کوچی میں اب بھی زندہ ہیں یہودی۔ مسلم اتحاد کی یادیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-02-2021
پردیسی سینیگاگ،کوچی،کیرل
پردیسی سینیگاگ،کوچی،کیرل

 

غوث سیوانی نئی دہلی

یوں تو پردیسی سینیگاگ دوسری عبادت گاہوں کی طرح ہی ایک عبادت گاہ ہے مگر اس لیے خاص ہے کہ یہ بھارت میں یہودیوں کا سب سے قدیم عبادت خانہ ہے۔ اسے دنیاکی قدیم ترین یہودی عبادت گاہوں میں سےایک ماناجاتاہے، جوکوچی (کیرل) میں واقع ہے۔ اس کےقیام کو چارسوباون سال ہونے کو آئے ہیں۔

دوسال قبل اس کے قیام کا جشن منانے کے لئے دنیا بھر سے یہودی ائے تھے۔ یہ وہی یہودی تھے جو کسی زمانے میں کوچی میں رہتے تھے اور قیام اسرائیل کے بعد اسرائیل یا یوروپی ملکوں میں جابسے ہیں۔اسے پردیسی سینیگاگ کہاجاتا ہے جو کوچی سے نوکلومیٹر دور متن چیری کے مقام پرواقع ہے۔

بتایاجاتاہے کہ پردیسی سینیگاگ 1568 میں بنا تھابعد میں اس کی ساخت کو درست کروایا گیا۔ 1664 میں اس کی تعمیر نو ہوئی۔ کینٹن (چین) سے خوبصورت ٹائلیں لائی گئیں۔اٹلی سے جھاڑفانوس آئے۔ 1805 میں ٹراونکور کے مہاراجہ نے اس سینیگاگ کو سونے کا ایک تاج عطا کیا۔بعد کے دور میں انگریز، یہودیوں پر مہربان ہی رہے۔ لارڈ کرزن اپنے وائسرائے دور میں 19 نومبر، 1900 کو یہودیوں کا حال پوچھنے آئے اور تاریخی سینیگاگ کو بھی دیکھا۔

یہودی مرکز

مٹن چیری کوہندوستان میں یہودی مرکزکے طورپر جانا جاتا ہے جہاں آج بھی یہودیوں سے جڑی ہوئی کئی چیزیں موجود ہیں۔ 2019میں سب سے بزرگ یہودی خاتون کا یہاں انتقال ہوگیا تھا۔ سارہ کوہین نام کی یہ خاتون وفات کے وقت 96سال کی تھیں۔ ان کے واقف کاروں میں ایک طہ ابراہیم بھی ہیں جو پیشے سے درزی ہیں اور یہودیوں کی مخصوص ٹوپیاں سلتے رہے ہیں۔ ان ٹوپیوں کو ’کیپہ‘کہاجاتا ہے۔

پچاس سالہ طہ ابراہیم بتاتے ہیں کہ وہ بچپن میں سیاحوں کے لئے سوینیر اور پوسٹ کارڈس فروخت کیا کرتے تھے۔ ایک دن ان کے چچانے ان کا کا تعارف ایک یہودی جوڑے سے کرایا۔آنٹی سارہ اور انکل جیکب نے انھیں اجازت دی کہ وہ اپنے پوسٹ کارڈ ان کے گھر رکھ سکتے ہیں۔ یہیں سے تعلقات کی ابتدا ہوئی۔

طہ ابراہیم کے مطابق جیکب ایک قانون داں تھے جب کہ سارہ مختلف قسم کے کپڑے سلاکرتی تھیں۔ ایک دن انھیں کسی مددگار کی ضرورت ہوئی تو انھوں نے طہ ابراہیم سے مددلینی شروع کی۔ جیکب اور سارہ لاولدتھے اور جیکب کا بیس سال قبل ہی انتقال ہوگیاتھا۔ ان کے انتقال کے بعد سارہ کوابراہیم کی مدد کی زیادہ ضرورت پڑی اور جب 2019میں سارہ کا بھی انتقال ہوگیا توابراہیم ان کی دکان چلانے لگے۔

