اینسویں صدی کے لکھنوکی عزاداری اور گنگاجمنی تہذیب

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-08-2021
اینسویں صدی کے لکھنوکی عزاداری اور گنگاجمنی تہذیب
اینسویں صدی کے لکھنوکی عزاداری اور گنگاجمنی تہذیب

 

 

حمزہ ابراہیم

دکن کی شیعہ سلطنتوں کےمغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے حملوں کے نتیجے میں خاتمے کے بعد ہندوستان کی مسلم تہذیب کا مرکز دہلی ہی رہ گیا تھا جو ایک صدی میں زوال پذیر ہوا تو لکھنؤ مسلم تہذیب کا قبلہ قرار پایا۔ اردو کے معروف ادیب اور اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے عالم دین مولانا عبد الحلیم شرّر (1860۔1926) نے اپنی کتاب ’گذشتہ لکھنؤ – مشرقی تمدن کا آخری نمونہ‘ میں اس شہر کی تہذیب اور رہن سہن پر روشنی ڈالی ہے۔ یہاں اس کتاب میں سے عزاداری سے متعلق کچھ اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ قدیم عزاداری کی ایک تصویر قارئین کے سامنے آ جائے:

آصفی امام باڑہ

’’انھوں (نواب آصف الدولہ) نے دریا کنارے مچھی بھون کے مغرب طرف دولت خانہ رومی دروازہ اور اپنا یکتائے روزگار امام باڑہ تعمیر کرایا۔ 1784 میں اودھ میں قحط پڑ گیا تھا اور شرفائے شہر فاقہ کشی میں مبتلا تھے۔ اس نازک موقعے پر رعایا کی دستگیری کے لئے امام باڑے کی عمارت چھیڑ دی گئی۔

چونکہ شریف لوگ دن کو مزدوری کرنے میں اپنی بے عزتی خیال کرتے تھے، اس لئے تعمیر کا کام دن کی طرح رات کو بھی جاری رہتا اور غریب و فاقہ کش شرفائے شہر رات کے اندھیرے میں آ کے مزدوروں میں شریک ہو جاتے اور مشعلوں کی روشنی میں کام کرتے۔

اس عمارت کو نواب نے جیسے خلوص عقیدت اور جوش دینداری سے بنوایا تھا ویسے ہی خالص اور سچے دلی جوش سے لوگوں نے تعمیر بھی کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایسی نفیس اور شاندار عمارت بن کے تیار ہو گئی جو اپنی نوعیت میں بے مثل اور نادر روزگار ہے۔ اس کا نقشہ بنانے کیلئے بڑے بڑے مشہور مھندس اور معمار بلائے گئے اور سب نے کوشش کی کہ ہمارا نقشہ دوسروں کے مجوزہ نقشے سے بڑھ جائے‘‘۔

محرم میں شہر کا ماحول

’’محرم میں اور اکثر مذہبی عبادتوں کے ایام میں لکھنؤ کے گلی کوچوں میں تمام گھروں سے پر سوز و گداز تانوں اور دلکش نغموں کی عجیب حیرت انگیز صدائیں بلند ہوتی ہیں اور کوئی مقام نہیں ہوتا جہاں یہ سماں نہ بندھا ہو۔ آپ جس گلی میں کھڑے ہو کے سننے لگے، ایسی دلکش آوازیں اور ایسا مست و بے خود کرنے والا نغمہ سننے میں آ جائے گا کہ آپ زندگی بھر نہیں بھول سکتے۔

ہندوؤں اور بعض خاص خاص سنیوں کے مکانوں میں تو خاموشی ہوتی ہے۔ باقی جدھر کان لگائیے نوحہ خوانی کے قیامت خیز نغموں ہی کی آوازیں آتی ہوتی ہیں۔تعزیہ داری چونکہ نوحہ خوانی کا بہانہ ہے اس لئے سنی اور شیعہ دونوں گروہوں کے گھروں میں نوحہ خوانی کے شوق میں تعزیہ داری ہونے لگی اور سنی مسلمان ہی نہیں، ہزار ہا ہندو بھی تعزیہ داری اختیار کر کے نوحہ خوانی کرنے لگے‘‘۔

محرم میں لباس

‘‘محرم چونکہ لکھنؤ میں ایک بڑی اہم چیز اور عزاداری کا زمانہ تھا اس لئےسوگواری اور نفاست اور نزاکت کا لحاظ رکھ کے یہاں محرم کیلئے خاص لباس اور خاص زیور ایجاد ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔سبز، نیلا اور سیاہ رنگ اور اس کے ساتھ زرد رنگ بھی اس موسم کیلئے مناسب سمجھے گئے۔

چنانچہ یہاں محرم میں تمام عورتوں کا لاس انہیں مذکورہ رنگوں سے مناسب جوڑ لگا کر منتخب کیا جاتا۔ سارا زیور بڑھا دیا جاتا ، حتیٰ کہ چوڑیاں تک اتار دی جاتیں۔ جن کے عوض کلائیوں کیلئے ریشم کی سیاہ و سبز پہونچیاں اور کانوں کیلئے سیاہ و زرد ریشم کے کرن پھول ایجاد ہوئے‘‘۔

مجالس عزا

آداب صحبت میں دسویں چیز مذہبی صحبتیں یعنی عزاداری کی مجلسیں اور مولود شریف کی محفلیں ہیں۔ مجلسوں کا عام رواج شیعوں میں ہے اور مولود شریف کا سنیوں میں اگرچہ دونوں میں دونوں فریقوں کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی بعض محب اہلبیت سنی مجلس عزا کرتے ہیں اور شیعہ حضرات کے ہاں مولود شریف کی محفل ہوتی ہے۔۔۔

