مولانا وحید الدین خان ( بعد از مرگ) پدم وبھوشن سے سرفراز

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 09-11-2021
مولانا وحید الدین خان کو( بعد از مرگ) پدم وبھوشن
مولانا وحید الدین خان کو( بعد از مرگ) پدم وبھوشن

 

 

نئی دہلی :آواز دی وائس 

معروف اسلامی اسکالرمرحوم وحیدالدین خان کوآج صدر جمہوریہ ہندرام ناتھ کووندنے ملک کے دوسرے اعلی شہری اعزاز پدم وبھوشن سے نوازا۔ مرحوم مولانا وحیدالدین خان کو پدم وبھوشن اعزازکے لیے جنوری 2021میں منتخب کیاگیاتھااور اس وقت وہ باحیات تھے لیکن اس ایوارڈکی تقریب سے قبل ہی 21،اپریل 2021کو96سال کی عمرمیں انتقال کرگئے ۔

مولانا وحید الدین خان کا شمار ہمارے عہد کے ان ممتاز علما میں ہوتا تھا جنھوں نے دین کی تعبیر و تشریح کے ضمن میں اہم علمی کام کیا ـ تصنیف و تالیف کے میدان میں ان کے نمایاں کارنامے ہیں ـ مولاناوحیدالدین خان ہندوستان کی مردم خیز سرزمین اعظم گڑھ میں یکم جنوری 1925کو پیداہوئے اوروہاں کی عظیم درسگاہ مدرستہ الاصلاح سے تعلیم حاصل کی ۔

ان  کی تحریریں بلاتفریق مذہب ونسل مطالعہ کی جاتی تھیں ۔وہ عام طورپر دانشورطبقہ میں امن پسند مانے جاتے تھے ۔انکا مقصد مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں ہم آہنگی پیداکرنا،اسلام کے متعلق غیرمسلموںمیں جوغلط فہمیاں ہیں انھیں دورکرنا تھا۔

یاد رہے کہ مولانا 1925ء میں اتر پردیش کے مردم خیز علاقہ اعظم گڑھ کے بڈھریا قصبہ میں پیدا ہوئے تھے۔ان کی تعلیم مدرسہ الاصلاح اعظم گڑھ میں ہوئی تھی،جہاں سے عا لمیت کی تعلیم حاصل کی تھی۔

اسلامی مرکزنئی دہلی کے سربراہ رہے اوروہاں سے مقرر،مصنفیاد  اور مفکر کی خدمات انجام دیتے رہے اوراپنے مرکز کے رسالہ الرسالہ کے مدیر رہے۔مولانا  ہفت روزہ الجمعیۃمیں 1967ء سے 1974ء ایڈیٹر رہے۔ انہیں اردو ، ہندی، عربی،فارسی اورانگریزی پر یکساں عبور حاصل تھا۔

 انہوں نے اپنی تحریروں سے ہندو مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی پیدا کرنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ برادران وطن میں اسلام سے متعلق جو غلط فہمیاں ہیں ،انہیں حتی الامکان دور کیا جاسکے۔ ان کے نزدیک دعوت دین کے لیے یہ ایک بنیادی اصول ہے۔

awazurdu

انفرادی نظریہ کے علمبردار

 سوانح حیات میں مولانا اپنے بارے میں لکھا تھا کہ میری پوری زندگی پڑھنے، سوچنے اور مشاہدہ کرنے میں گزری ہے۔ شاید فطر ت کا بھی اور انسانی تاریخ کا بھی۔ مجھے کوئی شخص تفکیری حیوان کہہ سکتا ہے۔ میری تفکیری زندگی کا ایک حصہ ہے جو الرسالہ یا کتب میں شائع ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا نسبتاً غیر منظم ڈائریوں کے صفحات پر ہے‘‘۔ ان سب کے باوجود مولانا کے انفرادی نظریات کے سبب بعض اہل علم اور نقاد صاحبان ان سے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔

خود نوشت سوانح عمری

مولانا وحید الدین خان کی خودن نوشت سوانح عمری ’ اوراق حیات‘ کے عنوان سے منظر عام پر آچکی ہے۔یہ ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ ان کی سوانح کو شاہ عمران حسن نے ترتیب دیا ہے اوراس کی تیاری میں تقریباً 10؍برس لگے تھے۔مولانا کی دوسری تصنیفات کی فہرست طویل ہے ،جو کل ملا کر دو سو سے زائد چھوٹی بڑی کتابیں لکھی ہیں اور ان کی علمی قابلیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا اہم اسلامی موضوعات پر کتابیں تحریر کی ہیں۔

بعض اہم کتابوں کے نام اس طرح ہیں۔ تذکیرالقرآن ، اللہ اکبر، الاسلام، پیغمبر انقلاب، مذہب اور سائنس، مذہب اور جدید چیلنج، ہند پاک ڈائری، اسلام دورے جدید کے خالق، عقلیات اسلام، فسادات کا مسئلہ، سوشلزم اور اسلام۔ ان کے علاوہ عربی کتب کے تراجم اور الاسلام یتحدی انگریزی کتب ہیں۔ مولانا کی عظمت اورعلمی بلندی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی کتاب الاسلام یتحدی قطر ، قاہرہ،طرابلس،خرطوم اورتیونس کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔

اعزازات

مولانا وحید الدین خان کو ان کی زندگی میں متعدد ایوارڈز ملے ،انہیں ڈیجورگس بین الاقوامی ایوارڈ سابق سویت یونین کے صدر گوریر چیف کے ہاتھوں دیاگیا۔ اس کے ساتھ پدم بھوشن،قومی یکجہتی اعزاز، کمیونل ہارمنی اعزاز، قومی اتحاد اعزاز، ارونا آصف علی( بھائی چارگی ایوارڈ)، بین الاقوامی اعزاز ملا تھا۔ یہی نہیں 1989ء میں حکومت پاکستان نے مولانا کی کتاب پیغمبر انقلاب پر پہلابین الاقوای انعام دیا تھا۔

مولانا چونکہ منفرد نظریات اور خیالات کے حامی تھے،اس لیے ان کو مسلم عالموں کا دعوتی طریقہ پسند نہیں تھا۔ اس لیے اپنے ہم عصر علماء کو اپنے قلم کے ذریعہ نشانہ نشانہ بناتے تھے۔ ان کے متعلق کہا جاتا تھا کہ انہیں ہر معاملہ میں مسلمانوں میں خامی نظر آتی ہے اور وہ غیر مسلموں کے ہر دلعزیز بننے جارہے ہیں۔

 مولانا آخری سانس تک تصنیف کا کام کرتے رہے۔ ادھر انہوں نے ٹی وی ، ریڈیو اورسمیناروں میں خرابی صحت کی وجہ سے جانا بندکردیا تھا، لیکن جس طرح لوگ ان کی زندگی میں ان کے علم سے استفادہ کرتے رہے ہیں، امید ہے کہ ابانکی عدم موجودگی میں بھی ان کے صالح تعمیر ی اور سائنٹفک نظریات سے فائدہ حاصل کرتے رہیں گے ۔