عرب سرزمین پر جنم لینے والی عشق کی لازوال داستانیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
عرب سرزمین پر جنم لینے والی عشق کی لازوال داستانیں
عرب سرزمین پر جنم لینے والی عشق کی لازوال داستانیں

 

 

عرب سرزمین پر محبت کی کئی لازوال داستانوں نے جنم لیا ہے۔ ان میں لیلیٰ اور قیس، اجا و سلمی، عنترہ اور عبلہ، جمیل ابن معمر اور بثینہ بنت حیان معروف ہیں۔ عرب تاریخ میں قیس نام کے دو مجنوؤں کا ذکر آتا ہے۔ ان میں ایک قیس بن ملوح جو لیلیٰ کی محبت میں گرفتار ہوا اور دوسرا قیس بن ذلیح ہے جس کا قصہ لبنیٰ نامی ایک خاتون سے منسوب ہے۔ سعودی عرب کے کئی پہاڑ اور وادیاں محبت کی لازوال داستانوں کی گواہ ہیں۔

عرب شعرا کے علاوہ اردو کے ادیبوں، شاعروں نے بھی سعودی عرب میں جنم لینے والی محبت کی داستانوں کو اپنے انداز سے بیان کیا ہے۔ عرب سرزمین کی محبت کی ادھوری داستانیں دنیا کے سامنے آئیں تو مغرب کے رومیو جولیٹ کی طرح شہرت پائیں۔

عنتر اور عبلہ

عنتر کا اصل نام عنترہ بن شداد العبسی تھا جو جنگجو قبیلے عبس سے تعلق رکھتے تھے۔ عنتر عربوں کے معروف شاعر تھے۔ اسلام سے پہلے شعرا نے جو لازوال قصیدے لکھے انہیں کعبے کی دیواروں سے لٹکایا جاتا تھا۔ ان قصائد کو معلقات کہا جاتا تھا۔

عنتر ان عرب شعرا میں شامل ہیں جن کا قصیدہ معلقات میں شامل کیا گیا۔ عنتر کی چچازاد عبلہ قبیلے کی خوبصورت ترین خاتون تھیں جبکہ عنتر شکل و صورت میں اپنے قبیلے میں سب سے کم تر تھے۔

عنتر اپنی چچا زاد عبلہ کو دل دے بیٹھے تھے یہ یکطرفہ محبت نہیں تھی بلکہ عبلہ بھی عنتر سے لگاؤ رکھتی تھیں۔ عبلہ کے اہل خانہ نے رشتہ دینے سے انکار کیا اور پھر رشتہ دینے کے لیے 100 نعمانی اونٹیاں حق مہر میں دینے کی شرط رکھ دی گئی۔

اس زمانے میں نعمانی اونٹیاں مہنگی ترین اونٹیاں سمجھتی جاتی تھیں۔ یہ شرط صرف عنتر کو نیچا دکھانے کے لیے رکھی گئی تھی۔

awaz

 

عربوں کے ہاں ایک روایت مشہور تھی کہ اگر کوئی شخص کسی خاتون پر اشعار کہے تو پھر اس سے کبھی شادی نہیں کر سکتا تھا۔ ایک طرف 100 اونٹیوں کی شرط اور دوسری طرف یہ روایت۔ عنتر اور عبلہ کی محبت ادھوری رہی۔ عنتر جدائی کے فراق میں شاعری کرتے رہے۔

ان کے قصیدے عربی ادب کا ورثہ سمجھے جاتے ہیں۔ عنتر اور عبلہ زمانے کی نگاہ سے چھپ کر ایک دوسرے سے جس چٹان کے پاس ملا کرتے تھے۔ بعد میں اس چٹان کا نام عنتر پڑ گیا۔ اب عنتر کے اشعار اور وہ چٹان باقی ہے اور محبت کی اس داستان کی گواہی دیتے ہیں۔

