امریکہ میں کرکٹ : مقبولیت کی جانب رواں دواں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 23-09-2022
امریکہ میں کرکٹ : مقبولیت کی جانب رواں دواں
امریکہ میں کرکٹ : مقبولیت کی جانب رواں دواں

 

 

اگر آپ اس موسم بہار میں ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس کے مضافاتی علاقے گارلینڈ سے گزرے ہوں اور باس پارک نامی جگہ گئے ہوں تو ہو سکتا ہے آپ کو ایک غیرمتوقع چیز نظر آئے۔

عام دنوں میں یہاں بچے فٹبال کھیل رہے ہوتے ہیں اور لوگ اپنے کتوں کو ٹہلا رہے ہوتے ہیں۔ مگر ایک بار پھر دیکھیے اور ممکن ہے آپ درجنوں لوگوں کو ایک ایسے کھیل کے لیے اکٹھا ہوتے ہوئے دیکھیں جسے امریکی بہت کم دیکھتے ہیں: اور یہ ہے کرکٹ۔

کمارن ’’کینی‘‘ تھیروناووکراسو کہتے ہیں ’’کرکٹ (ٹیکساس میں)مقبول ہے اور اب یہ امریکہ میں بہت مقبول ہونے جا رہا ہے۔‘‘ ٹیکساس میں آکر بسنے والے کینی، کرکٹ کے سابقہ پیشہ ور کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے اس کھیل کو ٹیکساس میں مقبولیت دلانے کے لیے ۲۰۱۳ء میں ’ٹیکساس کرکٹ اکیڈمی‘قائم کی۔ وہ مانتے ہیں کہ میں اس کھیل کو اتنا پسند کرتا ہوں کہ میں اس کے علاوہ کوئی اور کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘

بہت سے امریکیوں کے لیے کرکٹ اتنا ہی پراسرار کھیل ہے جتنا کہ دنیا کے دوسرے ملکوں کے لوگوں کے لیے امریکی فٹبال ہے۔

مورخین کا خیال ہے کہ کرکٹ کی ابتدا ۴۰۰برس قبل انگلستان میں ہوئی جس کے بعد یہ کھیل اس کی نوآبادیات بالخصوص جنوبی ایشیا اور ویسٹ انڈیز میں میں پھیلا اور مقبول ہوا۔

بیس بال سے ملتا جلتا یہ کھیل کسی کھلے میدان میں کھیلا جاتا ہے۔ اس میں گیند کو بلے سے مارنے کے بعد کھلاڑی دو مقامات کے درمیان دوڑتے ہیں۔ یہاں پر آکر بیس بال کے ساتھ اس کی مماثلتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ بہرحال کرکٹ دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں لوگوں کا پسندیدہ کھیل ہے۔ اور اب یہ پسند امریکہ میں بھی مقبولیت پا رہی ہے۔

awazurdu

اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوتا ہے تو یہ عین ممکن ہے کہ امریکہ میں اگلے چند برسوں میں میجر کرکٹ لیگ وجود میں آ جائے جس میں ڈیلاس، سان فرانسسکو اور لاس اینجیلس سمیت شہروں کی اپنی اپنی ٹیمیں ہوا کریں گیں۔ پروگرام یہ ہے کہ دوسرے ملکوں سے پیشہ ور کھلاڑیوں کو اِس امید پر امریکہ لایا جائے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ امریکی بھی مسابقتی سطح پر کرکٹ کھیلنا شروع کر دیں گے۔

اس وقت ایسے شہروں میں کرکٹ مقبول کھیل ہے جن میں جنوبی ایشیائی یا کیریبیئن تارکین وطن کی تعداد زیادہ ہے۔ (ان میں زیادہ تر وہ شہر شامل ہیں جہاں ٹیکنالوجی کی معیشتیں پھل پھول رہی ہیں)

