زری پورٹریٹ: پی ایم مودی کو جہانگیرملا کا تحفہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-02-2021
جہانگیر ملا ، پی ایم مودی کے ساتھ
جہانگیر ملا ، پی ایم مودی کے ساتھ

 

 

بیشالی آدک / نئی دہلی

کولکتہ کے وکٹوریہ میموریل ہال میں 23جنوری کو جب پراکرما دیوس کی تقریب میں کچھ لوگوں کے ’جے شری رام’ کے نعرے لگائے۔پھراس سے ناراض ہوکر بنگال کی وزیراعلی ممتا بنرجی نے واک آوٹ کیا تو ایک افراتری کا عالم تھا۔مگراس ہنگامہ آرائی کے دوران ایک چھوٹاسےواقعہ اس شورمیں دب گیا تھا۔ جس کی جانب کسی کی توجہ نہیں گئی تھی۔کیونکہ میڈیا کی توجہ اس تنازعہ کی جانب تھی جو سرخیوں کا حصہ بننے والا تھا۔ اس ہنگامہ آرائی اور ممتا بنرجی کے ڈرامہ کے بعد 28 سالہ ایک کاریگر جہانگیر ملا کا ایک بڑا خواب پورا ہوا ۔جب انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کا ’سنہری زری ’سے بنایا ’پورٹریٹ’خود انہیں پیش کیا۔دراصل نیتا جی سبھاش چندر بوس کے ایک سو پچیسویں یوم پیدائش کے موقع پر نریندر مودی کی تقریر ہوئی تھی۔جس کے بعد کچھ شور شرابہ ہوا ،پھراسٹیج کےعقبی حصہ میں جہانگیرملا کی ملاقات نریندر مودی سے کرائی گئی۔جہانگیر ملا کا تعلق ہوڑہ کے پنچلا سے ہے جو کہ ’زری’ کا مرکز ہے۔۔

زری کا خوبصورت پورٹریٹ

جہانگیر ملا نے دو فٹ لمبے اور ایک فٹ چوڑے پورٹریٹ کو وزیر اعظم کو پیش کیا جو کہ سونے کی زری سے بنا ہوا تھا۔جس میں نریندر مودی کو بھگوا کرتا اور سبز واسکٹ میں دکھایا گیا تھا۔اس پورٹریٹ میں جہانگیر ملا نے مودی کےعزئم کی عکاسی کی ہے۔ اس پورٹریٹ کو بنانے میں جہانگیر ملا کو سات ماہ کا وقت لگا۔ایک غریب زری کاریگر نے انتہائی باریکی کے ساتھ بنایا تھا۔ اس تصویر کے نیچے جہانگیر ملا نے لکھا تھا’سری نریندر مودی’۔یاد رہے کہ بنگالیوں میں ’سری ’ کا استعمال ’بگھوان’کے نام کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔جو ان کےلئے احترام کا جذبہ ظاہر کرتا ہے۔

میں دیکھتا رہ گیا

جہانگیر ملا نے مودی کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں کہا کہ ‘‘۔ میں تو صرف انہیں دیکھ رہا تھا جبکہ مودی جی نے خود مجھ سے کہا کہ ‘‘ کتنا وقت لگا اس کو تیار کرنے میں۔ یہ کام تو سورت میں بھی ہوتا ہے نا’’۔ مگر میں انہیں اپنے سامنے دیکھ کراتنا نروس تھا کہ ’جی ہاں’ بھی نہیں کہہ سکا۔ اس کے بعد مودی جی نے مجھ سے کہا کہ ‘‘ بہت شاندار ہے۔آپ خوش رہیں’’۔ بدحالی کی کہانی جہانگیر ملا کا کہنا ہے کہ وہ جس پیشہ سےجڑا ہے اس میں حالات بہت خراب ہیں اور کاریگر بہت غربت کا شکار ہیں۔ میری ملاقات کا مقصد یہ بھی تھا کہ ان کی توجہ اس فن کودرپیش مسائل کی جانب بھی متوجہ کراسکوں۔ ‘زری ’ کا کام ہندوستان کا ایک قدیم فن ہے۔جس میں سونے اور چاندی تانبے اور پولیسٹر وائر کا بھی استعمال ہوتا ہے۔جس سے کپڑوں کو بہت پر کشش بنایا جاتا ہے۔زری کا فن سترہویں صدی میں ایران سے آیا تھا۔ اس وقت ہندوستان میں زری کے کاریگروں کی تعداد چھ کروڑ سے زیادہ ہے جو لکھنو ،حیدرآباد اور بنگال کے ساتھ مختلف ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔صرف بنگال میں ہی ان کی تعداد سولہ لاکھ سے زیادہ ہے۔جبکہ ہوڑہ میں ان کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہیں جو پنچلا ،آمتا اور دمجور میں آباد ہیں جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

کوئی بازار نہیں

جہانگیر ملا نے ’آواز دی وائس’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم بے بس ہیں کیونکہ ہمارے لئے کوئی اوپن مارکٹ نہیں ہے۔ اس بازار پر جاستاد اور مہاجن کا قبضہ رہتا ہے۔جو کہ اس کاروبار کے ’مڈل مین’ ہوتے ہیں۔یہ مڈل مین بڑے آرڈر لاتے نہیں اور کم قیمتوں پر زری کا کام کراتے ہیں۔انہیں یہ آرڈر بڑا بازار اور مٹیا برج سے ملتے نہیں۔جو کہ بڑی ہول سیل مارکٹ ہیں۔ یہ مڈل مین اپنے آرڈر لے کر آتے ہیں اور زری کے کاریگروں سے کام کراتے ہیں لیکن ان کے منافع کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے۔کسی ایک ئئیزائن کےلئے ہم کو چودہ یا پندرہ سو روئپے ادا کئے جاتے ہیں جس کو مکمل کرنے میں ایک ہفتہ لگ جاتا ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ خود جہانگیرملا اپنے گھر کےلئے یومیہ سو سے ڈیڑھ سو روپئے تک خْرچ کرتے ہیں۔

