سعودی خواتین۔ صحرا سے فلک تک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-02-2021
سعودی عرب میں خواتین کی عید
سعودی عرب میں خواتین کی عید

 

منصور الدین فریدی/ نئی دہلی

 کہتے ہیں اللہ دیتا ہے تو چھپّر پھاڑ کر دیتا ہے،ایسا ہی کچھ سعودی عرب کی خواتین کے ساتھ ہورہا۔ ہے،جو چند سال قبل تک چہار دیواری تک محدود تھیں،پابندیوں میں لپٹی زندگی گزار رہی تھیں،دنیا انہیں ترس بھری نظروں سے دیکھتی تھی،کوئی افسوس کرتا تھا اور کوئی غصہ۔مگر پچھلے چند سال کے دوران ایسا کچھ ہوا جس نے سعودی خواتین کی زندگی ہی بدل دی۔خواتین کے حقوق کیلئے سعودی عرب نے جو قدم اٹھائے، ان سے جہاں سعودی خواتین کی خوشیوں کو پر لگ گئے وہیں دنیا کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔کوئی حیران رہ گیا اور کوئی پریشان بھی ہوگیا۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ان کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے شاہی خاندان کی جانب سے رائج برسوں پرانے قوانین، سماجی روایات اور کاروبار کرنے کے روایتی طریقوں میں تبدیلی پیدا کی۔ یہ دونوں شخصیات اب اس ملک کی نوجوان نسل پر انحصار کر رہی ہیں۔سعودی عرب میں خواتین کی اڑان کیلئے ’ماسٹر پلان‘ بنانے والے،نئی نسل کی نئی امید ولی عہد ”شہزادہ محمد بن سلمان“ ہی ہیں جنہوں نے اس کیلئے کسی کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ تنقید کا سامنا کیا اور مخالفت کا بھی مگر سعودی عرب کی خواتین کیلئے نئی راہیں نکالنے کا عزم تھا،جو انہیں کوئی روک نہیں سکا۔

ہندوستان کے سابق سفیرذکر الرحمان نے ’آواز دی وائس“ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’۔ یقینا بہت بڑی تبدیلیاں آرہی ہیں،خواتین کیلئے نئے دروازے کھل رہے ہیں۔نئی راہیں کھل رہی ہیں۔اس سے سعودی عرب کی ’ورک فورس‘ میں اضافہ ہوگا۔یہ معاشرے کو مزید فروغ دے گا۔“

ولی عہد بنے ہیرو

شہزداہ محمد بن سلمان کی بدولت ا ب سعودی خواتین کیلئے جو نئے راستے کھلے ہیں ان کی ایک طویل فہرست اور کہانی ہے۔ایک بات تو واضح ہے کہ خواتین پر عائد پابندیوں کے جال کو آہستہ آہستہ کاٹ کر سعودی عرب نے دنیا کو روشن خیالی کا زندہ نمونہ پیش کردیا ہے۔ایسے مخالفوں کے منھ بند کرد ئیے ہیں جو صرف اسی بنیاد پر کوسنے کا کام کرتے تھے۔اب سعودی عرب کی خواتین سڑکوں پر کاروں سے ہوا میں جہاز تک اڑا رہی ہیں۔ملازمت کررہی ہیں اور کاروبار میں مصروف ہیں۔زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں انہیں نہ دیکھا جارہا ہو۔ یہ انقلاب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی نئی سوچ کی دین ہے جنہوں نے نئی نسل کو نئی اڑان دینے بڑے قدم اٹھائے،خاص طور پر خواتین کو مختلف میدانوں میں جوہر دکھانے کا موقع دیا۔

 حیران کن بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں خواتین کے حقوق میں اضافہ کے معاملہ میں ایک طبقہ پریشان ہے۔ اس کو ایک منفی تبدیلی قرار دے رہا ہے مگر اس بارے میں سابق سفیر ذکر الرحمان کا کہنا ہے کہ۔۔۔ 

                                  سب کچھ بہت متوازن طریقہ سے ہورہا ہے،ایسا کچھ نہیں ہوگا جو اسلامی قوانین کے خلاف جائے۔ اس سلسلے میں بلاشبہ سہرا ولی عہد محمد بن سلمان کے سر جاتا ہے لیلن جو بھی تبدیلیاں آرہی ہیں ان میں شاہ عبدلعزیز بن سلمان کی منظوری اور رضامندی شامل ہے، تبدیلی کی تو ہر معاشرے میں مخالفت ہوتی ہے،کوئی قبول کرتا ہے اور کوئی نہیں۔لیکن ایک بات تو یقینی ہے کہ یہ بڑے قدم مجموعی طور پر انقلابی ثابت ہونگے“۔