واضح ہوکہ سارہ کے تمام رشتہ دار اسرائیل یا دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرچکے تھے مگر انھوں نے اپنی آبائی جگہ کو چھوڑنے سے منع کردیا تھا۔جب ان کی عمرستانوے سال ہونے میں تین دن باقی تھے تب ہی ان کا انتقال ہواتھا اور یہ خبرمیڈیا میں بھی آئی تھی۔

یہودی۔مسلم بھائی بھائی

یہ بات بھی انتہائی دلچسپ ہے کہ جہاں قیام اسرائیل کے بعدسے دنیا بھرمیں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تعلقات متاثر ہوئے ہیں، وہیں کوچی میں مسلمان اور یہودی باہم محبت اوریگانگت کے ساتھ رہے۔ یہودیوں کے سب سے اچھے دوست، یہاں مسلمان ہی تھے۔اس کی ایک مثال طہ ابراہیم ہی ہیں جن کا ذریعہ معاش یہودیوں کی مخصوص رنگین ٹوپیوں کی سلائی رہا۔اب حال ہی میں ابراہیم نے سارہ کے گھر اور دکان کو ایک میوزیم میں تبدیل کردیا ہے جس میں یہودیوں کی دیگر یادگاروں کے ساتھ توریت کے صفحات بھی ہیں۔ابراہیم کا کہنا ہے کہ وہ اپنے قصبے میں یہودیوں کی یادگاروں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔

گھٹتی یہودی آبادی

ٹائمس آف اسرائیل اور کچھ دوسری تحریروں کے مطابق ۱۹۵۰کی دہائی میں کوچی میں تقریباً تین ہزار یہودی تھے مگر ابراہیم کے مطابق اب ٹائون میں مشکل سے پچیس یہودی باقی بچے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق بیشتر یہودی اسرائیل، امریکا،کناڈا، آسٹریلیا وغیرہ ممالک ہجرت کرگئے۔

بھارت کی یادیں

میراایلیا ان یہودیوں میں سے ہیں جو کوچین سے ہجرت کرکے اسرائیل آئے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ کوچین میں یہودیوں کی ثقافت بہت شاندار تھی۔ ہجرت سے قبل یہاں کے یہودی بے حد مذہبی تھے اور بیشتر یہودی کاروباری تھے۔ ان کے تعلقات دوسرے ثقافتی طبقات سے تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ہندوستانی معاشرہ بے حدصبروتحمل والا تھا اور لوگ ایک دوسرے کا احترام کیا کرتے تھے۔

کوچی کی یہودی تاریخ

کوچی میں یہودی کب سے رہ رہے ہیں؟ اس سلسلے میں مختلف روایتیں ملتی ہیں۔اصل میں عربوں اورہندوستانیوں کا رشتہ بہت پرانا ہے.تاریخ کی کتابیں بتاتی ہیں کہ ان رشتوں کا اتہاس ہزاروں سال پر پھیلا ہوا ہے.ہزاروں سال قبل سے اہل عرب بھارت کے ساحلی علاقوں کی طرف آتے رہے ہیں.اس طرح دو تہذیبوں ہی نہیں کئی مذاہب کا بھی ملن ہوا.-عرب کی سرزمین سے کم از کم تین مذاہب ہندوستان آئے جن میں شامل ہیں، یہودیت،عیسایت اور اسلام. اتفاق یہ بھی ہے کہ تینوں مذاہب سب سے پہلےجنوبی ہند کے ساحلی علاقوں میں پہنچے. بھارت میں آنے والے غیر ملکیوں میں سے بیشتر ابتدا میں تاجر کے طور پر یہاں آئے تھے اور ایسے ہی یہودیوں کی آمد بھی ہوئی۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جو یہودی یہاں آئے تھے ان کی نسل آج بھی موجود ہے۔. وہ عیسائیوں اور مسلمانوں سے سینکڑوں سال قبل کیرل میں آئے ۔ روایتوں کے مطابق 973 قبل مسیح کے آس پاس یہودیوں نے کیرالہ کے مالابارساحل پر قدم رکھا تھا۔ اندازہ ہے کہ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا زمانہ تھا۔حضرت سلیمان کا تاجر بیڑا مصالحے اور خزانے کے لئے یہاں آیاتھا۔

