نواب شفاعت علی خان: آدم خور جانوروں کے ’سرکاری‘ شکاری

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 29-03-2022
نواب شفاعت علی خان: آدم خور جانوروں کے ’سرکاری‘ شکاری
نواب شفاعت علی خان: آدم خور جانوروں کے ’سرکاری‘ شکاری

 

 

 صابر حسین/نئی دہلی

چونسٹھ سالہ نواب شفاعت علی خان ہندوستان کے سب سے زیادہ معروف شکاری ہیں۔ وہ آدم خور/ خونخار جانوروں سے انسانوں کو بچانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں، حتیٰ کہ ملک کے مختلف حصوں میں خطرناک جانوروں سے بچانے کے لیے ان کی خدمات لی جاتی ہیں۔

جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ جو جانور انسانوں کے لیے خطرناک ہو جاتے ہیں۔ان جنگلی جانوروں کو مار ڈالاجاتا ہے۔

نواب شفاعت علی خان ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد کے ایک اشرافیہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ بڑا حصہ ریاست تمل ناڈو کے مڈوملائی نیشنل پارک(Mudumalai National Park ) اور نیلگیری پہاڑیوں کے درمیان گزارا ہے۔ شکار کے علاوہ اس علاقے میں وہ چند ریزورٹس بھی چلاتے ہیں۔وہ گذشتہ چار دہائیوں سے آدم خور شیر اور چیتے، بدمعاش ہاتھی، جنگلی سور، اور نیل گائے(نیل بیل) کا سراغ لگاکرانہیں ختم کرتے آرہے ہیں۔ ان چار دہائیوں کے درمیان وہ جنگلی حیات کے ماہربن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ علامتوں سے خطرناک جانوروں کے رنگ روپ کا پتہ لگانے کی غیر معمولی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

awazthevoice

نواب شفاعت علی خان اپنے صاحبزادے اصغر کے ساتھ ایس یو وی میں

انہوں نے آواز دی وائس سے انٹرویو کے دوران کہا کہ میں یہاں کئی دہائیوں سے رہ رہا ہوں۔ جب میں صبح کی سیر پر نکلتا ہوں تو مجھے اکثر شیر یا ہاتھی نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر مجھے کوئی جانور نظر نہیں آئےتومیں ان کے پیروں کے نشانات سے اس کی شناخت کرسکتا ہوں کہ آیا یہ شیر کا ہے یا شیرنی کا۔ نیز میں ہاتھی کے قدموں کے نشان سے دیکھ کرہاتھی کی اونچائی بھی بتا سکتا ہوں۔

ان کاخاندانی پس منظر ایسا تھا کہ وہ نیلگیری پہاڑیوں کے درمیان رہنے کے لیے چلے گئے۔ان کی جوانی کے شروع کے دنوں شکار کرنا ایسا ہی تھا، جیسے کوئی کھیل کھیلنا ہو اور ان دنوں ہندوستان کے اندر شکار کرنا جائزتھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ میرے دادا نواب سلطان علی خان بہادر ایک شکاری اور برطانوی انتظامیہ کے جنگلی حیات کے مشیر تھے۔ میں ایک ایسے گھر میں پلا بڑھا جہاں بہت سے بندوقیں تھیں اور جہاں جنگل کی سیر اکثر ہوا کرتی تھی اور رات کو کھانے کے اوقات میں گفتگو بھی شکارسے متعلق ہوا کرتی تھی۔ میں چھوٹی عمر سے ہی جنگل اور جنگلی جانوروں سے واقفیت حاصل کرتا چلا گیا ۔ پانچ سال کی عمر میں انہوں نے رائفل شوٹنگ میں انعام جیتا۔ وہیں انہوں نے صرف 19 سال کی عمر میں 1976 میں میسور میں ایک بدمعاش ہاتھی کو گولی مار کر اپنی طاقت کا ثبوت پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ محکمہ جنگلات کی جانب نے مجھےاس ہاتھی کو مارنے کے لیے کہا گیا تھا، جس نے ایک درجن لوگوں کو ہلاک کردیا تھا۔

awazthevoice

نواب شفاعت علی اپنے گھوڑے پر سوار

اس بدمعاش ہاتھی کو مارنے کے بعد الیوسٹریٹیڈ ویکلی(Illustrated Weekly of India )کے اس وقت کے ایڈیٹر اور انگریزی زبان کے معروف صحافی و مصنف خوشونت سنگھ نے ان کا تفصیلی انٹرویو شائع کیا۔ اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد وہ راتوں رات ملک کی ایک مشہور شخصیت بن چکے تھے۔ ہندوستان میں انسان اور جانوروں کے تنازعہ کے درمیان بہت سی ریاستی حکومتیں آدم خور شیر، چیتے اور بدمعاش ہاتھیوں کو مارنے کےلیے نواب شفاعت علی خان سے رجوع کرتی ہیں۔

