جاوید احمد ٹاک: حوصلہ کا دوسرا نام

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 12-11-2021
جاوید احمد ٹاک: معذور بنے معذوروں کے مسیحا
جاوید احمد ٹاک: معذور بنے معذوروں کے مسیحا

 

 

رضوان شفیع وانی، سری نگر 

کچھ کرنے کا جذبہ ہو تو بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی چھوٹی لگتی ہیں، اس کی زندہ مثال وادی کشمیر کے رہنے والے جسمانی طور سے معذور جاوید احمد ٹاک ہیں

۔ جاوید احمد ٹاک کا تعلق وادی کشمیر کے اننت ناگ ضلع سے ہے اور انہوں نے وہیل چیئر کی مدد سے سماجی خدمات انجام دے کرانسانیت کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ ان کی ہمت اور حوصلے کے لیے انہیں نہ صرف ریاستی سطح پرمختلف ایواڈز سے نوازا گیا ہے، بلکہ حکومت ہند نے 8 نومبر کو پدم شری ایوارڈ سے سرفراز کیا۔

جاوید احمد ٹاک کو 1997 میں نامعلوم بندوق برداروں نے گولی کا نشانہ بناتے ہوئے ہمیشہ کے لیے معذور بنا دیا تھا، تاہم اس کے بعد بھی جاوید نے ہمت نہیں ہاری اور سماجی خدمت کرنے میں مشغول رہے۔ 23 سال کی عمر تک وہ عام لڑکوں کی طرح ہی تھے۔

جوائنٹ اور خوشحال فیملی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا، لیکن 21 اور 22 مارچ 1997 کی درمیانی شب کو ایک ایسا المناک واقعہ پیش آیا جس نے ان کی پوری زندگی بدل کر رکھ دی۔

جاوید احمد ٹاک نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ اُس رات خالہ کے گھر گیا تھا۔ سب کچھ ٹھیک تھا، گھر پر سب خوش تھے۔ رات گئے بندوق بردار گھر میں داخل ہوئے اور ان کے چچازاد بھائی کو اغوا کرنے لگے تو میں نے انہیں(کزن) بچانے کی کوشش کی تھی تو بندوق برداروں نے مجھ پر گولیاں برسائی۔ دوسرے دن اسپتال کے بستر پر میری آنکھیں کھلی۔ کچھ دنوں کے بعد میں گھر آیا لیکن ہمیشہ کے لیے معذور بن کر گولیوں نے میری ریڑھ کی ہڈی اور گردہ زخمی کر دیا تھا۔

بندوق برداروں کی اس فائرنگ میں جاوید کے کزن کی موقع پر ہی موت ہو گئی تھی، جب کہ جاوید احمد ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے۔ جب یہ حادثہ پیش آیا تو جاوید اس وقت 23 سال کے تھےاوراننت ناگ کے کھنہ بل ڈگری کالج سے گریجویشن کر رہے تھے۔

اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ 'میں تین سال سے زائد مدت تک بستر پر لیٹا رہا۔ معذوری کی وجہ سے 24 گھنٹے بستر پر پڑے رہ کر اسی سوچ میں کھو جاتا تھا کہ اب میں کسی کام کے لائق نہیں رہا۔ رات کو نیند بھی نہیں آتی تھی، کروٹیں بدل بدل کر رات کا وقت گزارتا۔ میں نے ساری امیدیں چھوڑ دی تھی۔ مجھے یہ غم ستا رہا تھا کہ میں تا حیات اپنے گھر والوں کے لیے بوجھ بن گیا ہوں۔ لیکن ایک دن یہ احساس ہوا کہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے کسی بھی کمزوری کو رکاوٹ نہیں بننے دینا ہے۔'

awazurdu

جاوید ٹاک کئی برسوں تک کسمپُرسی کی زندگی گزارتے رہے۔ بلند حوصلہ اور باہمت جاوید کو تب جینے کی نئی راہ ملی جب اُنہوں نے گھر پر بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ 'ایک دن میں بستر پر لیٹا اپنی زندگی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ پھر میں نے گھر کے باہر کچھ بچوں کا شور سنا۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ وہ بچوں کو لے کر آئیں۔ میں نے انہیں پڑھانا شروع کر دیا، چند ہی دنوں میں میرا کمرہ ایک چھوٹا سا اسکول بن گیا۔اس نے میرے اندر زندہ رہنے کا جوش اور اعتماد پیدا کیا۔ تناؤ بھی کم ہو گیا۔ پھر میں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔

جاوید نے کشمیر یونیورسٹی سے سوشل ورک میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایم ایڈ اور کمپیوٹر کورس بھی کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے 'زیبہ آپا' کے نام سے جسمانی طور پر کمزور بچوں کے لیے اسکول قائم کیا۔اسکول میں سینکڑوں بچے زیر تعلیم ہیں، جنہیں پڑھانے کے لیے کئی اساتذہ موجود ہیں۔

