میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر،لوگ ساتھ آتے گئےاور کارواں بنتا گیا۔اظہر مخصوصی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
بھوک سے جنگ ۔ اظہر کے سنگ
بھوک سے جنگ ۔ اظہر کے سنگ

 


میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

دس سال قبل جب بھوک کے خلاف جنگ کا بیڑا اٹھایا تھا تو یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس کام سے مجھے کوئی پہچان ملے گی،عزت افزائی ہوگی اورمیری پہل    ایک مہم کی شکل اختیارکرلے گی۔اپنی بھوک کی شدت کے تجربہ نے مجھے اس مشن سے جوڑا تھا اور اللہ کا شکر ہے کہ میں اس راہ پر کامیابی کے ساتھ گامزن ہوں ۔۔۔۔۔

یہ الفاظ ہیں سید اظہر مخصوصی کے۔یہ نام اب ہندوستان کیلئے انجان نہیں رہا ہے۔یوں تو ابتک حیدرآباد کا نام آتا تھا تو عام طور پر ہر کسی کے ذہن میں محمد اظہر الدین اور ثانیہ مرزا کا نا م آجاتا تھا۔مگر اب حیدرآباد کو ایک اور نام سے جانا جاتاہے،جو سید اظہر مخصوصی کا ہے۔جنہوں نے کھیل کے میدان میں نہیں بلکہ سماجی خدمات کے میدان میں جھنڈے گاڑ دئیے ہیں۔وہ دنیا کی سب سے خطرناک آگ کو بجھانے میں مصروف ہیں جسے ہم ’پیٹ کی آگ‘ کہتے ہیں۔اظہر مخصوصی نےچھیڑ رکھی ہے بھوک کے خلاف جنگ۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کو کھانا کھلانے کے اس مشن کو دیا ہے۔

’Hunger has no religion‘

یعنی کہ بھوک کا کوئی مذہب نہیں۔

 دس سال قبل حیدرآباد میں دبیر پورہ فلائی اوور کے نیچے غریبوں اور ضرورت مندوں کیلئے کھانے کا اہتمام کرنا شروع کیا تھا جس کی دوری کڑی گاندھی اسپتال کے سامنے شروع کی،اب’بھوک کا کوئی مذہب نہیں‘ کی مہم صرف حیدرآبادتک محدود نہیں۔بنگلور،بھونیشور،رائچور، گواہاٹی،کٹک کے ساتھ اور بھی شہروں میں پھیل چکی ہےاورمزید شہر قطارمیں ہیں۔ہرروزپندرہ سو افراد کو کھانا کھلانے کا کام بلا ناغہ جاری ہے بلکہ اب اس مشن کے10 اپریل کو”دس سال‘ پورے ہوگئے ہیں۔

 ان کی انسانی خدمات کے سبب ہر کوئی انہیں جانتا ہے اور پہچانتا ہے۔ بالی ووڈ کے شہنشاہ امیتابھ بچن نے ایک خاص پروگرام”آج کی رات ہے زندگی‘ میں اظہر مخصوصی کو بلایا تھا،انہیں دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اور سراہا تھا۔ یہی نہیں بالی ووڈ کے ’بھائی جان‘ سلمان خان نے تو اپنی این جی او’بی انگ ہیومن ‘کی تشہیر کیلئے حقیقی زندگی کے جن چھ ہیرو چنے تھے ان میں ایک اظہر مخصوصی بھی تھے۔

اظہر مخصوصی سےآواز دی وائس‘ اردو کے ’مدیر’منصور الدین فریدی  نے ان کی زندگی اور اس مشن کے بارے میں بات کی۔ پیش خدمت ہے انٹر ویو۔

سوال:اس مشن کا خال کیسے آیا۔کیا ہے آپ کی مہم کی کے پیچھے کی کہانی اور آب بیتی؟

 اظہر مخصوصی : بے شک ہم سب کو بھوک کا احساس ہوتا ہے،ہم جانتے نہیں کہ بھوک کیا ہوتی ہے۔مگر میں جس مقام سے گزر کر آیا ہوں۔وہ بہت تکلیف دہ رہا ہے۔میں ایسے حالات سے گڑرا ہوں جس کا تصور کرنا مشکل ہے۔ چار سال کی عمرمیں والد کا سایہ سر سے گزر گیا تھا۔والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں۔جس کے سبب حالات بہت خراب رہے تھے۔کھانا اور بھوک دو اہم مسئلے تھے ہم سب کیلئے۔ غریبی کے ساتھ بھوک دوہری مار تھی۔میری والدہ کیلئے چار بچوں کو سنبھالنا مشکل ہوتا تھا۔اس لئے بھوک سے رشتہ پرانا رہا ہے۔

