کورونا نے کیسے بدل دیا شادیوں کا نظریہ؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
کوروناکال کی ایک شادی
کوروناکال کی ایک شادی

 

غوث سیوانی۔نئی دہلی

 بائیس سالہ آیت کا نکاح راجدھانی دہلی کے جامعہ نگر علاقے کی ایک مسجد میں چند افراد کی موجودگی میں ہوا۔یہ سادہ تقریب عین سنت نبوی کے مطابق تھی۔ نہ سینکڑوں کا ہجوم جمع ہوا، نہ بارات آئی اور نہ باراتیوں کے لئے دعوت کا انتظام کیا گیا۔ اتنی سادگی کے ساتھ شادی محض اس لئے ممکن ہوسکی کیونکہ کورونا وباکے سبب ہجوم جمع کرنا ممکن نہیں تھا۔ریلوے کی محدود خدمات کے سبب رشتہ داروں کا شادی میں آنا مشکل تھا اور اگر آگئے تو بھیڑ جمع کرنے کی حکومت کی جانب سے ممانعت تھی۔

بھارت میں شادی کا مطلب ہوتا ہے سینکڑوں افراد کی بھیڑ، دعوت طعام، بینڈباجا اوربارات۔ ظاہر ہے کہ دولتمند افراد کے لئے شادی کے اخراجات پورے کرنا کوئی مسئلہ نہیں مگر غریب اور مڈل کلاس کے لوگوں کے لئے شادی زحمت بن کر رہ گئی تھی مگر کورونا کے دور میں ایک بار پھر یہ رحمت بن گئی ہے۔ کاش یہ سادگی تب بھی برقرار رہے جب کورونا ختم ہوجائے،سوشل ڈسٹنسنگ کی قید نہ رہے اور ماسک لگانے کی ضرورت باقی نہ رہے۔

شاہین باغ (نئی دہلی)میں رہنے والے پیشہ سے انجینئرریحان کی بارات ممبئی گئی۔ ممبئی اور دہلی دونوں ہی شہرانتہائی کورونا متاثر شہروں میں شامل ہیں۔ لڑکے اور لڑکی والے چاہتے تھے کہ دھوم دھام سے شادی کی تقریب کریں مگر یہ ممکن نہیں تھا لہٰذا بارات میں دولہے کے ساتھ صرف اس کی بہنیں گئیں۔ ممبئی میں سادگی کے ساتھ نکاح ہوا جس میں چند بے حد قریبی رشتہ دار ہی شامل تھے۔

کورونامہاماری کے دور میں صرف مسلمان سادگی سے شادی نہیں کر رہے ہیں بلکہ دوسرے طبقات بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سورت (گجرات)کے بارڈولی علاقے میں گوئل پریوار میں شادی تھی۔ خاندان نے پورے دھوم دھام سے شادی کا پروگرام بنایا تھا مگر کورونا کے سبب جو پابندیاں عائد کی گئی تھیں،ان میں یہ ممکن نہیں تھا لہٰذا خاندان نے ایک بڑا فیصلہ لیا اور سادگی کے ساتھ مندر میں دولہا دلہن کے سات پھیرے کرادیئے۔

تین ہزار سے زیادہ رشتہ داروں اور دوستوں نے اس شادی میں آن لائن شرکت کی۔ سب سے اچھی بات اس شادی کی یہ تھی کہ شادی کے جو اخراجات بچے، انھیں کورونا سے جنگ میں خرچ کے لئے پرائم منسٹر کیئرس فنڈ میں دیدیا گیا۔

کیوں بدل رہی ہیں تقریبات؟

شادیوں کے انداز کو بدلنا اس لئے بھی لازم تھا کہ جہاں ایک طرف پولس کی جانب سے سختی برتی جارہی تھی وہیں دوسری طرف اس سلسلے میں بعض دل دہلادنے والی خبریں بھی آرہی تھیں جیسے کہ پٹنہ سے خبر آئی تھی کہ پالی گنج علاقے میں شادی کے دودن بعدایک دولہے کی کورونا سے موت ہوگئی۔ اس کے بعد باراتیوں کی جانچ کی گئی تو ان میں سوسے زیادہ افرادکورونا متاثر پائے گئے۔ اس قسم کی کئی خبریں ملک اور بیرون سے آئی ہیں۔

دعوت ناموں کاانداز بھی بدلا

کورونا بحران کی شادیوں میں ایک اور چیز بدل گئی ہے اور وہ ہیں دعوت ناموں کے مضامین۔پہلے دعوت ناموں میں صرف شادی کے پروگرام کی جانکاری دی جاتی تھی مگر اب دعوت ناموں پر کورونا کے سلسلے میں احتیاطی تدابیر بھی تحریر کی جارہی ہیں اور دعوت ناموں کے ذریعے رشتہ داروں کو حساس بنایاجارہاہے۔اس کے علاوہ لوگ کارڈ کی تقسیم کے دوران رشتہ داروں کو زبانی طور پر آگاہ بھی کر رہے ہیں کہ وہ حکومت کی ہدایات پر ضرور عمل کریں۔

ایک شادی کارڈ پر لکھا ہوا تھا’دو گزدوری، ماسک ہے ضروری“ جب کہ دوسرے دعوت نامے پر تحریر تھا”گھر سے باہر نکلتے ہوئے ماسک ضرور پہن لیں“۔

کئی شادی تقریبات میں تو ماسک بھی تقسیم ہور ہے ہیں۔کارڈ پرنٹ کرنے والے شمیم کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں جولوگ کارڈ پرنٹ کرانے آرہے ہیں، وہ کورونا انفیکشن کی روک تھام کے بارے میں کوئی پیغام چھاپنے کو کہہ رہے ہیں۔

کچھ لوگوں کو پریشانی بھی ہے سادگی کے ساتھ شادیوں کی تقریبات منعقد ہونے کے سبب جہاں ایک طرف لڑکی والے راحت کی سانس لے رہے ہیں اور جہیز کے خلاف تحریک چلانے والے خوش ہیں،وہیں دوسری طرف شادیوں کے کاروبار سے وابستہ افراد پر بے روزگاری کی مار پڑی ہے۔ یہ لوگ لاک ڈاؤن کے بعد سے ہی پریشان ہیں۔میرج ہال،میرج گارڈن،ڈیکوریٹر، کیٹررز، بینڈ پارٹی، پرنٹنگ پریس وغیرہ سے وابستہ لوگ پریشان ہیں۔ بازاروں میں شادی کے سلسلے میں جو بڑے پیمانے پر خریداری ہوتی تھی وہ بھی نہیں ہورہی ہے لہٰذا دکاندار بھی صورتحال سے مایوس ہیں۔