مجالس ہی کی برکت سے یہاں مختلف قسم کے ذاکر پیدا ہو گئے جو جدا جدا عنوانوں سے مصائب سید الشہدا علیہ السلام کو بیان کر کے روتے رلاتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلے علما و مجتہدین کا بیان ہے۔ اس کے بعد حدیث خوان ہیں جو احادیث کو سنا کر ایسے پر درد اور سوز و گداز کی آواز میں فضائل آئمہ اطہار اور مصائب آل رسول بیان کرتے ہیں کہ سامعین بے اختیار رونے لگتے ہیں۔ اور کیسا ہی سنگ دل ہو، ضبط گریہ نہیں کر سکتا۔۔۔

ان کے بعد مرثیہ خوان یا تحت اللفظ خوان ہیں جو مرثیوں کو شاعرانہ انداز میں سناتے ہیں۔ مگر اس سادگی کے سنانے میں بھی چشم و ابرو اور ہاتھ پاؤں کے حرکات و سکنات سے واقعات کی ایسی سچی اور مکمل تصویر کھینچ دیتے ہیں کہ سامعین کو اگر رقت سے فرصت ملی تو داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسی مرثیہ خوانی کی ضرورت نے میر انیس اور مرزا دبیر پیدا کیے جو کمال شاعری کے اعلیٰ ترین شہ نشین پر پہنچ گئے۔

نذر نیاز

مجلسوں میں ختم کے وقت شربت پلانا یا مٹھائی یا کھانا تقسیم کرنا لازم ہے۔ مگر مہذب اور دولت مند لوگوں نے اب یہ نہایت ہی شائستہ طریقہ اختیار کر لیا ہے کہ جن حضرات کو بلانا ہوتا ہے ان کے پاس دعوت کے رقعوں کے ساتھ حصہ بھی بھیج دیا جاتا ہے۔ مجلس سے واپس آتے وقت ہاتھ میں حصہ لے کر چلنا بہت سے مہذب اور خوشحال لوگوں کو تہذیب کے خلاف اور نہایت مبتذل معلوم ہوتا تھا‘‘۔

مجلس کا نقشہ و ترتیب

’’مجلس کی نشست کی شان یہ ہے کہ لکڑی کا ایک منبر جس میں سات آٹھ زینے ہوتے ہیں، دالان یا کمرے کے ایک جانب رکھا ہوتا ہے اور لوگ چاروں طرف دیوار کے برابر پر تکلف فرش پر بیٹھتے ہیں۔ اور اگر مجمع زیادہ ہوا تو بیچ کی جگہ بھی بھر جاتی ہے۔ جب کافی آدمی جمع ہو جاتے ہیں تو ذاکر صاحب ممبر پر رونق افروز ہو کر پہلے ہاتھ اٹھا کر کہتے ہیں ’’فاتحہ‘‘۔ ساتھ ہی تمام حاضرین ہاتھ اٹھا کر چپکے چپکے سورہ فاتحہ پڑھ لیتے ہیں۔

اس کے بعد اگر وہ حدیث خوان یا واقعہ خوان ہوئے تو کتاب کھول کر بیان کرنا شروع کرتے ہیں اور اگر مرثیہ خوان ہوئے تو مرثیے کے اوراق ہاتھ میں لے کر مرثیہ سنانے لگتے ہیں۔ مجتہدوں اور حدیث خوانوں کے بیان کو لوگ خاموشی اور ادب سے سنتے اور رقت کے موقعوں پر زار و قطار روتے ہیں۔ مگر مرثیوں کے سنتے وقت مجمع حاضرین سے، بجز رقت کے بندوں کے جبکہ رونے سے فرصت نہیں ملتی، برابر صدائے آفرین و مرحبا بلند ہوتی رہتی ہے۔

سوز خوان منبر پر نہیں بیٹھتے بلکہ لوگوں کے بیچ میں ایک جانب بیٹھ کر نوحے اور مرثیے سناتے ہیں اور اکثر داد بھی پاتے ہیں۔ اکثر مجلسوں میں مختلف ذاکر یکے بعد دیگرے پڑھتے ہیں اور عموماً حدیث خوانی کے بعد مرثیہ خوانی اور اس کے بعد سوز خوانی ہوتی ہے۔

سوز خوانی چونکہ دراصل گانا ہے اس لئے اس کا رواج اگرچہ لکھنؤ ہی نہیں، سارے ہندوستان میں کثرت سے ہو گیا ہے۔ مگر مجتہدین اور ثقہ اور پا بند شرع بزرگوں کی مجلسوں میں سوز خوانی نہیں ہوتی۔ مجتہدین کے وہاں کی مجلسوں میں پابندی دین کا بہت خیال رہتا ہے۔

خصوصاً یہاں غفران مآب کے امام باڑے میں نویں محرم کو جو مجلس ہوتی ہے وہ خاص شان اور امتیاز رکھتی ہے۔ اس کی شرکت کے شوق میں لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ اس میں اثنائے بیان میں اونٹ حاضرین کے سامنے لائے جاتے ہیں جن پر کجاوے یا محملیں ہوتی ہیں اور ان پر سیاہ پوششیں پڑی ہوتی ہیں۔

اور مومنین کو یہ منظر نظر آ جاتا ہے کہ دشت کربلا میں اہلبیت کا لوٹا مارا اور تباہ شدہ قافلہ کس مظلومیت اور ستم زدگی کی شان سے شام کی طرف چلا تھا۔ حاضرین پر اس المناک منظر کا ایسا اثر پڑتا ہے کہ ہزارہا حاضرین سے دس بیس کو غش ضرور آ جاتا ہے۔ جو بڑی مشکل سے اٹھا کر اپنے گھروں کو پہنچائے جاتے ہیں‘‘