دراصل آج سے دس سال سے قبل میں نے ایک خاتون کو جس کا نام لکشمی تھاسڑک پر پڑا ہوا پایا تھا۔ میں نے ریلوے اسٹیشن کے قریب لوگوں سے دریافت کیا کہ انہیں کیا ہوا ہے تو کسی نے بتایاکہ کئی دن سے بھوکی ہے۔ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے،مجھے اپنا بچپن یاد آگیا۔میں ہوٹل سے کھانا لے کر آیا اور انہیں اپنے ہاتھوں سے کھلایا۔بس اس کے بد سے میں نے بھوکوں کو کھانا کھلانے کا عہد کرلیا۔اپنی والدہ سے اس بات کا ذکر کیا۔ انہیں بتایا کہ میں بھوکوں کو کھانا کھلانا چاہتا ہوں تو انہوں نے حوصلہ مافزائی کی۔ محدود وسائل ہونے کے باوجود میں نے یہ کام شروع کیا۔اللہ نے ساتھ دیا،آج ایک پہچان بن گئی۔

 سوال:جب آپ نے یہ کام شروع کیا تو آپ خود جدوجہد کے دور میں تھے۔ایسی صورت میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

اظہر مخصوصی:میں آج بھی مڈل کلاس کا انسان ہی ہوں۔ پلاسٹر آف پیرس کی دوکان چلاتا ہوں۔بس اس کام سے شہرت اورمقبولیت حاصل کی۔ورنہ میں جہاں تھا وہیں ہوں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے دس یا پندرہ لوگوں کا کھانا پکانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔شروع میں پریشانی آئی۔ کبھی کباڑ بیچ کر کھانا پکانا پڑا۔ مقامی دکانداروں سے ادھارپراناج لیا۔ کبھی کسی نے مدد کی۔کبھی غیب سے مدد ملی۔ جس دن میں نے کباڑ بیچا اس کے دوسرے دن مجھے ایک بڑا ٹھیکہ ملا۔ مگر یہ اللہ کی مدد تھی جو میں اس آزمائش میں کامیاب ہوا۔میں آج پر یقین رکھتا ہوں۔کل کے بارے میں نہیں سوچتا ہوں۔پہلے تین سال بہت جدوجہد کرنی پڑی۔اب دیکھئے اللہ کی شان ہے کہ 10اپریل کو میرے اس مشن کے دس سال پورے ہو  گئے۔اس میں ہر مذہب کے ماننے والے کی دعائیں شامل ہیں۔

awazurdu

حیدرآباد کے دبیر پورہ فلائی اوور کے نیچے۔۔۔ضرورت مندوں کو کھانا کئلاتے ہوئے اظہر مخصوصی

 سوال:’بھوک کا کوئی مذہب نہیں‘یہ نعرہ کیوں دیا

 اظہر مخصوصی:آج کا دورعجیب وغریب ہوگیا ہے۔انسان،انسان سے دورہوتا جارہا ہے،مذہب کے نام پر،فرقہ کے نام پر،ذات پات کے نام پر۔اسی لئے میں نے ’بھوک کا کوئی مذہب نہیں‘ کا نعرہ دیا ہے۔ہمارا مقصد صرف انسانوں کی خدمت کرنا ہے۔میرا کام اللہ کے بندوں کیلئے ہے۔ انسانیت کیلئے ہے۔جس میں کوئی کسی سے کوئی فرق نہیں کر سکتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ ہمیں بھوک کے خلاف جنگ لڑنی ہے۔ کسی کو بھوکا نہیں سونے دینا ہے۔ پیٹ کی آگ کا تجربہ ہے۔

سوال:آج کے دور میں جب سوشل میڈیا پر نظریاتی اور سیاسی ٹکراؤ کا ماحول ہے۔آپ نے سوشل میڈیا کا بھر پور استعمال کیا،بہترین استعمال کیا۔کیسے آیا اس کا خیال آپ کے دل میں؟

 اظہر مخصوصی:جب میں نے یہ کام شروع کیا تھا تو مجھے سوشل میڈیا کا استعمال کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ مجھے اس کا احساس ہوا کہ سوشل میڈیا کو طاقت بنا سکتا ہوں۔لوگ اپنے اپنے مفادات کیلئے استعمال کررہے ہیں تو میں ایک نیک کام کیلئے کیوں نہیں اس پلیٹ فارم کو استعمال کروں۔اس کے بعد میں نے سوشل میڈیا پر پہلا قدم رکھا اوراس کا زبردست اثر ہوا۔حالانکہ کچھ لوگوں نے یہ کہا تھا کہ آپ دکھاوا کررہے ہو۔مگر میں بتا دوں کہ کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جب پردے کے پیچھے کئے جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے دنیا کو بتانا ضروری ہوتا ہے۔ایسے کاموں سے دوسروں کو ترغیب حاصل ہوتی ہے تو ایک مہم بنتی ہے۔جس سے ضرورت مندوں کو فائدہ ہوتا ہے۔