جمیل بن معمر اور بثینہ

اسی طرح سعودی عرب کا صحرا العلا بھی محبت کی ایک لازوال محبت کا گواہ ہے۔ ساتویں صدی کے آخر میں مدینہ کے قریب واقع وادی بغیض کے ایک قبیلے کے بدوی شاعر جمیل بن معمر کو العلا کی ایک لڑکی سے عشق ہو گیا تھا۔ جمیل بن معمر نے شاعری اور قصیدے کہنے شروع کر دیے۔

انہوں نے اپنے اشعار میں العلا کے بنی ربیعہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی بثینہ بنت حیان کی خوبصورتی بیان کی لیکن محبت کی یہ کہانی بھی ادھوری رہی۔ دونوں العلا کے نخلستان میں جس مقام پر ملتے تھےاب وہاں صرف اس محبت کی یادیں ہیں۔ کہا جاتا ہے بثینہ بنت حیان کی شادی کسی اور نوجوان سے ہونے کے بعد جمیل بن معمر نے علاقہ چھوڑ دیا اور مصر میں جا بسے۔

قیس اور لیلیٰ

محبت کی لازوال داستانوں میں سے ایک کا مسکن سعودی شہر لیلیٰ ہے۔ یہ سعودی دارالحکومت ریاض سے 300 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ اس شہر کا چپہ چپہ لازوال محبت کی کہانی کا عینی شاہد ہے۔ اجا، سلمیٰ اور التوباد پہاڑ محبت کی اس داستان کے گواہ ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ جب لیلیٰ کے اہل خانہ نے اس کی شادی کر دی تو قیس شاعر بن گیا۔ اس نے اشعار کہنا شروع کر دیے۔ التوباد پہاڑ کی شان میں بھی قصیدہ کہا۔ یہ اشعار عربی ادب کا شاہکار مانے جاتے ہیں۔

awaz

 

قیس ایک شاعر تھا اس کے اشعار جگ بیتی نہیں بلکہ آپ بیتی ہیں۔

ایک شعر کا مفہوم ہے کہ

لیلیٰ کے دیار سے گزرتا ہوں

میں اس کی ہر دیوار کو چومتا ہوں

دیار کی محبت سے میرے دل کو کوئی دلچسپی نہیں

میری محبت تو اس دیار کے ساکنوں سے ہے

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیس سرخ سفید، خوبصورت اور خوش گفتار نوجوان تھا۔ اس نے لیلیٰ کے حسن کو شعر کی صورت میں بیان کیا ہے۔ وہ ایک چاند ہے جو ایک سرد رات میں آسمان کے وسط میں چمک رہا ہے وہ نہایت حسین ہے اس کی آنکھیں اس قدر سیاہ ہیں کہ انہیں سرمے کی ضرورت نہیں اردو سمیت تمام مشرقی زبانوں کی شاعری میں لیلیٰ مجنوں کی داستان بیان کی گئی ہے۔

امیر خسرو نے اس واقعے کو 1299 عیسوی میں کتابی شکل دی۔ جامی نے 1484 عیسوی میں لیلیٰ مجنوں پر کتاب لکھی۔ شیرازی جیسے بڑے فارسی شاعر نے اس قصے کو بیان کیا ہے۔ لیلیٰ مجنوں کے قصے کا رومانوی ادب میں نمایاں مقام ہے تاہم مجنوں کا نام کوئی قیس بن ملوح بتاتا ہے تو کوئی اسے قیس بن معاذ کہتا ہے۔

کوئی اسے مہدی کے نام سے پکارتا ہے تو کوئی اقرع اور کوئی البحتری بتاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ قیس اور لیلیٰ دونوں کی پرورش ایک ساتھ ہوئی تھی۔ یہ 645-688 کا زمانہ تھا۔ دونوں بچپن میں ایک پہاڑ (توباد) کے دامن میں بکریاں چراتے تھے۔ لیلیٰ، قیس کی چچا زاد بہن تھی۔

وہ اس کی محبت میں غزل کے اشعار کہتا تھا۔ جب لیلیٰ سے مجنوں کی محبت کا چرچا عام ہوا تو اس کے باپ نے عرب روایات کے مطابق شادی سے انکار کر دیا اور لیلیٰ کی شادی طائف کے قبیلہ ثقیف کے ایک نوجوان ورد بن محمد العقیلی سے کر دی۔

