مدرسہ خانم جان : غیر مسلم بچوں ،اساتذہ اور سنسکرت کے ساتھ بنا ایک مثال

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-11-2022
مدرسہ خانم جان : غیر مسلم بچوں ،اساتذہ اور سنسکرت کے ساتھ  بنا ایک مثال
مدرسہ خانم جان : غیر مسلم بچوں ،اساتذہ اور سنسکرت کے ساتھ بنا ایک مثال

 

 

اریبہ آشرف   ۔ وارانسی

ایک مدرسہ ایسا جہاں اردو ، عربی اور فارسی کے ساتھ نہ صرف سنسکرت کی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ وہ تمام سبجیکٹس اس کے تعلیمی نظام کا حصہ ہیں جو بچوں کو ان کی زندگی میں کامیابی کی راہ تک لیجانے کے لیے ضروری ہیں ۔ دراصل وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقہ بنارس یا وارانسی کے اردلی بازار میں واقع مدرسہ خانم جان کا ’ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں کمپیوٹر‘ کے نعرے پر یقین نے اسے ملک بھر میں ایک مثال بنا دیا ہے۔

ایک ایسا مدرسہ جہاں ساٹھ فیصد مسلمان اور چالیس فیصد غیر مسلم طلبا تعلیم حاصل کررہے ہیں ،جہاں دینی تعلیم کے ساتھ  دنیاوی تعلیم کا توازن بنایا گیا ہے۔ حب الوطنی کا درس دیا جاتا ہے،قومی پرچم سے قومی ترانے کی اہمیت بتائی جاتی ہے۔ مذہب نہیں سیکھاتا آپس میں بیررکھنا کیبنیاد پر تعلیم دی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بچے نہ صرف یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کا جشن مناتے آرہے ہیں،ایسے مواقع پر ترنگوں کے ساتھ جلوس کی شکل میں جشن مناتے نظر آتے ہیں ۔ ملک کی آواز بننا ہوتا ہے تو سڑکوں پر بھی آتے ہیں جس کی ایک مثال ’پلوامہ حملہ‘ ہے جس کے بعد مدرسہ کے بچوں نے وارانسی کے ایک مشہور چوک پر دہشت گردی اور  پاکستان کے خلاف ایک بڑے مظاہرے میں حصہ لیا تھا۔

کیا ہے مدرسہ کی خوبی

آپ کو بتا دیں کہ مدرسہ خانم جان کی بنیاد ۱۹۷۸ میں پڑی تھی جبکہ ۲۰۰۶ میں اسے سرکاری منظوری ملی تھی لیکن اس میں تمام تر سبجیکٹس کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ قیام کے ساتھ ہی جاری رہا ہے۔

 مدرسہ میں  ۱۴۰۰بچے زیر تعلیم ہیں جن میں ساٹھ فیصد مسلمان ہیں اور چالیس فیصد غیر مسلم ہیں ۔جہاں  دس سال قبل  سنسکرت کو نصاب کا حصہ بنایا تھا اور اس کے ساتھ این سی آر ٹی کی طرز پر تعلیم کو ترجیح دی ۔

یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی اس مدرسہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں بلکہ اساتذہ میں بھی کوئی مذہبی بندیش نہیں ہے۔

 

awaz

مثال بن گیا ہے مدرسہ خانم جان

مدرسہ خانم جان کے پرنسپل صلاح‌الدین رضا  نے ’آواز دی وائس ‘ کو بتایا کہ "دس سال پہلے ہی ہم لوگوں نےمدرسہ میں سنسکرت کو لازمی طور پر بچوں کے سلیبس میں شامل کر دیا تھا۔سنسکرت پڑھانے کے لئے الگ سے ٹیچر کو بلایا گیا ۔اس کے مثبت اثرات ملے کیونکہ بچوں نے بڑی خوش دلی کے ساتھ سنسکرت کو قبول کیا اور اب بڑی روانی کے ساتھ سنسکرت پڑھ اور لکھ رہے ہیں ۔

 انہوں نے کہا کہ ہمارے مدرسے میں 35 سے 40 فیصد بچے ہندو مذہب کے ہیں اور کئی غیر مسلم ٹیچرس بھی ہیں۔سب خوش ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں ۔استاد اور شاگرد والا رشتہ اس محبت کو مزید پروان چڑھا رہی ہے۔