 آپ دیکھئے میں پرانے حیدرآباد میں رہتا ہوں لیکن میرا دائرہ صرف ایک شہر تک محدود نہیں رہا ہے۔ اب کشمیرسےکنیا کماری تک اس مشن کاجال بچھ گیا ہے۔میرے ساتھ ملک کے کونے کونے سے لوگ جڑے ہیں۔ان میں ہر مذہب اور طبقہ کے لوگ ہیں۔جو اب اس تحریک کا حصہ ہیں۔جب میں نے یہ کام شروع کیا تھا تو اس وقت صرف ایک یا دو مقام پر کھانا کھلایا جاتا تھا۔ایک درگاہ اورایک مندرمیں یہ کام ہوتا تھا۔مگراب شہر میں جگہ جگہ کھانا کھلایا جاتا ہے۔ یہی ہے میری کامیابی۔جو لوگ مجھ پر دکھاوے کا الزام عائد کرتے تھے انہیں میں نے بتایا کہ یہ ہے اس سوشل میڈیا کا نتیجہ جو آج میری مہم کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔

awazurdu

بھوک جس کا کوئی مذہب نہیں

سوال:سب سے مشکل کام بھروسہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔آپ نے سوشل میڈیا ہر بھروسہ کیسے حاصل کیا؟

 اظہر مخصوصی:شروع میں چار سال تک تو میں نے جو کرنا تھا خود کیا۔ ایک بڑی جدوجہد تھی۔ میں نے سوشل میڈیا پر اپنا وہی چہرہ پیش کیا جو ذاتی زندگی میں ہوں۔جو مجھ سے سوشل میڈیا پر جڑا ہوا ہے اگر مجھ سے ملاقات کرتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ جو میری شخصیت میں کوئی فرق نہیں۔ جو حقیقی زندگی میں ہے وہی سوشل میڈیا پر ہے۔ لوگ کام دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔اسی لئے میرے کام کی سراہنا ہوئی اور مجھ پر لوگوں نے بھروسہ کیا۔آج کے لوگ تو چہرے پڑھ لیتے ہیں کہ کون ایماندار ہے اور کون نہیں۔

 سوال:آپ جب یہ کام بخوبی انجام دے رہے تھے پھر ’این جی او‘ بنانے کا خیال کیوں آیا؟

 اظہر مخصوصی:میں نے جب اپنا یہ مشن شروع کیا تھا تو یہ نہیں سوچا تھا کہ اللہ مجھ سے اتنا بڑا کام لے گا۔تین یا چار سال کے بعد میں نے سوچا کہ جب تک میری ذات کا مسئلہ تھا تواس میں کسی کی کوئی مداخلت نہیں تھی، میرے اور اللہ کے بیچ کا معاملہ تھا،میں جو کماتا تھا اس میں سے اپنی مرضی سے خرچ کیا کرتا تھا۔

جب لوگوں کی حمایت اورمدد حاصل ہونے لگی تو کہیں نہ کہیں ذمہ داری میں اضافہ ہوا اورمیں نے سوچا کہ اس کام کو کسی بینر تلے کیا جائے۔کام کو قانونی طور پر کیا جائے، اس کومنظم کیا جائے۔ جواب دہی کے ساتھ کیا جائے۔اس لئےایک ٹرسٹ بنایا اوراس کے بینر تلے اس مہم کو مزید منظم کیا۔میں یہی چاہتا تھا کہ یہ مہم سب کی ہو۔ ملک کے ہر نوجوان کی ہو۔ اس کو صرف میرے نام سے نہیں جوڑا جائے۔میں تو بس ایک چوکیدار ہوں۔اللہ نے مجھے منتخب کیا ہے جو میں انجام دے رہا ہوں،سب کو ساتھ لے کر کاکرنا میرا مقصد تھا اور اس میں کامیاب ہوا۔

سوال:یعنی کہ آپ ہر کام میں شفافیت رکھنا چاہتے ہیں؟

اظہر مخصوصی:جی بالکل۔جب تک آپ میں شفافیت نہیں ہوگی آپ کامیاب نہیں ہوں گے۔جب لوگ آپ پربھروسہ کرتے ہیں توآپ کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔میری ہر چیز کھلی کتاب ہے۔میری فاونڈیشن کی ویب سائٹ پر ہر تفصیل ہوتی ہے۔سب کچھ بالکل شفاف ہوتا ہے۔جب تک ہم صاف نہیں ہونگے کامیابی نہیں ملے گی۔   (جاری ہے)

اور پڑھیں : سب سے اہم اور ضروری ہے ’انسانیت‘ کی ڈگری ۔اظہر مخصوصی

بھوک کے خلاف ’جنگ'کے10 سال: اظہرمخصوصی کی مثالی کہانی