نواب شفاعت علی خان کو اپنے ٹریک ریکارڈ پر فخر ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میرے کریڈٹ میں 40 آپریشنز ہیں اور میں نے کبھی بھی کسی غلط جانور کو گولی نہیں ماری۔ میں جنگلی حیات کے انتظام اور انسانوں اور جانوروں کے تنازعہ کے  سے متعلق کئی حکومتوں کے محکمہ جنگلات کا مشیر ہوں۔ ان کا ماننا ہے کہ جب سنہ 1972 وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ ( Wildlife Protection Act) بنایا گیا تو اس وقت جنگلی حیات اور اس کے نظم و نسق کے بارے میں ایک جامع نظریہ پیش نہیں کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان اور جانوروں کے درمیان تنازعہ بڑھ گیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ہندوستان کے سابق شاہی خاندانوں کے پرائیو پرس(privy purse) کو ختم کرنے سے پہلے وہ اپنی زمین اور اپنے جنگلات کے انچارج تھے۔ اگرچہ ان میں سے بہت سے لوگ کھیل کود کے لیے شکار کیا کرتے تھے، تاہم وہ اس کے تحفظ کا بھی خیال رکھتے تھے، جس سے شکاری کا توازن برقرار رہتا تھا۔ تاہم 1972 کے بعد وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ نے ہر قسم کے شکار پر پابندی لگا دی تو جانوروں کے کچھ نسلوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوگیا۔ مثال کے طور پر نیل گائوں کی آبادی اب بہار، اتر پردیش اور گجرات کے کسانوں کے لیے خطرہ بن چکی ہے، نیز جنگلی سور بھی بڑی تعداد میں بڑھ گئے ہیں۔

awaztnevlkce

شفاعت علی خان شکار کرتے ہوئے

وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ جنگلی حیات کےتحفظ پرتوجہ مرکوزکرتا ہے تاہم جنگل کےاحاطہ اور شکار پرتوجہ نہیں دیتا ہے۔ چوں کہ شیر جیسے جانور فطرت کے اعتبار سےعلاقائی ہوتے ہیں،اس لیےان کا علاقہ محدود ہو جاتا ہے۔اس طرح ان کےاورانسانوں کےدرمیان تنازعہ بڑھ جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ آپ ایک اونچی عمارت میں 500 افراد کو رکھ سکتے ہیں لیکن آپ کے لیے جانوروں کو کسی چھوٹے علاقے میں رکھنا ممکن میں نہیں ہوگا، کیونکہ انہیں بڑی جگہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔  بہت سے دوسرے ممالک کے برعکس جہاں توازن برقرار رکھنے کے لیے جنگلی حیات کی آبادی کو کنٹرول کرنے کی اجازت ہے،مگر ہندوستان میں نیل گائوں اور جنگلی سوروں کے علاوہ کسی پر کنٹرول کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

کئی ممالک میں شکار کی اجازت ہے اور مقامی اسٹیک ہولڈر اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تاہم ہندوستان میں شکار پر مکمل پابندی نے 1.87 لاکھ دیہاتوں کے 5 کروڑ افراد کو متاثر کیا ہے۔

ہندوستان میں1987 میں ہاتھیوں کی تعداد 18000 تھی جو اب بڑھ کر 32000 ہو گئی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جانوروں کے تحفظاتی قانون نے تباہی مچا دی ہے اور لوگوں کو جانوروں کا دشمن بنا دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ جنگلات کی پالیسیاں وہ لوگ بنا رہے ہیں،جنہیں زمینی حقائق کا کوئی علم نہیں ہے۔