 صلاح الدین  رضا کہتے ہیں کہ  سب سے بڑی بات یہ کہ ہمارے مدرسے میں کسی بھی مذہب کے بچوں پر کسی بھی مضمون کو لے کر کوئی بندش نہیں لگائی جاتی بلکہ ہر بچہ اپنے شوق سے عربی اردو کے ساتھ ہندی, سنسکرت اور باقی مضمون پڑھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کی بھی خواہش ہے کہ بچوں کے ایک ہاتھ میں اگر قرآن ہے تو دوسرے میں کمپیوٹر ہو۔ ہم اسی سوچ اور پیغام کو آؑگے بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ کیونکہ اس میں معاشرے اور ملک کی  ترقی ہے ۔بھلائی ہے ۔ قوم کے لیے بھی یہی راستہ روشن مستقبل کی ضمانت بن سکتا ہے۔

awaz

پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے خلاف مظاہرہ کرتے مدرسے کے بچے

ضرورت مندوں کی تعلیم کا سب سے بڑا سہارا

 اسکول کے ایک ٹیچر اور منتظم محمد طیب نے ’آواز دی وائس ’ کو بتایا کہ  اس مدرسہ نے بنارس میں ضرورت مندوں کی تعلیم کو آسان بنایا ہے کیونکہ مدرسہ میں جہاں تعلیم مفت ہے وہیں ڈریس اور کتابیں بھی سرکاری مدد سے مفت مہیا کی جاتی ہیں اور مڈ ڈے میل کا بھی انتظام ہے۔

 انہوں نے کہا کہ مدرسہ میں دس سے بارہ کلومیٹر دور سے بھی بچے آتے ہیں  ۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تعلیم گاہ دور دور تک ضرورت مندوں کا سہارا اور امید ہے۔

 انہوں نے بتایا کہ مدرسہ کا مقصد بچوں کی زندگی میں دین اور دنیا کا توازن بنانا ہے۔ انہیں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم مہیا کرانا ہے تاکہ بچے اپنی زندگی کی راہ اپنی پسند کے مطابق چن سکیں ۔

محمد طیب نے مزید بتایا کہ یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے جشن کی مدرسہ میں پرانی روایت رہی ہے ،اس بار امرت مہتسو  بھی دھوم دھام سے منایا گیا ۔

 قومی ترانہ ہو یا قومی دھن سب مدسرہ کے پروگرامز کا حصہ رہتے ہیں ۔ہم نے کبھی اس کو مسئلہ بنایا ہی نہیں ۔بلکہ بچوں کو اس کی اہمیت اور احترام کے تئیں بیدار کیا ۔یہی وجہ ہے کہ بچے دل و جان کے ساتھ ایسے پروگرام میں حصہ لیتے ہیں اور اپنے جوہر دکھاتے ہیں ۔

مدرسہ خانم جان بنارس کے علاقہ اردلی بازار میں واقع ہے، مدرسہ کے مینیجر دانش صاحب نے بتایا کہ "مدرسہ قیام پر ہی تمام سبجیکٹس نصاب یا سلیبس میں شامل کر دئے گئے تھے جبکہ  سنسکرت بھی دس سال پہلے اس کا حصہ بن گئی تھی۔اس وقت سے اب تک  بچوں کو سنسکرت کا درس شلوک کے معنی کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بچے سنسکرت زبردستی نہیں بلکہ شوق سے پڑھتے ہیں۔

awaz

یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے جشن

وارانسی کے اس مدرسہ نے اپنے قیام سے ہی دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم اور جدید نصاب کو ترجیح دی تھی۔

اس اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے کہ مدرسہ سے فارغ ہونے کے بعد بچے اپنے مستقبل کے تعلیمی سفر کو آسانی کے ساتھ جاری رکھ سکیں۔ مدرسہ  خانم جان نے اس حکمت کو اپنایا اور اب ایک مثال بنا ۔

بقول پرنسپل صلاح الدین ابھی تو سفر شروع ہوا ہے،روشن خیالی اور دور اندیشی کے ساتھ ہمیں ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے ،انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے انہیں اس مشن کے لیے ہمیشہ سراہا جاتا ہے ۔ خود انہیں اس بات کا اطمینان ہوتا ہے کہ بچے تعلیم کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی کی اہمیت سے بھی واقف ہورہے ہیں ۔