کورونا کی وبا : مساجد کے فلاحی استعمال کی روایت کو زندہ کر گئی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-06-2021
مساجد کے فلاحی کردار پر دانشوروں کی آرا
مساجد کے فلاحی کردار پر دانشوروں کی آرا

 

 

۔ پانچ وقت کی نماز میں اگر دو گھنٹے لگتے ہیں تو 22 گھنٹے مساجد خالی رہتی ہیں۔فلاحی استعمال ہو،بس مسجد کی حرمت کو آنچ نہیں آئے۔ پروفیسر اختر الواسیع

 ۔ مساجد کا کردار صرف نماز تک محدود نہیں۔ مولانا خالد فرنگی

 ۔ مسجد کا تقدس اہم ہے،احاطہ یا کمپلکس میں الگ مقام کو استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ مفتی مکرم احمد

 ۔ اللہ کا گھر ہمیشہ سے بازآبادکاری کےلئے استعمال ہوا ہے ۔ مفتی منظور ضیائی

۔ مساجد کو سماجی طور پر جوڑنے کی ضرورت ۔ عظمی ناہید

 ۔ پیغمبر اسلام کے دور سے ہی مساجد کا استعمال جدید معنوں میں کمیونٹی سنٹر کے طور پر ہوتا رہا ہے ۔اسسٹنٹ پروفیسر محمد ارشد

 ۔ مساجد کے ساتھ تعلیمی ادارے بھی خدمت انجام دے سکتے ہیں ۔ ڈاکٹرظہیر قاضی

 

منصور الدین فریدی۔ نئی دہلی

کسی مسجد میں ’کووڈ آئسولیشن سینٹر‘ تھا تو کسی میں ’آکسیجن بینک‘۔کسی میں’ راشن ’اور کسی میں ’کھانے‘ کا انتظام ۔ کورونا کی وبا کے دوران مساجد کے اس کردار نے سب کو چونکا دیا۔ مساجد کو پریشان حال لوگوں کی مدد کےلئے مختلف انداز اور طریقوں سے امدادی مرکز کے طور پر استعمال کیا گیا۔جسے سب نے سراہا ۔

 بلاشبہ اسلام میں مساجد کا یہ کردار کوئی نیا نہیں،عالم اسلام کی دوسری سب سے مقدس عبادت گاہ ’مسجد نبوی‘میں روزاول سے سماجی اورفلاحی کام کئے گئے۔ مسلمانوں نے مساجد اسی کردار کو ملک کے سامنے پیش کیا،جسے ملک نے دیکھا اور سراہا۔ ملک کے ممتاز اسلامی اسکالرز اور دانشور حضرات اسے ایک مثبت علامت مانتے ہیں ۔ بہرحال دانشورں کا ماننا ہے کہ ایسے کام ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا کی عدم موجودگی کے زیادہ توجہ کا مرکزنہیں بن سکے تھے۔

 اس بات پرسب متفق ہیں کورونا کی وبا کے دوران دنیا نے مایوسی اور موت سے جنگ کے دوران انسانی خدمت کی ایسی کرنوں کو بھی دیکھا۔ جن سے زندگی کی تاریکی میں کچھ کمی آئی۔ ساتھ ہی ہمت و حوصلہ کے ساتھ ایسا جذبہ بھی پیدا کردیا کہ لوگ اپنا درد بھول کر دوسروں کی مدد کےلئے آگے آگئے۔ کسی نے کسی کا مذہب دیکھا اورنہ ذات ۔اس لئے سلسلے کومستقبل میں بھی یہ جاری رہنا چاہیے۔

 مسجد بھی درسگاہ بھی

 آپ حیران نہ ہوں مگر یہی سچ ہے کہ نئے زمانہ میں دنیا عالمی گاوں ہے ،اس دنیا میں اسلام کا جو ماڈل کام کرے گا وہ ہندوستانی مسلمانوں کا ماڈل ہی ہوگا۔کیونکہ اس ملک میں ایک ہزار سال سے مذہبی ، لسانی ،تہذیبی اور ثقافتی یکسانیت کی تاریخ رہی ہے جو ہماری طاقت رہی ہے۔ان خیالات کا اظہار ممتاز اسلامی اسکالر مولانا آزاد یونیورسٹی ،جودھ پور کے صدر پروفیسر اختر الواسیع نےکیا۔

