آبائی وطن کی تڑپ:نوے سالہ رینا چبر اپنا گھر دیکھنے پاکستان پہنچ گئیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-07-2022
 آبائی وطن کی تڑپ:نوے سالہ رینا چبر اپنا گھر دیکھنے پاکستان پہنچ گئیں
آبائی وطن کی تڑپ:نوے سالہ رینا چبر اپنا گھر دیکھنے پاکستان پہنچ گئیں

 

 

آواز دی وائس نئی دہلی

کہتے ہیں انسان اپنے اس مکان اور گلیوں کو نہیں بھو ل پاتا ہے جہاں اس کی پیدائش ہوتی ہے یا بچپن گزرا ہوتا ہے- ایسا ہی کچھ نوے برس کی ہندوستانی خاتون رینا چبرورما کے ساتھ تھا، یہی تڑپ انہیں ہفتہ کو سرحد پار کے گنی-ان  کی دلی خواہش آخر پوری ہو ہی گئی اور وہ ایک بار اپنا آبائی گھر دیکھنے پاکستان پہنچ گئی ہیں۔ جو پنڈی میں ہے-اب وہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں-

جب ملک کا بٹوارہ ہوا تھا تو ان کی عمر پندرہ سال تھی اور اب وہ 92سال کی ہیں،مگر اپنا سرحد پار کا مکان دیکھنے کے لیے وہ اب پاکستان پہنچ چکی  ہیں -

پاکستان آمد پر ان کا کہنا ہے کہ ’اتنی محبتیں مل رہی ہیں کہ لگتا ہے اپنے گھر واپس آگئی ہوں۔

Awaz

پنڈی میں رہنا آنٹی کے آباءواجداد کی نشانی


 تقسیم ہند نے جہاں زمینوں کا بٹوارہ کیا وہیں لوگوں کو بھی ہجرت پر مجبور کیا۔ رینا چبر ورما (توشی آنٹی) کا تعلق بھی ایک ایسے ہی خاندان سے ہے۔ وہ جنوری 1932 میں راولپنڈی میں پیدا ہوئیں اور 1947 میں 15 برس کی عمر میں اپنے خاندان والوں کے ساتھ ہندوستان مقل مکانی کر گئیں۔ لیکن بچپن کی خوبصورت باتیں اور آبائی شہر کی یادیں ان کے دل سے نہ نکل سکیں۔ خاص کر راولپنڈی کے گھر کی یاد نے رینا چبر ورما کو ہمیشہ بے چین رکھا۔

رواں سال مارچ میں رینا آنٹی نے پاکستان کے ویزے کے لیے درخواست دی تھی تاہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے آخری دنوں میں دی گئی ویزے کی درخواست حیران کن طور پر ’بغیر کوئی وجہ‘ بتائے مسترد کر دی گئی تھی۔

awaz

واگھہ بورڈ پر رینا


رینا آنٹی کو انتہائی مایوسی ہوئی تو ہمیں بھی کم حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اس بات کا معاہدہ ہے کہ 60 برس سے زائد عمر کے افراد خاص کر وہ لوگ جن کی پیدائش سرحد پار ہوئی ہو، ان کے لیے ویزہ شرائط میں نہ صرف نرمی کی جائے گی بلکہ ویزے کو یقینی بنایا جائے گا۔

بہرحال برطانوی اردو اخبار دی انڈیپنڈنٹ نے اس سلسلے میں ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے رینا آنٹی کے لیے سوشل میڈیا پر مہم شروع کی۔

چند ہی دنوں میں معاون خصوصی برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے ٹوئٹس کا نوٹس لیا اور پاکستانی ہائی کمیشن کو معاملہ حل کرنے کی ہدایات کیں۔

 Awaz

نئی دہلی میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن نے رینا آنٹی کو فون کر کے مدعو کیا اور چند ہی دنوں میں ان کو پاکستان کا ویزہ بڑی آسانی سے مل گیا۔ 75 برس بعد واہگہ کے راستے پاکستان آنے والی رینا آنٹی محبتوں میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ 

نوے سال کی عمر میں وہ تنہا پونا سے پاکستان آئی ہیں۔ پاکستان ہی نہیں ہندوستان میں بھی لوگ حیران تھے کہ وہ اتنی دور تنہا کیسے جائیں گی لیکن ایک ایسی ٹیم کا ساتھ ان کے ساتھ موجود تھا جس نے ان کا یہ دورہ بہت آسان بنا دیا۔

