مسلم گھریلو خواتین: سوشل نیٹ ورک کی مدد سے کرر ہی ہیں تجارت

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 27-10-2021
مسلم گھریلو خواتین: سوشل نیٹ ورک کی مدد سے کرر ہی ہیں تجارت
مسلم گھریلو خواتین: سوشل نیٹ ورک کی مدد سے کرر ہی ہیں تجارت

 

 

محمد صفی شمسی،کولکاتہ

سماج کی ضرورتیں ہر زمانہ میں بدلتی رہتی ہیں،اس کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں، کبھی خواتین صرف چہار دیواری کا حصہ ہوا کرتی تھیں، انہیں کچھ بھی کرنے کی اجازت نہیں تھی، تاہم اب خواتین کی زندگی میں بہت زیادہ تبدلی آگئی ہے۔اب خواتین ہر میدان اورہرمحاذ پرنہ صرف دکھائی دیتی ہیں، بلکہ اپنےمنفرد وجود کااحساس بھی دلاتی ہیں۔

اب گھریلوخواتین بھی اپنے فارغ اوقات میں گھرمیں رہتے ہوئے پیشہ وارانہ کام کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ آئیے ہم آپ کوکچھ ایسی ہی گھریلوخواتین بتاتے ہیں،جو گھر میں رہ کراپنے پیشہ ورانہ مہارت کا جوہر دکھا رہی ہیں۔

ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتہ کی مسلم کمیونٹی تعلق رکھنے والی تقریباً 20 ہزارخواتین فیس بک کے ایک اہم گروپ  ' تاجیرہ(Tajira) سے جڑ کراپنی پیشہ ورانہ مہارت اور کاروبار کوفروغ دینے میں سرگرم ہیں۔

تاجیرہ گروپ کی بانی رخشی قادری الیاس کا دعویٰ ہے کہ تمام خواتین تکنیکی اعتبار سے تربیت یافتہ ہیں۔ گذشتہ دو برسوں کے درمیان اس تنظیم نے ایک انقلاب برپا کردیا گیا، ایک چھوٹا سا انقلاب جس نے بہت سی خواتین کی زندگیاں بدل دی ہیں۔

 اِس تنظیم سے جڑنے والی چاربچوں کی ایک ماں گھریلو شیف ہیں، وہ ​فی الحال کیٹرنگ کے کاروبار سے جڑ کر پیسے کما رہی ہیں۔

وہیں تاجیرہ سے جڑنے والی ایک دوسری اہم رکن سماجی حلقوں میں سرگرم ہیں، انہوں نے اپنی تنظیم کو رجسٹرڈ بھی کرا لیا ہے اوراِن دنوں وہ سماجی خدمت میں مصروف ہیں۔

رخشی نے آواز دی وائس کو بتایا کہ ہمارے پاس ایک ایسی خاتون ممبر بھی ہیں جو خواتین کو اسکوٹی چلانا سیکھانے میں مدد کرتی ہیں۔ انہوں نے خود اپنے شوہر کے تعاون سے یہ مہارت حاصل کی اور اب وہ دیگرخواتین کو اسکوٹی چلانا سکھا رہی ہیں۔

خیال رہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے کچھ عرصہ پہلے تاجیرہ نے 2019 میں فیس بک پر ایک گروپ بنا یا تھا۔

رخشی برسوں سے مسلم خواتین کے لیے بطور سماجی کارکن کام کر رہی ہیں۔

awaz

انہوں نے فائن آرٹس میں گریجویش کیا، اس کے علاوہ وہ فیشن ڈیزائننگ اور نفسیات میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ بھی کر چکی ہیں۔علم نفسیات کے مطالعہ نےانہیں انسان دوستی کے استعمال کے ہنر سے متعارف کرایا۔اس کے علاوہ انہوں نے اسلامی علوم پر بھی ایک کورس کیا، یہ کورس مسلم معاشرے کو سمجھنے میں ان کے لیے بہت مددگار ثابت ہوا۔

رخشی کہتی ہیں کہ میرے بہت سے دوست ویل سیٹلڈ تھےاوران میں ایسے لوگ بھی تھے جو کاروبار میں آنا  چاہتے تھے لیکن انہوں نے کبھی اس قسم کوئی تجربہ نہیں کیا تھا،اگرچہ ان کےدرمیان خریدارموجود تھے۔مجھے ابتدائی طور پر خیال ہوا کہ مسلم خواتین کو آگے لایا جائے اور انہیں کاروباری دنیا سے جوڑا جائے۔  تاجیرہ کے لفظی معنی ہیں: ایک کاروباری خاتون۔

رخشی نے مزید کہا کہ اب مسلم خواتین کے علاوہ ہمارےساتھ دوسری کمیونٹیز کی تجربہ کار خواتین بھی شامل ہیں ۔ اس سے معاشرے میں خواتین کی بھی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔

تاجیرہ کاروبار کے لیے مسلم خواتین کے نیٹ ورکنگ پرایک دلچسپ کیس اسٹڈی ہے۔ اس سے جڑے ممبران مختلف مالی عہدوں کی نمائندگی کرتے ہیں- اچھی طرح سے قائم کاروباری افراد سے لے کر گھریلوخواتین تک جو چپاتی پیش کرنے کی خواہشمند ہیں،اس سے وابستہ ہیں۔ اس پلیٹ فارم پرماہرین اپنے بوٹیک، مصنوعات اور خدمات کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