ٹاک کہتے ہیں کہ 'معذورت کے بعد ان میں جسمانی طور معذور افراد کی خدمت کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ جس کے بعد میں نے دور دراز علاقوں کے اسکولوں میں جاکر معذور بچوں کی حالت کا جائزہ لیا۔ معذور بچوں کی حالت کو دیکھ کر میں نے ایک نئی پہل شروع کی۔ میں نے جسمانی طورپر معذور بچوں کے لیے اسکول قائم کیا۔ اس وقت اسکول میں جنوبی کشمیر کے چار اضلاع سے تقریباً 120 بچے زیر تعلیم ہیں۔

سڑکوں پر بھیک مانگنے والے اور معذوریت کی وجہ سے استحصال بننے والے بچوں کو لاکر اسکول میں داخل کیا اور انہیں مفت تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی سہولیت فراہم کی جاتی ہے اور اس وقت وہ خوشی سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

ابھی اسکول میں آٹھویں جماعت تک پڑھایا جا رہا ہے میرا ارادہ ہے کہ جسمانی طور پر معذور بچوں کے لیے ایک کالج قائم کروں۔ ہم روزگار کمانے کے لیے ووکیشنل کورسز بھی فراہم کرتے ہیں۔

اسکول کا نام 'زیبہ آپا' رکھنے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں جاوید نے کہا کہ علاقے میں لوگ میری دادی کو 'زیبہ آپا' کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لیے موجود رہتی تھی، اسی لیے میں نے اپنے اسکول کا نام بھی زیبہ آپا رکھا۔ کشمیری میں آپا بہن کو کہتے ہیں۔

جاوید احمد ٹاک خود معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن انہوں نے دوسرے معذور افراد کی معذوری کو ان کی مجبوری نہیں بننے دینے کی ٹھان لی ہے۔ کمزور اور لاچار لوگوں کے مدد گار جاوید نے کچھ ایسا مقام حاصل کیا ہے کہ آج ان کے ذکر کے بغیر کشمیر ادھورا سا لگتا ہے۔

 

وہ آج معذروں کے لیے تحریک و ترغیب کا ذریعہ بنے ہوے ہیں۔ معذور افراد کے تئیں بہترین خدمات کے عوض جاوید احمد ٹاک کو قومی و ریاستی ایواڈ سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ریڈیو پروگرام 'من کی بات' میں ان (جاوید) کی جم کر تعریف کی تھی۔

جاوید ٹاک نے سنہ 2003 میں ہیومینٹی ویلفیئر آرگنائزیشن کے نام سے ایک این جی او شروع کیا۔ یہ ادارہ آج سینکڑوں معذور بچوں کا آسرا بنا ہوا ہے۔ادارے کے ذریعے جسمانی طور معذور افراد کی مدد کے ساتھ ساتھ انہیں تربیت دے کر مختلف ہنر کے ذریعہ اپنا روزگار خود کمانے کے اہل بناتے ہیں، تاکہ وہ سماج میں عزت سے اپنی زندگی بسر کر سکیں۔

اب جاوید اپنے آپ کو معذور نہیں سمجھتے وہ ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ دوسروں کو بھی اپنے آپ سے پیار کرنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا درس دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں 'میرا ارادہ ہے کہ جموں و کشمیر میں ایک ایسا ادارہ قائم کروں جہاں ان معذور افراد کو کالج سطح تک تعلیم فراہم کی جا سکے اور وہ یہ ثابت کر لیں کہ وہ قابل ہیں اور ان میں خود کو ثابت کرنے کی صلاحیت ہے۔'

awazurdu

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی انسان صد فی صد مکمل نہیں ہوتا ہے۔ ہرایک کےاندر کمی ہوتی ہے۔ میں نے معذوری نزدیک سے دیکھی ہے، معذوری ایک ایسی چیز ہے کہ اگر انسان خود حوصلہ نہ کرے، تو ایسا انسان زندہ لاش بن کر رہ جائے گا۔ میری تمام معذور افراد یہ اپیل ہے کہ وہ معذوری کو کبھی بھی رکاوٹ مت بنائیں۔ نیک نیتی اورایمانداری کواپنا اصول بنائیں، خود اعتمادی اور لگن سے ہر مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔

معذور افراد کے والدین سے بھی میری اپیل ہے کہ وہ اپنے بچوں کی عزت کریں اور ان پر بھروسہ کریں اور انہیں مکمل تعاون کریں۔ فیملی جتنا اپنے بچوں کو سپورٹ کرے گی اتنا ہی وہ اپنی زندگی میں کامیاب ہوں گے۔

جاوید مختلف پروگرامز اور سیمناروں کے ذریعہ معذور افراد کے حقوق کی بازیابی اور ان کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ معذور افراد کے تئیں سماج کا رویہ بدلا جائے۔ جاوید کے بقول معذور افراد کو بااختیار بنانے اور انہیں تعاون کی ضرورت ہے، رحم کی نہیں۔ معذوروں میں اعتماد پیدا کرنا، انہیں یہ سمجھانا کہ وہ بھی آسمان کو چھو سکتے ہیں۔