مساجد اور ملی اداروں میں مسلم خواتین کی شراکت مثبت مگرنئی نہیں۔علماء و دانشور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 29-09-2021
 مثبت علامت
مثبت علامت

 

 

منصور الدین فریدی : نئی دہلی 

اس وقت عالم اسلام میں خواتین کے کرداراورحقوق کے لیے سعودی عرب سے ایک بڑی تحریک رواں دواں ہے۔ قدامت پسندی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے خواتین کے لیے متعدد نئی راہیں کھل رہی ہیں یہی نہیں امریکہ اور یورپ میں بھی مسلم خواتین کچھ ایسی ذمہ داریاں نبھاتی نظر آرہی ہیں جواب بھی مسلمانوں کے روایتی اور دقیانوسی ماحول میں قابل قبول نہیں ہے۔ا ن میں ایک ہے مسجد انتظامیہ میں خواتین کی حصہ داری ۔جو خواتین کے مساجد میں داخلہ پر اختلاف رائے رکھتے ہیں ان کے لیے تو یہ خبر کسی بجلی گرنے کے مترادف ہی ہوگی لیکن حقیقت یہی ہے کہ اب امریکہ میں مسلم خواتین کی مسجد انتظامیہ میں حصہ داری میں اضافہ ہورہا ہے۔

ہندوستانی علما اور دانشور حضرات اس تبدیلی کو مثبت ماتے ہیں لیکن نیا نہیں کیونکہ خواتین یہ کردار پیغمبر اسلام کے دور سے نبھا رہی تھیں ۔ ہر میدان میں نبھا رہی تھیں۔اہم ذمہ داریاں ادا کررہی تھیں۔ اس میں مذہبی طور کبھی کوئی رکاوٹ نہیں آئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مذہب میں نظر کے پردے کا حکم ہے ۔سورہ نور میں مرد اور عورتوں دونوں کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم ہے۔ اس لیے پردہ بھی کبھی خواتین کی راہ میں حائل نہیں ہوا ہے اور نہ ہونا چاہیے۔

شاہی مسجد فتحپوری کے امام مولانا مفتی مکرم احمد کہتے ہیں کہ اسلام در اصل دین فطرت ہے۔ ہر ذمہ داری میں کہیں نہ کہیں فطرت کا دخل ہوتا ہے۔ضرورت اور مجبوری کا بھی بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ خواتین نے اسلام کی تاریخ میں پڑھئے تو جنگوں کے میدان میں خواتین نے زخم بھی کھائے اور زخمیوں کی مرہم پٹی بھی کی۔ مساجد کی ذمہ داریاں نبھائیں اور تجارت میں خدیجۃالکبریٰ بھی اہم کردار ادا کیا ہے وہ پیغمبر اسلام کے دور میں بین الاقوامی تجارت کی تنہا مالک تھیں۔ ۔اسلام نے خواتین کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں پیدا کی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ کام ضرورت کے مطابق ہو ،خدمت کے جذبے سے ہو اور شریعت کے دائرے میں ہو۔

مولانا مفتی مکرم کہتے ہیں کہ میں عراق گیا توسرکاری دفاتر میں ستر فیصد خواتین نظر آئیں ،وجہ تھی کہ یا تو ان کے شوہر طویل جنگ اور خانہ جنگی میں مارے جا چکے ہیں یا پھر روزگار کےلیے دوسرے شہروں کا رخ کررہے ہیں ۔ یہی حال میں نے مصر میں دیکھا۔جہاں سیاسی تبدیلیوں کے بعد جو بے روزگاری پیدا ہوئی ہے اس نے خواتین ملازمت پر مجبور کردیا۔ میرے قیام کے دوران میری گائڈ بھی ایک خاتون تھیں۔ مفتی مکرم کہتے ہیں کہ کام جذبہ اور خلوص نیت سے ہو تو کوئی ہرج نہیں اس کو سیاسی فیشن بنانا درست نہیں ۔

 ممتاز دانشور اور اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر اختر الواسع کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی مثبت علامت ہے۔ لیکن اسلام میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بات صرف خواتین کی مساجد میں جانے اور عبادت کرنے کی نہیں ہے بلکہ خواتین تو مساجد کی پالیسی سازی کا حصہ رہی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ حضرت عمر فاروق کے دور میں جب مہر کی رقم کی زیادتی کی شکایت پر اس کی حد مقرر کرنے پر ایک موقع پر حضرت عمر نے فرمایا کہ” تم لوگوں کو متنبہ کیاجاتا ہے کہ عورتوں کی مہر زیادہ نہ باندھو، اگر مہرزیادہ باندھنا دنیا کے اعتبار سے بڑائی ہوتی اور عنداللہ تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق ہوتے۔(ترمذی)