اس خبر سے قیس کا ذہنی توازن بگڑ گیا اور وہ مارا مارا پھرنے لگا۔ نجد، شام اور حجاز میں دیوانوں کی طرح گھومتا اور لیلیٰ کی یاد میں اشعار کہتا اور اسے صدا دیتا۔ لیلیٰ اور قیس کی محبت نے التوباد پہاڑ کو بھی لازوال بنا دیا۔

عرب شعرا نے اسے پیار کرنے والوں کے پہاڑ کا نام دیا۔ التوباد پہاڑ الافلاج کے دارالحکومت لیلیٰ شہر کے قریب وادی الغیل میں واقع ہے۔ یہاں ایک غار ہے جو غار قیس کے نام سے مشہور ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ یہاں پہنچتے ہیں اور اپنے نام غار کی دیواروں پر کندہ کر کے ایک طرح سے خود کو محبت کی لازوال محبت کی داستان سے جوڑتے ہیں۔

اجا و سلمیٰ

یہ 2016 کی بات ہے جب سعودی عرب کے کہانی نگار اور صحافی ڈاکٹر محسن الشیخ آل حسان نے اپنے ٹی وی سیریل ’پیار کی تین داستانوں‘ میں اجا و سلمیٰ کے پیار کی داستان کچھ اس طرح سموئی کہ جس نے بھی ان کا ٹی وی سیریل دیکھا حیرت زدہ رہ گیا۔

سعودی صوبے حائل میں طئے اور شمر نامی کوہستان معروف ہے۔ یہاں اجا اور سلمی جڑواں پہاڑ واقع ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اجا کا تعلق عمالقہ کے ایک قبیلے سے تھا۔ وہ سلمیٰ کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا۔

سلمیٰ بھی اس پر فدا تھی تھی لیکن قبائلی رسم و رواج دونوں کی شادی میں آڑے آئے۔ اس وقت رواج یہ تھا کہ اگر کسی لڑکی کا نام کسی سے منسوب ہوجاتا تو بدنامی کے ڈر سے اس کی شادی اس سے نہیں کی جاتی تھی۔

ایک دن سلمیٰ اجا کے ہمراہ چلی گئی۔ سلمیٰ کی ملازمہ العوجا بھی ہمراہ تھی۔ کہتے ہیں کہ قبیلے کے لوگوں نے دونوں کا تعاقب کیا اور انہیں اجا و سلمیٰ پہاڑوں کے درمیان پکڑ لیا اور دونوں کو ہلاک کر دیا۔ اجا کو مغربی پہاڑ اور سلمیٰ کو مشرقی پہاڑ پر لٹکایا گیا۔

اس تناظر میں ان دونوں پہاڑوں کے نام جبل اجا اور جبل سلمیٰ پڑ گئے۔ شعرا نے اجا و سلمیٰ کے بارے میں تاریخی قصائد لکھے سیاحوں نے بھی اجا اور سلمیٰ پہاڑوں کے تذکرے اپنے سفر ناموں میں قلم بند کیے ہیں۔

ان میں فن لینڈ کے سیاح جارج اوگیسٹ ویلن کا نام قابل ذکر ہے جو 1845 عیسوی میں یہاں آئے تھے اور بعد میں مسلمان ہو گئے تھے۔ ان کا اسلامی نام شیخ عبدالولی تھا۔

فرانسیسی سیاح چارل ہوبر نے بھی جبل اجا کا تذکرہ کیا ہے۔ حاتم طائی کے مسکن حائل میں اجا و سلمیٰ کے پیار کی داستان آج بھی زبان زد عام ہے۔ دور دور سے آنے والے سیاح خیمے نصب کر کے وہاں آتش فشانوں کے دیو ہیکل دہانے دیکھ کر اجا و سلمیٰ کے پیار کی ادھوری کہانی سنتے اور سناتے ہیں۔