ہندوستان میں شیر کی تقریباً3000آبادی ایک اور مسئلہ پیدا کر رہی ہے، کیونکہ شیر بہت زیادہ علاقائی ہوتے ہیں اور انہیں بڑی جگہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اوسطاً ایک شیر ہفتے میں ایک بار شکار کرتا ہے اور ایک شیر کو زندہ رہنے کے لیے ایک سال میں کم از کم 52 بڑے شکاری جانوروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب شکار میں کمی آتی ہے کہ تو شیر اپنے علاقے سے باہر نکل پڑتا ہے۔ وہ گاوں کی مویشیوں کو مارنا شروع کر دیتا ہے۔ حتی کہ وہ آدم خور بن جاتا ہے۔

awaz

شفاعت علی خان آدم خور شیرنی کے ساتھ(سنہ2013)

یہی وہ مقام ہے جب انسان اور جانوروں کے درمیان تنازعہ شروع جاتا ہے۔ نواب شفاعت علی خان کا کہنا ہے کہ ان کا کام انتہائی مہارت کا ہے جس کے لیے جانور کی صحیح شناخت ضروری ہے۔ جانوروں کو زندہ پکڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم اگرایساممکن نہ ہو تواسے گولی مار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ نواب شفاعت علی خان نے شیراوردیگر جانوروں کو بھی شانت کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم کئی این جی او کی جانب سے ان پر بدنظمی کا الزام لگایا گیا ہے۔ مگر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ انسانی جانیں بچا رہے ہیں۔

انہوں نےآوازدی وائس کو بتایا کہ این جی اوز کے پاس جو بھی دلائل ہوں، وہ حقیقت کے برعکس ہے۔ جب میں آدم خور شیر یا چیتے یا بدمعاش ہاتھی کو مارتا ہوں تو میں انسانی جانوں کو بچاتا ہوں۔ وہ بتاتے ہیں ان میں زیادہ تر متاثرین غریب دیہاتی ہوتے ہیں، اور یہ متاثر افراد عام طور پر اپنے خاندان کے واحد معاشی سہارا ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرحکومت آدم خور جانوروں کو مارنے کا حکم دے گی توجنگل کے آس پاس کے لوگ آدم خور جانوروں کےحملوں سے بچ سکتے ہیں۔ وہ ریاست مہاراشٹر کے یاوت مل کی آدم خور شیرنی 'اونی' کے معاملے کو مثال کے طور پر اٹھاتے ہیں۔

awaz

نواب شفاعت علی خان محکمہ جنگلات کے افسران کے ساتھ

مہاراشٹر حکومت نے اس شیرنی کو آدم خور قرار دے دیا تھا، اور مہاراشٹر کے محکمہ جنگلات نے اس شیرنی کو مارنے کے لیے نواب شفاعت علی خان سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی اس شیرنی کو شانت کرنے، پھنسانے یا کنٹرول کرنے کے آپریشن کی اجازت دی تھی۔ ان کا بیٹا اصغر بھی شارپ شوٹر ہے۔ انہوں اس مہم میں اسے بھی اپنے ساتھ رکھا تھا۔ وہ بتاتے ہیں مگر 2018 کا وہ شکار ایک انتہائی متنازعہ ثابت ہوا۔ ہم اونی شیرنی کا سراغ لگا رہے تھے اور اس کے بارے میں بات کر رہے تھے جب مجھے بہار حکومت کی طرف سے ایک میٹنگ میں شرکت کے لیے فوری کال موصول ہوئی، جس میں نیل گائوں کے ریوڑ کو کھڑی فصلوں کو تباہ ہونے سے بچانے کام سپرد کیا گیا تھا۔

جب میں میٹنگ کے لیے روانہ ہوا تو اصغر نے یاوت مل والی کارروائیاں سنبھال لیں۔  نواب شفاعت علی خان کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کو درمیان رخنہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ اور یہ الزام لگایا کہ دو ویٹرنری ڈاکٹروں نے ناگپور چڑیا گھر سے اجازت کے بغیر شیر کا پیشاب منگوایا اور اسے شیرنی اونی کے لیے بچھائے گئے کیمرے کے جال کے گرد چھڑک دیا جس سے شیرنی مشتعل ہوگئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ 2 نومبر 2018 کا معاملہ ہے۔ جنگل کے قریب رالے گاؤں میں ہفتہ وار بازار لگا ہوا تھا اور اس دن شیرنی اونی کو کئی بار دیکھا گیا اور اس نے دیر شام ایک اسکوٹر سوار پر بھی حملہ کیا مگر اسکوٹر سوار بچ گیا۔ جب اصغر کو اس کی خبر ہوئی تو وہ ایک ایس یو وی (SUV) میں فارسٹ آفیسر کے ساتھ جائے وقوعہ پر پہنچ گیا۔

