سپریا : میں مسلمانوں کواچھا نہیں سمجھتی تھی مگر ۔۔۔

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-06-2021
 سپریا ان کے مسیحا امین مدثر اور ڈاکٹر رافعہ انجم
سپریا ان کے مسیحا امین مدثر اور ڈاکٹر رافعہ انجم

 

 

منصور الدین فریدی:نئی دہلی

میں شروع میں یہی سمجھتی تھی کہ مسلمان اچھے نہیں ہوتے ،میرا کوئی مسلمان دوست نہیں تھا۔ لیکن ان حالات اورنازک وقت میں مجھے سمجھ میں آیا ہے کہ مسلمان ایسے ہیں جن سے دوستی کی جاسکتی ہے اورجن کو فیملی کا رکن بنایا جاسکتا ہے۔ہر کوئی ایسا کرسکتا ہے۔ایسے حالات میں وہ آپ کے ساتھ ہیں خواہ آپ کورونا پازیٹیو ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ مدد کےلئےایسے وقت آگےآرہے ہیں جب دوسرے خوف زدہ ہیں اور بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

 یہ الفاظ ایک خاتون سپریا کے ہیں جن کا یہ ویڈیوسوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے ،جن کا تعلق بنگلور سے ہے۔جن کی والدہ جب کورونا پازیٹیو ہوئی تھیں تو جس گروپ نے ان کی مدد کی تھی وہ ’ایمر جنسی رسپانس ٹیم ‘ کے مسلم رضا کار تھے،جنہوں نے ان کی والدہ کو بلا کسی خوف گھر سے اسپتال پہنچایا تھا۔

‘‘وہ مزید کہتی ہیں ’’۔ جب میں نے اپنی والدہ کا کووڈ ٹیسٹ کرایا اور وہ پازیٹیو آیا تو ایک ایسے وقت میں جب کوئی رشتہ دار کام نہیں آیا ،میرا کوئی دوست آگے نہیں آیا۔

اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ لوگ میری مدد کریں گے یا نہیں۔ جب میں نے کال کی تو امین مدثر سرسے بات ہوئی۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔کچھ دیر بعد ڈاکٹر رافعہ انجم کی کال آئی۔دس منٹ کے دوران مجھے ایسا لگا گویا میں وہ میری دوست ہوں یا بڑی بہن۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے پاس پیسہ بھی نہیں ہیں۔ اس کے باوجود وہ میری والدہ کو ایچ بی اسپتال لے گئے۔ اسپتال میں سب ٹیسٹ ہوئے،جس کا بل امین مدثر سر نے ادا کیا۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کی والدہ کو ایڈمٹ کردیا ہے۔ مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ میں حیرت زدہ تھی۔

آپ یقین کرئیے ایسا وقت تھا جب دوست بھی بات نہیں کررہے تھے،سب خوف زدہ تھے۔اگر گھر آگئے تو پازیٹیو ہونے کا خطرہ ہوگا۔ سپریا نم آنکھوں سے کہتی ہیں کہ ۔’ میں جب بھی اپنی ماں سے موبائل پر بات کرتی ہوں وہ بس اس گروپ کو دعائیں دے رہی ہیں۔وہ ہر بار جاننا چاہتی ہیں کہ یہ گروپ کیسے آیا مدد کےلئے؟ وہ ہر بار شکریہ ادا کرتی ہیں سب کا۔

 

 یہ ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹیوٹر‘پروائرل ہورہا ہے۔ جس کو ایمرجنسی رسپانس ٹیم نے ہی تیار کیا ہے ۔اوہ مزید کہتی ہیں کہ ۔۔‘‘ مجھے اس گروپ سے جو مدد ملی اس نے مجھے حیران کردیا۔میں ان تاثرات کو بیان کرنے سے قاصر ہوں۔اس گروپ کو جو بھی مدد کےلئے فون کررہا ہے ،وہ اس کی مدد کررہے ہیں۔

