حنیف بھائی کا گاوں:ہندوستان کو کورونا سے جنگ کا طریقہ بتادیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-04-2021
حنیف بھائی
حنیف بھائی

 

 

آشا کھوسہ / نئی دہلی

چندروزقبل ، مریم بین کوویڈ 19 کے سبب ایک اسپتال میں چل بسیں۔ وہ گاؤں زادکا بلاک مالیا ہٹیناسے تھیں اور ان تین سو افراد میں سے ایک تھیں جو گجرات کے سوراشٹر خطے میں کورونا کے سبب ہلاک ہوئے ہیں۔ مریم بین کو سپرد خاک کردیا گیا اور شام کو زادکا کے سرپنچ حنیف بھائی لکھا نے اپنے گاؤں میں مقامی گورنمنٹ اسکول کی عمارت میں دس بستروں والے ایک عارضی اسپتال کا افتتاح کیا۔

اب اور نہیں

حنیف بھائی نے کہا کہ "اب سے ہمارے گاؤں میں مزید اموات نہیں ہوں گی ،"اس طرح انھوں نے گجرات کے اس دیہی علاقے میں کسی کونہ مرنے دینے کا عہد کیا تھا۔ کلاس روم جو اب کوویڈ 19 تنہائی کا وارڈ ہے "میں نے تمام گائوں والوں کی ایک میٹنگ بلائی - اہر گھرکے سربراہ اور ساتھ ہی کچھ خواتین جو آئی تھیں،ان سے کہا کہ ہم بے بس نہیں بیٹھ سکتے اور نہ ہی لوگوں کو آکسیجن ، دوائوں کی کمی سے مرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔

انہوں نے آوازدی وائس کو فون پر بتایا۔ یہ مسلم اکثریتی گائوں راجکوٹ شہر سے 165 کلومیٹر دورہے۔راجکوٹ میں نجی نرسنگ ہوم ہے اور قریب 10 کلومیٹر دور صحت عامہ کی سہولت ہے۔ زادکا میں تقریبا 2،000 افراد رہتے ہیں ،ان میں بیشتر نقل و حمل اور کھیتی باڑی کے کاروبار میں ہیں۔

کلاس روم میں قائم کوڈ سنٹر

کہانی کامثبت پہلو

۔ 43 سالہ حنیف بھائی نے بیڈ ، بستر کے کپڑے اور دیگر ضروری سامان خریدنے پر رقم خرچ کی۔ دوسروں نے بھی اس رقم میں حصہ لیا۔ یہاں کوویڈ کے تین معاملات کا پتہ چلنے کے چند ہی دنوں میں ، لوگوں نے اپنا عارضی کوویڈ آئسولوشن وارڈ تیار کرلیا۔ انھوں نے بتایا "ہمارے پاس 15 آکسیجن سلنڈر ہیں اور وہ روزانہ وین سے بھیج کرفوری طور پر دوبارہ بھروائے جاتے ہیں۔"

ذاتی کاربن گئی وین

حنیف بھائی نے اپنی ذاتی ایس یو وی کو ایمبولینس میں تبدیل کردیا ہے۔ انہوں نے کہا ، "میرے پاس چار گاڑیاں ہیں اور میں نے ایک اسپتال کے لئے وقف کردیا ہے. گائوں والوں نے حنیف بھائی کی زیرصدارت اجلاس میں فیصلہ کیا کہ جب تک کہ وبائی مرض کا خطرہ ہے ، کوئی بھی گاؤں نہیں چھوڑے گا اور نہ ہی بیرونی افراد کا یہاں خیرمقدم کیا جائے گا۔

سنٹرکے افتتاح کے لئے آتے گائوں والے

موت سے بہترماسک

حنیف بھائی کہتے ہیں ، "برابر ، کرنا پڑے گا یہ سب ،" (ٹھیک ہے ، ہمارے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہے)۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کاشکار ہونے سے اچھا ہے کہ ہرایک کو معاشرتی فاصلہ برقرار رکھنے کے پروٹوکول پر عمل پیرا ہوناہوگا ، چہرے کا ماسک پہننا اور بار بار ہاتھ دھونا۔ یہ زیادہ آسان تھا۔ "میں نے تمام فیملی کے سربراہوں کو صرف یہ یاد دلایا کہ اگربیماری ہوگئی تو کیا ہوگا؟ تصور کرنا چاہئے کہ ان کے پیاروں کاکیا ہوگا؟

ان کے بچوں ، بیویوں کا کیا بنے گا؟" وہ کہتے ہیں کہ انہیں احساس ہوا کہ لوگوں کو جان بچانے والے پروٹوکول پر عمل کرنے کے لئے مضبوط طریقے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا ، "جذباتی چیزیں ہم میں سے بیشتر کے ساتھ اچھا کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ، خواتین بہترین رابطے کار ہوتی ہیں اور ان حالات میں ان کی زیادہ چلتی ہے۔ کچھ خواتین جو گاؤں کے لوگوں سے ملنے آئی تھیں انہوں نے خاموشی سے یہ بات پھیلادیا اور آج ہم گائوں کے آس پاس ہی تمام مرد اور خواتین کو ماسک پہنے ہوئے دیکھتے ہیں۔

آغاخان ایجنسی معاون

وہ کہتے ہیں ، "دیہاتیوں کو صحت کے دیگر مسائل ہونے کی صورت میں اب تکلیف نہیں اٹھانی پڑتی ہے۔ حنیف بھائی نے اپنے پروجیکٹ میں معاونت کرنے کے لئے آغا خان ایجنسی سے وابستہ بصیر بھائی لکھا کو بھی سراہا۔

سنٹرکاایک رضاکار

ڈاکٹروں کا انتظام

حنیف بھائی کہتے ہیں ، انہوں نے قریبی دیہاتوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں سے رابطہ کیا ہے اور انہوں نے اس سنٹر میں ہر دن ایک مخصوص مدت کے لئے ڈیوٹی دینے پر اتفاق کیا ہے۔ میں نے اپنے دوستوں کے حلقے سے ڈاکٹروں کی خدمات کا انتظام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ، ڈسپنسری تمام لوگوں کے لئے کھلی ہے اور اسی طرح آکسیجن سلنڈر بھی ہیں۔

انہوں نے کہا ، "صحت کی سہولت صرف دو گاؤں کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے ہے۔ حنیف بھائی تین بچوں کے باپ ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی راجکوٹ کے ایک بڑے اسپتال میں نرس کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ "وہ کوڈ وارڈ میں تعینات ہے۔ وہ کہتے ہیں مجھے اس پر فخر ہے ،