فارسٹر نےشیرنی پر ٹرانکوئلائزر ڈارٹ فائر کیا لیکن شیرنی نے موڑ کر گاڑی پر حملہ کردیا اور پھر اصغر نے اسے11.30 بجے رات میں گولی مار دی۔ جہاں گاؤں والوں نے اونی کے قتل پر جشن منایا اور باپ اور بیٹے کی جوڑی کو مبارکباد دی۔ وہیں ایک این جی او کے کارکن نے سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ کردیا کیا کہ اونی آدم خور نہیں تھی اوراسےٹرافی ہنٹ(trophy hunt ) میں مارا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نےاس درخواست کو خارج کر دیا۔

awaz

شفاعت علی خان اپنے گھوڑے کے ساتھ

آوازدی وائس نےان سے سوال کیا کہ جب فارسٹ گارڈز بھی مسلح ہوتے ہیں تو حکومتیں انہیں جانوروں کو مارنے کے لیے کیوں بھرتی کرتی ہیں؟

انہوں نے کہا کہ جوہتھیارمحکمہ جنگلات کےافسرکودیے جاتے ہیں، وہ303رائفل یا سیلف لوڈنگ رائفلیں ہیں۔ یہ دراصل 60 کلووزن والےاوسط انسان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ جب کہ ہنگامی حالت میں آدم خور شیر یا بدمعاش ہاتھی کو مارنے کے لیے الگ طرح کے رائفلز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں پر جانور آپ پر حملہ کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ مجھے جانوروں پر نظر رکھنے کا کئی دہائیوں کا تجربہ ہے اور میں جانوروں کے رویے اور جنگل کے طریقوں سے واقف ہوں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جوفورسٹ گارڈ کو نہیں سکھائی جاسکتیں جس کی وجہ سے حکومتیں میری خدمت طلب کرتی ہیں۔ نواب شفاعت علی خان کے پسندیدہ ہتھیاروں میں سے ایک 458 میگنم رائفل(magnum rifle) اور 470 ڈبل بیرل رائفل (double-barrel rifle) ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بدمعاش جانوروں کو مارنے کے لیے کوئی رقم نہیں لیتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ میں سفری انتظامات اور اسائنمنٹ کے دوران ریاستی حکومتوں کی طرف سے فراہم کردہ رہائش سے مطمئن ہوں۔ میری بنیادی فکر انسانی جانوں کو بچانا ہے اور مجھے کچھ شاندار جانوروں کو مارنے میں کوئی خاص خوشی نہیں ہوتی۔

وہ بتاتے ہیں کہ اگرچہ ہراسائنمنٹ اپنےآپ میں منفرد رہا ہے، مگر سب سے مشکل کام 2017 میں جھارکھنڈ میں ایک بدمعاش ہاتھی کو گولی مارنا تھا جس نے چھ ماہ تک علاقے میں دہشت پھیلا رکھا تھا۔اس ہاتھی نے بہار کے چار اور جھارکھند کے11لوگوں کو ہلاک کردیا تھا۔ ہم نے صاحب گنج میں راج محل کی پہاڑیوں تک اس کا پیچھا کیا۔ ہماری ٹیم کے ساتھ موجود جانوروں کے ایک ڈاکٹر نے اسے ڈارٹ سے پرسکون کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے ہم پرحملہ کردیا اور میں نے اسے 10 میٹر سے بھی کم فاصلے سے سر میں گولی مار کرہلاک کیا۔

نواب شفاعت علی خان اس دور کے آخری انسان ہیں، جب شکار کرنا ملک میں جائز تھا۔ فی الحال وہ مختلف ریاستی حکومتوں کے لیے خطرناک جانوروں کے حملے سے لوگوں کو بچانے کا کام کر رہے ہیں۔