ہیمنت بُچ اور اِن کی اہلیہ، کِنجل نے ۲۰۰۳ءمیں امریکہ کی پہلی تنظیموں میں شمار ہونے والی ’’کیلیفورنیا کرکٹ اکیڈمی‘‘کے نام سے سان فرانسسکو کے بے ایریا میں ایک غیرمنفعتی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس علاقے میں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے کم و بیش اڑھائی لاکھ افراد آباد ہیں۔ مگر یہ اکیڈمی مختلف قسم کے کھلاڑیوں کی دلچسپی کا باعث بن رہی ہے کیونکہ یہ کوپرٹینو، کیلیفورنیا جیسی جگہوں میں میونسپل پارکوں اور تفریحات کے محکموں کے تعاون سے پروگرام منعقد کرتی ہے۔ آئی فون بنانے والی صارفین کی ٹیکنالوجی کمپنی، ایپل انکارپوریٹڈ بھی کوپرٹینو ہی میں واقع ہے۔

بُچ بتاتے ہیں ’’ہمیں کافی تنوع دیکھنے کو مل رہا ہے۔ میں نے ایک میچ میں ایک خاتون کو دیکھا جو ’ کرکٹ فار ڈمیز‘ نامی کتاب پڑھ رہی تھی۔ درحقیقت مجھے ایسی کسی کتاب کے وجود کا بھی علم نہیں تھا۔‘‘

ٹیکساس اور کیلیفورنیا کی دونوں اکیڈمیاں بچوں کو کرکٹ سکھانے پر توجہ دے رہی ہیں کیونکہ وجہ جو بھی ہو نوجوان کھلاڑیوں میں اس کھیل کے ساتھ جڑے رہنے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس کھیل کو سیکھنے کی کوشش کرنے والے بالغ افراد اکثر ایسا نہیں کر پاتے۔

awazurdu

سٹیٹن آئی لینڈ کرکٹ کلب کے کھلاڑی میچ کی تیاری کر رہے ہیں۔ کرکٹ کے بارے میں امریکیوں کی کسی حد تک ناواقفیت کے باوجود، نیویارک کا یہ کلب اس سال مسلسل کرکٹ کھیلنے کا ۱۵۰ سالہ جشن منا رہا ہے۔ اس کی وجہ تارکین وطن کی مقامی طبقات سے تعلق رکھنے والے شائقین ہیں


اکیڈمیوں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ کرکٹ صرف مردوں تک ہی محدود نہیں۔ جولائی میں امریکہ کی عورتوں کی انڈر ۱۹ٹیم نے کرکٹ کی پہلی ’’ویسٹ انڈیز ویمنز انڈر ۱۹رائزنگ سٹارز ٹی ۲۰چیمپئن شپ‘‘کے فائنل میں ٹرینیڈاڈ کو شکست دے کر چیمپئن شپ جیتی۔ پوری چمپیئن شپ کے دوران اس ٹیم نے اپنا کوئی میچ نہیں ہارا۔

یہ ایک پرانی امریکی کہانی ہے۔ اسٹیڈیموں اور روشنیوں سے دور، تارکین وطن کسی کھیل کی محبت اپنے دل میں بسائے امریکہ آتے ہیں اور اسے اپنے امریکی ہم وطنوں میں مقبول بناتے ہیں۔ بُچ کہتے ہیں کہ بے ایریا کے آس پاس نوجوانوں کو گلیوں میں اور خالی جگہوں پر اسی طرح کھیلتا ہوا دیکھیں گے جیسے کبھی وہ خود کھیلا کرتے تھے۔تھیرونا ووکراسو کا کہنا ہے کہ ان کی اکادمی کے زیادہ عمر کے کھلاڑیوں کو ڈیلاس میں کھیلنے کے لیے وہ وقت اور جگہ میسر آگئی ہے جس کی انہیں ہمیشہ سے تلاش تھی۔ وہ کہتے ہیں ’’ ان کے خواب پورے ہو رہے ہیں۔

تشکر برائے متن: شیئر امیریکہ