ان کا پاکستان پہنچنا ہندوستان پاکستان ہیریٹیج کلب‘ کے ذریعے ممکن ہوا۔ اس کلب کا فیس بک صفحے سرحد کے دونوں پار افراد کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا کام کر رہا ہے۔

گروپ کے بانی لاہور کے عمران ولیم اور گروپ ممبر ظاہر محمود نے نہ صرف رینا آنٹی کے ویزے کے لیے اسپانسر کیا بلکہ لاہور میں رہائش کے انتظامات بھی کیے، جبکہ راولپنڈی کے سجاد حیدر نے رینا آنٹی کو ان کے آبائی گھر کی تصاویر بھیج کر آتش شوق مزید بڑھایا تھا اور اب انہوں نے ہی راولپنڈی میں ان کے لیے تمام انتظامات کیے ہیں۔

awaz

پاکستانی صحافی جنہوں نے اس سفر کو ممکن منایا


ایک ہفتے کے اس دورے میں وہ تین دن لاہور میں گزاریں گیں اور اپنی پرانی یادیں تازہ کریں گی۔ اس کے بعد وہ اپنے خوابوں کے گھر، راولپنڈی کا رخ کریں گیں۔ رینا آنٹی کہتی ہیں کہ اب وہاں کوئی اور رہتا ہے لیکن میں نے تصویروں میں باہر سے گھر کو دیکھا ہے۔

وہ گھر اب بھی بالکل ویسا ہی ہے جیسا ہم نے چھوڑا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے تو آج بھی وہ اپنا ہی لگتا ہے۔‘ روالپنڈی کا گھر، شہر اور پرانے محلے داروں سے ملنے کے بعد وہ ایک دن کے لیے مری بھی جائیں گی جہاں 75 برس قبل ہر سال موسم گرما میں وہ اپنی چھٹیاں بتایا کرتی تھی۔ رینا آنٹی کی خواہش تھی کہ وہ کرتار پور میں دربار صاحب پر بھی حاضری دیں لیکن ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ اس حوالے سے کچھ مایوس ہیں۔

بٹوارے کے دوران نے رینا چبرورما نے دنگے فساد بہت قریب سے دیکھے اس وجہ سے انہیں اپنے گھر اور شہر سے دور ہونا پڑا لیکن وہ آج بھی انسانیت کے مذہب پر یقین رکھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’ہم نے ہجرت کے زخم سہے ہیں لیکن پھر بھی دلوں میں محبت ہے۔

’آج کی نسل نے وہ وقت دیکھا ہی نہیں پھر یہ ایک دوسرے سے اتنی نفرت کیسے کرسکتے ہیں؟ ہندوستان پاکستان دو الگ الگ ملک ہیں۔ نفرتیں بھول کر آگے بڑھیں، دونوں ملک ایک نہیں ہوسکتے لیکن اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنا تو سیکھ سکتے ہیں۔‘

Awaz

واگھہ بورڈر پر رینا ورما کی آنکھوں نم تھیں


رینا ورما نے سوشل میڈیا پر ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا خاندان دیوی کالج روڈ پر رہائش پذیر تھا جبکہ اب وہ پونا میں رہتی ہیں۔ 1947 میں تقسیم کے وقت ان کی عمر 15 سال تھی اور وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ انڈیا چلی گئی تھیں۔

انہوں نے ویڈیو میں بیتے دن یاد کرتے ہوئے کہا ’میں ماڈرن سکول میں پڑھتی تھی۔ میرے چار بہن بھائی بھی میرے ساتھ اسی اسکول میں تھے جبکہ میرا ایک بھائی اور بہن گورڈن کالج میں پڑھتے تھے جو ہمارے اسکول کے قریب ہی واقع تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا ’میرے بڑے بہن بھائیوں کے دوست مسلمان تھے جو ہمارے گھر آیا کرتے تھے کیونکہ میرے والد ترقی پسند خیالات کے مالک تھے اور وہ لڑکے لڑکیوں کے آپس میں ملنے کے خلاف نہیں تھے۔‘ رینا کے مطابق ’تقسیم کے قبل مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کوئی مسائل نہیں تھے، یہ تقسیم کے بعد پیدا ہوئے تھے۔‘