رخشی نے کہا کہ ابتدائی دنوں میں تاجیرہ سے جڑی ممبران کے شوہروں کا ایک بڑا طبقہ خواتین کو کام کرتے ہوئے دیکھنے سے ہچکچا رہا تھا۔ تاہم جب خواتین نے اپنے شوہروں کے کاروبار میں شرکت کرنی شروع کی توپھران کے رویوں میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ گھریلو خواتین کاروباری خواتین میں  بدل گئیں۔

خواتین اپنے شوہروں کی طرف سے پوسٹ کر رہی تھیں۔ نوکریاں، خوراک اورکوویڈ-19 سے متاثرہ والدین کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے لوگوں کے مختلف قسم کے سوالات تھے اور لوگ ایک دوسرے کی مدد کےلیےاس پلیٹ فارم کا استعمال کر رہےہیں۔

تاجیرہ صرف ایک کاروباری برادری بننے کے بجائے ایک کمیونٹی بن گئی۔ابتدائی طور پر تاجیرہ کا کام سست تھا، ابتداً اس گروپ سے فیس بک پر صرف 100 ممبران جڑے تھے۔ پھر ایک مہینے میں 1500 اور چند ماہ بعد ان کی تعداد5000 سے تجاوز کرچکی تھی۔

اس وقت اس تنظیم سے جڑی خواتین کی تعداد تقریباً 20,000 سے زائد ہے،فی الوقت تنظیم سے وابستہ ہونے کے لیے روزانہ اوسطاً 800 سے زائد درخواستیں آرہی ہیں۔ ممبران کے درمیان تعلقات و وابستگی کو مضبوط بنانے کے لیے آف لائن اقدامات بھی کئے گئے ہیں۔ ممبران کے ساتھ کبھی کبھار بات چیت کی گئی۔اس کے علاوہ کچھ خواتین پہلی بار اسمارٹ فون چلا رہی تھیں، ان کی تربیت کی گئی۔ان میں سے کچھ کو فیس بک چلانے کا طریقہ بھی سکھایا گیا۔

اس کے علاوہ انہیں ٹیکنالوجی سے جڑی ہوئی باتوں کی بھی وضاحت ان کے سامنے کی گئی۔ فروخت کنندگان کی ایک بڑی تعداد کی اب تصدیق ہو چکی ہے اور انہیں شناختی نمبربھی دیے جا چکے ہیں۔ اگرچہ تاجیرہ کا حصہ بننے کے لیے کوئی چارج نہیں ہے، تاہم ویبینار میں شرکت کے لیے معمولی سی فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔

awaz

اس تنظیم سے جڑ کر خواتین ہر قسم کی کاروباری معلومات شیئر کر رہی ہیں۔ آپ اس پلیٹ فارم سے حلال اور قانون کے بارے میں اپنی معلومات شیئر کر سکتے ہیں۔ 

رخشی نے مزید کہاکہ گھریلو باورچی چھوٹے اجتماعات کے لیے بریانی کا دیگ (برتن) پکانے کے شوقین ہیں۔ کولکاتہ اور ہندوستان کے دیگر حصوں سے خواتین اس نیٹ ورک کا حصہ بن چکی ہیں۔

اگرچہ تنظیم کے پوسٹ کی زبان انگریزی ہے، تاہم غیرانگریزی بولنے والے اکثر ہندی الفاظ میں رومن حروف تہجی کا استعمال کرتے ہیں اور اپنی بات رکھتے ہیں۔

اگرچہ پلیٹ فارم کی سرگرمیوں کی قیادت خواتین کرتی ہیں، تاہم ایسے مرد بھی اس سے وابستہ ہیں جو کبھی کبھار اپنی پیشہ ورانہ تجاویز کے ذریعے پلیٹ فارم کو آگے بڑھانے میں مدد کرتے ہیں۔

رخشی کہتی ہیں کہ خواتین کے لیے اسے پرائیویٹ رکھنے کی واحد وجہ انہیں آسانی فراہم کرنا ہے۔ ان کی ضروریات کے لیے مخصوص سوالات ہیں۔ ایک مخلوط گروپ میں،ہر طرح کے سوالات اٹھانا ممکن نہیں ہے۔

تاجیرہ اب اگلے درجے پر جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پیشہ ور افراد کے پینل لگائے جا رہے ہیں - صحت، قانون، اور دیگر صنفی مخصوص مسائل پر جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کمیونٹی میں خواتین کے لیے گروپ ایک سرچ انجن کا کام انجام دے رہاہے۔

روزانہ کی بنیاد پر چند گھنٹے رضاکارانہ طور پر صرف کرنے کے بعد رخشی نےسوشل میڈیا پلیٹ پر ایک چھوٹی سی ٹیم بنا لی ہے، تاہم جس کا نیٹ ورک بہت مضبوط ہے۔

رخشی نے آخر میں کہا کہ ہم تاجیرہ کو ایک تنظیم کے طور پر رجسٹرڈ کرانا چاہتے ہیں۔ میں خود ایک کاروباری خاتون نہیں ہوں، تاہم میں ایک کاروباری خاندان کی نمائندگی کرتی ہوں۔ میں ایک ایتھلیٹ تو نہیں ہو سکتی لیکن دوسروں کو کوچ کرنے کے لیے اپنا حصہ پیش کر سکتی ہوں جو رکاوٹوں کو عبور کر کے فنشنگ لائن( finishing line) کے دوسری طرف پہنچ سکتے ہیں۔