آغاز ’کاغذی‘رہا تھا

ا21ویں صدی کا آغاز ہی خواتین کیلئے مبارک ثابت ہوگیا تھا جب2001میں خواتین کیلئے شناختی کارڈز کا اجرا،ہوا۔ کسی مشکل صورت میں مثال کے طور پر وارثت یا جائیداد کےکسی تنازعے میں ان خواتین کیلئے یہ کارڈ ہی ایک واحد ایسا ثبوت تھا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کر سکیں۔ اس سے قبل کارڈ صرف مرد سرپرست کی اجازت سے ہی جاری ہوسکتے تھے۔ 2006میں اس پابندی کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا۔ ایک اور بڑا قدم اٹھایا گیاتھا،جب 2005 میں قانونی طور پر خواتین کی جبری شادیوں کا خاتمہ ہوا۔ اس کو ایک کاغذی تبدیلی کہا گیا تھا کیونکہ اس کے باوجود کسی خاتون کا اپنی رضا مندی سے شادی کرنا ممکن ہی رہا تھا۔کیونکہ جب تک معاشرہ خود نہیں چاہیے گا اس قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ہے۔اس لئے سعودی خواتین کو بہت زیادہ فائدہ نہیں ملا تھا۔لیکن دنیا کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ صحرا میں پھول کھلنے کے آثار ہوگئے ہیں۔شاہی خاندان نے چھوٹے چھوٹے قدموں کے بعد بڑے قدم اٹھانے کی تیاری کر رکھی تھی۔

saudi women

بدلا بدلا سا سعودی عرب 

تبدیلی کا پہلا اشارہ

جب2009میں شاہ عبداللہ نے ملک کی پہلی خاتون وزیر کو چنا اور’نورہ بنت عبد اللہ الفایز‘ کو نائب وزیر برائے تعلیم نسواں مقرر کیا تو پہلی بار ٹھوس قدم کا اشارہ ملا تھا۔حالانکہ اس کے بعد جب 2012 اولمپک مقابلوں کیلئے پہلی خاتون ایتھلیٹ سارہ عطارکوسعودی عرب نے اولمپک مقابلوں میں حصہ کی اجازت دی۔ لندن اولمپک مقابلوں میں ہیڈ اسکارف کے ساتھ آٹھ سو میٹر ریس میں حصہ لیا تھا۔ تب ایسے خدشات تھے کہ اگرسعودی عرب نے خواتین کو ان مقابلوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی تو سعودی عرب پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔لیکن ایک سال بعد ہی سعودی عرب نے 2013میں خواتین موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت دی تو پھر سب خاموش ہوگئے۔

sw

   نئے حقوق ۔نئی زندگی 

 خواتین کیلئے سوغات

ہر سال شاہی خاندان کی جانب سے ایسے تحفے دئیے جانے کا سلسلہ جاری رہا تھا۔اسی سال مشاورتی شوریٰ میں خواتین کی نمائندگی کا آغاز ہوا تو پھر2015میں ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا حق دیا۔اس وقت تک دنیا کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ شاہی خاندان کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ بدلنے والا ہے۔ایسا ہی ہوا جب 2018 میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملی اور اسی سال اسٹیڈیم میں جانے کی اجازت بھی دیدی گئی۔35 سال بعد سعودی عرب میں ایک مرتبہ پھر سنیما گھر کھل گئے جو کہ 1980 کی دہائی سے بند تھے۔2020میں ایک اور تحفہ ملا،جس کے تحت خواتین نہ صرف اکیلے سفر کر سکتی ہیں اور کسی بھی ہوٹل میں تنہا ٹھہرسکتی ہیں۔سعودی عر ب نے ایک ایسا سیاحتی مقام تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ہے جہاں لباس کے حوالے سے سعودی عرب کے سخت قوانین نافذ نہیں ہوں گے۔ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کہہ چکے ہیں کہ سعودی عرب کو ’معتدل اسلام‘  کی طرف واپس آنا ہوگا۔اب یہ تبدیلیاں سعودی عرب کو بدلا بدلا سا بنا رہی ہیں ،جس کا سب سے زیادہ فائدہ خواتین کو ہی ہورہا ہے جو اب کہیں نہ کہیں اپنے ملک کی ترقی کے ساتھ بھی جڑ گئی ہیں۔