دینی مدارس میں دیگر مذاہب کی تعلیم بھی دینی چاہیے۔ ڈاکٹر سعود عالم قاسمی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
دینی مدارس میں دیگر مذاہب و عقیدے کی تعلیم بھی دینی چاہیے۔ ڈاکٹر سعود عالم قاسمی
دینی مدارس میں دیگر مذاہب و عقیدے کی تعلیم بھی دینی چاہیے۔ ڈاکٹر سعود عالم قاسمی

 

 

 نئی دہلی :منصور الدین فریدی

فرقہ وارانہ اتحاد اور ہم آہنگی پر خطرے کا ایک سبب ہماری روایات کا کمزور پڑنا بھی ہے ،ہمیں گنگا جمنی تہذیب کو محفوظ رکھنا ہوگا۔ ضرورت یہ بھی ہے کہ دینی مدارس میں دیگر مذاہب اور عقیدے کی تعلیم کی پہل کرنی چاہیے ۔یہ آپسی رواداری اور میل محبت کے لیے بہت ضروری ہوگا ۔

 ان خیالات کا اظہارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈیپارڈمنٹ آف تھایولوجی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر مولانا سعود عالم قاسمی نے کیا ۔ وہ راجدھانی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں خسرو فاونڈیشن کے زیر اہتمام ایک تقریب میں صدارتی خطاب کررہے تھے۔جس میں ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی کی کتاب ’’ہندوستان کی شرعی حیثیت ’’کا اجرا ہوا ۔اس کتاب کو خسرو فاونڈیشن نے ہی شائع کیا ہے۔

 مولانا قاسمی نے کہا کہ یہ وقت کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم معاشرے کی خامیوں اور کمزوریوں کو بروقت درست کرلیں تاکہ وہ مرض نہ بن سکے ۔اگر معاشرے میں کوئی مرض پیدا ہوجاتا ہے تو اس کی قیمت ہماری نئی نسل کو ادا کرنی ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کے حالات میں حب الوطنی کے گیت گانا بہت بڑی نیکی ہے،ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ نفرت دیر پا نہیں ہوتی بلکہ محبت دیر پا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے مخلوق کو محبت سے پیدا کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ عرب سے فارس تک تاریخ میں سرزمین ہند کی عظمت اور خصوصیت کے گیت گائے گئے،مذہب سے ادب تک ہندوستان کا ذکر خوبصورتی کے ساتھ کیا گیا ہے۔مولانا قاسمی نے مزید کہا کہ ہم جس سرزمین پر ہیں اس کے بارے میں پیغمبر اسلام نے کہا تھا کہ مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اسلام آباد یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ آپ کا خود کو عالم اسلام کہنا قابل اعتراض نہیں لیکن ہندوستان کو دارالحرب کہنا غلط ہے ،ہم دشمن نہیں ۔اب دنیا میں بہت کچھ نہیں بلکہ سب کچھ بدل چکا ہے۔اب ایک نئی تہذیب اور نظام ہے جس کے تحت دنیا اقوام متحدہ کے ساتھ جڑی ہے ۔اب نئے ماحول اور نئے حالات میں جینے کے لیے ایک نئی سمت میں چلنے کی ضرورت ہے۔اس بات کو پاکستان میں ایک بڑے طبقہ نے بہت پسند کیا تھا اور میرے نظریہ کی تائید کی تھی۔

 انہوں نے کہا کہ خسرو فاونڈیشن نے جو پہل کی ہے وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا میں اثر دکھائے گی ۔

 اس موقع پر مہمان خصوصی آل انڈیا جمعیت اہل حدیث ہند کے صدر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے کہا کہ جیسے اپنی ماں کی مذہبی، شرعی اور اخلاقی حیثیت تلاش نہیں کی جاتی اسی طرح وطن کی مذہبی یا شرعی حیثیت تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ ملک یا وطن سے محبت فطری ہوتی ہے۔وطن ہر کسی کے گلے کا تعویز کی طرح ہوتا ہے۔مگر حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ اب ہمیں نئی نسل کو بتانا پڑرہا ہے کہ اس کی کیا حیثیت ہے۔

awazurdu

 مولانا اصغر علی امام سلفی نے کہا کہ ہندوستان کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ یہ کہنے اور بتانے کی ضرورت کیوں پڑی؟ یہ بھی اہم ہے۔در اصل آج کے حالات کے سبب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ نئی نسل کو بتایا جائے کہ وطن عزیز کی کیا حیثیت ہے۔یہ دور اندیشی ہے جو یہ قدم اٹھایا گیا ،جس کے لیے میں خسرو فاونڈیشن کو مبارک باد دیتا ہوں۔ یہ ایک مثبت قدم اور پہل ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ مذہب کی بنیادی تعلیم ہی وطن سے محبت ہے یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ وطن گلے کا تعویز ہے ۔گنگا جمنی تہذیب ہماری وراثت ہے اور ہم اس کے محافظ ہیں ۔انہوں نے خسرو فاونڈیشن کے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ان کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ وطن کی اس سے بہتر تعریف کچھ اور نہیں ہوسکتی کہ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔

 تقریب کے آغاز پر چیر مین خسرو فاونڈیشن ممتاز دانشور اور پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے ادارے کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس مشن کا مقصد نفرت اور دوری کی آگ کو بجھانا ہے۔ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ کتابیں غلط فہمیاں دور کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔یہ تو شروعات ہے ،اب ہم سمینار اور سمپوزیم بھی کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ خسرو فاونڈیشن کے زیر اہتمام یہ پہلی کتاب ہے،جس میں ہندوستان کے بارے میں تمام فتوے ہیں۔ہم نے یہ بتایا ہے کہ ہندوستان دارالحرب نہیں بلکہ دارالصلح ہے،جہاں نہ کوئی حاکم ہے اور نہ محکوم بلکہ سب اقتدار کے حصہ دار ہیں ،یہ جمہوریت میں ممکن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مشن کوامیر خسرو کا نام دینے کا سبب یہی ہے کہ وہ نہ صرف حضرت نظام الدین اولیا کے چہتے مرید تھے بلکہ ایک شاعر ،موسیقی کار،سپاہی ،صوفی ،درباری اور خانقاہی بھی تھے۔جنہوں نے ہندوستان کی عظمت کے ترانے گائے تھے۔

تقریب کے اختتام پر خسرو فاونڈیشن کے ایک اور ڈائریکٹر سراج قریشی نے اس مشن کو وقت کی ضرورت قرار دیا اور کہا کہ اس کتاب کا مقصد صرف شائع کرنے تک محدود نہیں رہنا چاہیے اسے پڑھنے کی بھی ضرورت ہے ۔اس موقع پر خسرو فاونڈیشن کے دیگر ڈائریکٹر رنجن مکھرجی اور روہت کھیرا بھی موجود تھے۔