 یاد ہیں امین مدثر ؟

اپریل کے ماہ میں ’کووڈ ہیلپ لائن بنگلور‘ کے روح رواں امین مدثر کا ایک ویڈیو پیغام وائرل ہوا تھا جس میں وہ پریشانی اور افراتفری کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑے تھے اور کہتے نظر آئے تھے کہ ’’۔میں اپنے جذبات کو قابو نہیں کر پا رہا ہوں۔ کووڈ نے شہر میں تباہی مچا دی ہے ۔ اسپتالوں میں نفسا نفسی کا عالم ہے۔ آکسیجن کی عدم فراہمی کی وجہ سے لوگوں کو آئی سی یو سے بھی فارغ کرکے گھر بھیجا جا جارہا ہے۔ لوگوں کو اسپتال کے بیڈ نہیں مل پا رہے ہیں۔ اسپتالوں کے باہر قطاریں ہیں۔ مجھے الفاظ نہیں مل رہے اس حالت کو بیان کرنے کے لئے ۔ ہم نے ایسے بنگلور کی کبھی بھی توقع نہیں کی تھی ۔میری بنگلور کے ہر باسی سے عاجزانہ درخواست ہے کہ براہ کرم آپ لوگ گھر پر ہی رہیں۔ باہر قدم نکالنے سے پہلے ایک دفعہ ضرور سوچئے۔ یہاں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ براہ کرم آگے آئے اور ریمڈیسیویر ، آکسیجن سپلائی اور اسپتال کے بیڈوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے اقدامات کرئے''۔

  در اصل امین مدثر سی آئی جی ایم اے انڈیا کے بانی اور سی ای او ہیں ، ان کی کمپنی ہندوستان اور بیرون ملک کے طلباء کو کیریئر کے انتخاب کے حوالے سے رہنمائی کرتی ہے۔ جب وہ پازیٹیو ہوئے تھے تو اسپتال میں ایک ہی دن میں ’ہیلپ لائن‘کی ویب سائٹ تیار کرلی تھی تاکہ جو پریشانیاں انہیں ہوئی تھیں وہ کسی اور کو نہ ہوں۔اب چند ماہ کے دوران اس وقت بنگلور میں کورونا کے خلاف جنگ میں سب سے اہم اور نمایاں نام ہے۔ چند لوگوں نے متحد ہوکر جو ’ایمرجنسی رسپانس ٹیم ‘ بنائی تھی ا ب وہ صرف مریضوں کو اسپتال ہی نہیں پہنچا رہی ہے بلکہ مریضوں یا ان کے رشتہ داروں کو ہر ممکن معلومات مالی مدد بھی مہیا کرا رہی ہے ۔ کیونکہ بیشتر لوگوں کو سرکاری اسکیموں کا بھی علم نہیں اور پرائیوٹ اسپتالوں میں مفت بستروں کا استعمال بھی شروع کرایا ہے۔ ان کی ٹیم اب بنگلور میں کورونا کے مریضوں کی ہر ممکن مدد کررہی ہے۔ایسی ہی مدد سپریا کو بھی ملی۔

 سپریا کے اس پیغام نے ایک بار پھر ملک کی اس خوبصورتی کو اجاگر کردیا ہے جس کو ہم گنگا جمنی تہذیب کے نام سے جانتے ہیں۔ بلاشبہ کورونا کی وبا نے دنیا کو ‘سماجی فاصلہ’ پر مجبور کردیاہے لیکن ان حالات میں دلوں کے بیچ جو پل بن رہے ہیں ،وہ کہیں نہ کہیں اس دوری کو مٹا رہے ہیں جو کورونا سے قبل ملک کے ماحول کے سبب پیدا ہوئی تھی۔ پریشانی کے ماحول میں ہر کوئی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہے،کوئی نہیں دیکھ رہا ہے کہ کس کا مذہب کیا ہے ،کس کی ذات کیا ہے ۔