مشینوں نے کردیا بے حال

جہانگیر مئلا کا کہنا ہے کہ زری کے کاریگروں کےلئے ایک مسئلہ مشینوں کا استعمال ہے۔ان مشینوں نے اس باریکی کام کواتنا تیزاورسستا کردیا ہے کہ اس فن کو جاننے والوں کےلئے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے۔جو کا م مشین پجانچ منٹ میں کر دیتی ہے اس کو ایک کاریگر کئی گھنٹے میں پورا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بازارمیں زری کے کام سستا ہوگیا اوراس کے کاریگروں کی ڈیمانڈ کم ہوگئی ہے۔سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ زری کا سامان بہت مہنگا ہوگیا ہے۔

ایک انسانی المیہ

آپ جان کر حیران ہونگے کہ ایک دن میں بارہ سے چودہ گھنٹے کام کرنے کےبعد جب آپ کی بینائی کمزور ہوجاتی ہے اور آپ کو چشمہ لگ جاتا ہے تو آپ کو مل رہہی اجرت میں کمی آجاتی ہے۔ یہ کہنا ہے ہوڑہ ضلع زری یونین کے صدر حسن ملک کا۔جن کا کہنا ہے کہ استاد اگر یہ دیکھتا ہے کہ آپ کو چشمہ لگا ہے تو وہ مزدوری کم کر دیتا ہے۔زری کاریگروں کی شکایت ہے کہ انہوں نے ہر سطح پردروازہ کھٹکھٹایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔کسی نے اس مسئلے کو توجہ نہیں دی۔

دم توڑ دے گا فن

 اب نئی نسل میں کوئی بھی اس پیشہ کو اپنانے کےلئے تیار نہیں ہے۔علاقہ کے نوجوان سائیکل مرمت کا کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔کوئی تعمیری کام میں لگ گیا ہے۔ کوئی جوٹ مل میں ملازمت کررہا ہے۔مگرکوئی بھی زری کا کام سیکھنے کو تیار نہیں ہے۔اگر یہی حالات رہے تو اگلے کچھ سال کے دوران یہ فن دم توڑ دے گا۔’’

حسن ملک ان حالات سے بہت مایوس ہیں۔ ایس کے یونس ،جو کہ آل انڈیا زری شلپی کلیان سمیتی کے ریاستی سکریٹری ہیں ۔ اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’’۔پچھلے دس سال سے یہی صورتحال ہے۔در اصل دو ہزار بارہ میں اس وقت کے ٹکسٹائل وزیر مانس بھونیا نے وعدہ کیا تھا کہ زری کے کاریگروں کےلئے شناختی کارڈ جاری کئے جائیں گے اور انہیں پی ایف کے ساتھ پینشبن کی سہولت دی جائے گی۰ جس کے تحت ایک لاکھ ستر ہزار زری کاریگروں کو فائدہ ہوا تھا۔کارڈ جاری ہوئے تھے لیکن نقد کی شکل میں کچھ نہیں ملا جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یونس کا کہنا ہے کہ ہمیں حکومت سے دو روپئے کلو چاول اورتین روپئے کلو گہیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ہم کاریگر ہیں ہمیں بازار فراہم کرائے جائیں۔ جن سے ہم اپنے ہنر کو مناسب قیمت میں بیچ سکیں۔اپنی زندگی عزت کے ساتھ گزار سکیں۔ لاک ڈاون نے اور مار دیا۔

امید پر دنیا قائم ہے

زری کاریگروں کی مدد کرنے کےلئے سرگرم این جی او آتم نربھر بھارت کے مطابق کورونا کے بعد لاک ڈائون نے ان کی زندگی اور بھی مشکل کردی ہے۔اس طبقہ کو فوری طور پرمدد کی ضرورت ہے۔ این جی او کی انو شری مکھرجی کا کہنا ہے کہ ‘‘۔ہم اپنی سطح پر ان کی مدد کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں۔اناج مہیا کرایا گیا ہے۔ جبکہ انہیں مشینیں اور دیگر سامان مہیا کرانے کی کوشش کررہے ہیں ۔انہیں زری کا کام دیگر آئٹم پر بھی کرنے کی تربیت دی جارہی ہے۔بات صرف ساڑیوں تک محدود رہنے کی نہیں ہے بلکہ انہیں پردوں اور دیگر شو پیش پر بھی کلام کرنے کا عادی بنایا جارہا ہے۔ دراصل زری کے کاریگروں کو ایک نئی منزل دینے کےلئے ایک خاص پروگرام پر کام کیا جارہا ہے جس کو ’منگلا ہات سے والمارٹ تک کا نام دیا گیا ہے۔۔انہوں نے کہا کہ ابھی ہمیں سرکار کی جانب سے مزید مدد کی امید اور انتظارہے۔اگر انہیں آتم نربھر بھارت کے تحت زری کاریگروں کو اگر مدد ملتی ہے تو بہت فائدہ ہوگا۔ جہانگیر ملا جیسے لوگوں کو حوصلہ ملے گا۔ ساتھ ہی زری کے روایتی کام کو زندہ رکھنے میں مدد ملے گی۔