہیں اور زمین پر درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوتا ہے ۔

لاک ڈاؤن میں انہوں نے گاؤں کے سطح پر ہونے والے بہت سے آئس اسٹوپا مقابلوں میں بھی حصہ لیا جس کا مقصد موسم سرما میں ایک غیر ملکی آئس تکون کی شکل میں پانی کا تحفظ کرنا تھا جس سے گرمیوں میں ندیوں میں آہستہ آہستہ پانی جاری ہوتا ہے۔

وانگچک نظام تعلیم میں ایسی تبدیلی کی وکالت کرتے رہے ہیں جس میں بچوں کو نہ صرف کتابوں کا بلکہ اپنے ماحول کا بھی علم حاصل ہو ۔