حضرت عمر کواس تقریر پر ایک عورت نے بھری مجلس میں ٹوکا اور کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں؛ حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( وَآتَیْْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْْئاً (النساء: ۲۰ اور دیا ہے ان میں سے کسی ایک کو ڈھیر سا مان تو اس میں سے کچھ نہ لو۔

جب خدا نے جائز رکھا ہے کہ شوہر مہرمیں ایک قنطار بھی دے سکتا ہے تو تم اس کو منع کرنے والے کون ہوتے ہو۔ حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا کُلُّکُمْ أعْلَمُ مِنْ عُمَر تم سب تم سے زیادہ علم والے ہو۔اس عورت کی آزادیِ رائے کو مجروح قرار نہیں دیا کہ حضرت عمر کو کیوں ٹوکا گیا اور ان پر کیوں اعتراض کیا گیا؛ کیوں کہ حضرت عمر کی گفتگو اولیت اور افضیلت میں تھی۔ نفس جواز میں نہ تھی۔

جس کے سبب حضرت عمر فاروق کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔ پروفیسر اختر الواسع کا کہنا ہے کہ ایسی سرگرمیوں میں شامل ہونے سے بہت فائدے ہیں ۔اس سے شعور بیدار ہوتا ہے۔فیصلہ سازی میں مہارت آتی ہے۔ اعتماد پیدا ہوتا ہے۔

۰ پروفیسر اختر الواسع کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ ایک بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ خواتین کے لیے باہری ماحول کیسا ہے۔ معاشرے میں اگر خواتین محفوظ ہیں تو ان کے لیے تمام راہوں پر سفر آسان ہے۔

ممبئی کے ممتازعالم مولانا ظہیرعبا س رضوی کا کہنا ہے کہ یہ بہت ہی مثبت علامت ہے۔اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں بلکہ آج کے ماحول میں یہ بہت ضروری ہوگیا ہے۔ در اصل مغرب کے ماحول کے سبب یہ بہت ضروری ہے۔اس کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہماری نئی نسل مذہب کی باریکیوں سے واقف رہے گی۔جو خواتین ایسی ذمہ داریاں ادا کریں گی وہ نہ صرف اپنا گھر محفوظ رکھ سکتی ہیں بلکہ آس پاس کے خاندانوں کو بھی راہ دکھا سکتی ہیں۔ مولانا عباس کے مطابق اسلام کہیں بھی ہو،خواہ مغرب ہو یا مشرق اسلام کی ایک ہی شکل ہے جس میں بے انتہا لچک اور گنجائش ہے۔ جس کے تحت ہم خود کو ماحول میں نہیں بلکہ ماحول کو اپنے مذہبی ڈھانچہ میں اتار دینا چاہیے۔

اگر برطانیہ میں خواتین مساجد میں انتظامی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں تو اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ ہمارے خاندان مغربی زندگی کے عادی نہیں ہونگے۔نئی نسل کو ان کی ماھیں ہی راہ دکھائیں گی۔

 مولانا عباس خود دو تہائی دنیا کا دورہ کرچکے ہیں ،انہوں نے چودہ سال کے دوران بیرون ممالک سینکڑوں تقاریرکی ہیں ان کے معاشرے کو قریب سے دیکھا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس پس منظر میں خواتین کی یہ سرگرمیاں ایک اچھی علامت ہے۔

 انٹر نیشنل صوفی کارواں کے سربراہ مفتی منظور ضیائی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ خواتین کے لیے اسلام میں بہت آزادی ہے لیکن ہم خواتین کو ایسے بہت سے کاموں سے دور رکھتے ہیں۔ان میں حالات اور ماحول کا دخل ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام میں خواتین کے لیے کسی قسم کی پابندی نہیں ہے بلکہ ایک دائرہ ہے۔شریعت  کے اصول ہیں۔مولانا مفتی ضیائی کے مطابق خواتین کو اسلام نے سب سے زیادہ حقوق دئیے ہیں ،جس میں ان کے تحفظ پر بھی بہت زور دیا گیا ہے۔ بلاشبہ خواتین مختلف ممالک میں اس قسم کی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں لیکن یہ اسلام کی تاریخ میں پہلے  سے ہوتا رہا ہے۔ اب ہم کو خواتین کو ماحول اور حالات کے پیش نظر ذمہ  داریاں دینی پڑتی ہیں ۔