ایک مہمان نوازہندو راجہ نے یہودی لیڈر جوزف ربن کو جاگیر فراہم کی اور ان کا ایک طبقہ یہیں بس گیا۔اس کے بعد یہودی کشمیر اور شمال مشرقی ریاست میں بھی آباد ہوئے تھے۔ حالانکہ عیسائی روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی کشمیر آئے تھے اور اس سے یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ یہاں پہلے سے کچھ یہودی رہے ہونگے جس کے سبب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہاں آمد ہوئی ہو۔

کیرل میں بعد کے دور میں بھی یہودیوں کی آمد ہوتی رہی اور یہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔یہ بھی روایت ہے کہ ہیکل سلیمانی کی تباہی کے بعد یہاں یہودیوں کی آمد ہوئی تھی۔ شاید یہ یہودیوں کا دوسرا قافلہ تھا۔ ایک روایت ہے کہ پانچویں صدی میں جب یہودیوں کوفرانس سے نکالا گیا تو وہ یہاں آئے اور بس گئے۔

یہاں کے راجہ کی ان کی طرف خاص نظر رہی۔ یہاں تک کہ راجہ کی فوج میں بھی اہم عہدوں پر فائز رہے۔یہودیوں کی تحریروں میں اس علاقے کو شرگلی کا نام دیا گیا ہے۔تاریخی روایت یہ بھی ہے کہ 1661 میں یہاں ڈچ آئے اور ان کی آمد سے یہودیوں کوراحت ملی۔ ڈچوں کی انہوں نے جم کر حمایت کی اور ڈچوں نے بھی ان کی سرپرستی کی۔ ویسے بھی اگلے قریب 134 سالوں تک یہاں ڈچوں کی طوطی بولی۔

ممبئی میں یہودی

سمندر کے کنارے ہونے کی وجہ سے ممبئی میں جتنے غیر ملکی فرقے آکر رہے اتنے شاید پورے ہندوستان میں کہیں نہیں آئے ہوں گے۔پارسی، پرتگالی، جرمن لوگوں کے ساتھ ساتھ ممبئی میں اسرائیل سے آیا یہودی فرقہ بھی رہتا ہےلیکن زندگی بھر اسرائیل میں آخری سانس لینے کا خواب دیکھنے والے ممبئی کے یہودی کمیونٹی کے بہت سے لوگ کبھی بھی واپس اپنے وطن نہیں لوٹ پاتے اور یہیں آخری سانس لیتے ہیں اور یہودی مذہب کے مطابق جب انہیں دفن کیا جاتا ہے تو ان کی قبر پر روایتی عبرانی زبان میں پیغام لکھا جاتا ہے۔

jews

یاسین جو یہودیوں کی قبروں پرکتبہ لکھتے ہیں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ عبرانی میں پیغام لکھنے کا کام اتر پردیش کے جون پور کا ایک شخص کرتا ہے۔یہودیوں کے آخری سفر میں ان کی قبروں پر زندگی کاآخری پیغام لکھنے والے یاسین محمد دہائیوں سے یہودیوں کی قبروں پر عبرانی میں عبارت لکھ رہے ہیں۔یہ کام کرتے ہوئے انھیں چالیس سال سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ممبئی کے ورلی علاقے میں موجود یہودی قبرستان میں کام کرنے والے یاسین بتاتے ہیں،کہ مجھے آج تک نہیں لگا کہ ہمارے مذہبی اختلافات ہیں۔

ان لوگوں نے مجھے بہت پیار دیا اور اپنی زبان بھی سکھائی۔ ممبئی کے یہودی کمیونٹی کے لوگوں کاکہنا ہے کہ بھارت میں ان کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے۔ پہلے ان کی تعداد کچھ زیادہ تھی لیکن اب ملک بھر میں بہت کم یہودی ہی بچے ہیں۔ ان میں سے کچھ میں اسرائیل لوٹنے کی خواہش تو ہے لیکن یہاں بھی وہ ایک سکون بھری زندگی گذار رہے ہیں۔یہودی ثقافت کے استاد شارون میر کا کہنا ہے کہ ہم یہاں خوش ہیں اور بہتر زندگی جی رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آخری سانس اسرائیل میں لیں، کیونکہ یہ ہمارے مذہب میں لکھا ہے لیکن ہر انسان تو وہاں نہیں جا سکتا۔