 آوازدی وائس سے بات کرتے ہوئے پروفیسر اختر الواسیع کہتے ہیں کہ ‘‘اسلام کی پہلی عبادت گاہ،مسجد بنوی،مسجد بھی تھی اور درس گاہ بھی۔ پیغمبر اسلام اس مسجد میں بیٹھکرمقدموں کا فیصلہ کیا کرتے تھے،لوگوں کی رہنمائی کیا کرتے تھے۔بات واضح ہے کہ مساجد صرف پانچ وقت کی نماز کےلئے نہیں،ایسا بڑی مساجد میں اب بھی ہوتا ہے جوعبادت گاہ بھی ہیں اور درسگاہ بھی۔پانچ وقت کی نماز میں اگر دو گھنٹے لگتے ہیں تو 22گھنٹے مساجد خالی رہتی ہیں۔بس ا س بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ مسجد کی حرمت کو آنچ نہیں آئے۔عبادت میں کوئی خلل نہ ہو،کوئی رخنہ اندازی نہ ہو۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے تو مساجد کے فلاحی استعمال میں کوئی حرج نہیں۔’’

 پروفیسر اختر الواسیع نے مزید کہا کہ بلاشبہ عرب دنیا کی پرانی تہذیب تھی اور ترکی میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے۔لیکن آپ یقین جانئے یہ ہندوستانی مسلمانوں کا ماڈل ہی ہوگا جودنیا میں رائج ہوگا۔ہندوستانی مسلمان سب سے جدا ہیں۔ مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی لیکن اقلیت میں ہی رہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں مذہبی جبر کو اپنے روئیے میں شامل نہیں رکھا ہے۔

awazurdu

 تقدس سب سے اہم ہے ۔ مولانا مفتی محمد مکرم احمد

 دہلی فتحپوری مسجد کے شاہی امام مولانا مفتی محمد مکرم احمد نے ’آواز دی وائس ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر مسجد میں ایسا ہونا ممکن نہیں،جس مسجد میں عبادت کے علاوہ کوئی اور کمرہ ہو یا پھریا پھر مسجد کا بڑا کمپلکس ہو تو اس قسم کی فلاحی سرگرمیاں کی جاسکتی ہیں لیکن اس میں مسجد کے تقدس کا خیال رکھنا ہوگا۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ آپ اس کےلئےمسجد کا فنڈ استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ یہ بہت نازک مسئلہ ہے۔ مسجد کی کمیٹی اس کےلئے فنڈ مہیا کراسکتی ہے۔

 وہ کہتے ہیں کہ اسلام میں سماجی کاموں کی بڑی اہمیت ہے اور امام کے فرائض میں شامل ہیں کہ وہ نمازیوں کو ان کے فائدے کی بات بتائیں۔مولانا مفتی مکرم احمد کہتے ہیں کہ مساجد کےلئے اپنا وجود بچانا مشکل ہورہا ہے۔فنڈ کی کمی کے سبب عمارتوں کی دیکھ ریکھ مشکل ہورہی ہے۔ فتحپوری مسجد کا احاطہ بڑا ہے لیکن خستہ حالی انتہا پر ہے،وقف بورڈ جب تنخواہیں نہیں دے رہا ہے تو مرمت کہاں سے کرائے گا۔

بہرحال سماجی کام ہوں لیکن مسجد کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے ایک فاصلہ پر۔مسجد سے الگ کمرے میں یا اس کے کمپلکس کے کسی ایسے حصے سے جو الگ تھلگ ہو۔

 مساجد کا کردار نماز تک محدود نہیں ۔ مولانا خالد رشید فرنگی

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن مولانا خالد رشید فرنگی کہتے ہیں کہ کورونا کی وبا کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں نے جس اندازمیں مساجد کا استعمال کیا اس کی نظیر نہیں ملتی ہے،ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ مساجد کا کردار صرف نماز تک محدود نہیں۔خدمت خلق نے سب کو متوجہ کیا۔بلا تفریق مدد نے ہر کسی کو اس کی ستائش پر مجبور کردیا ۔بہرحال اسلامی بنیاد پر یہ کوئی نیا کام نہیں ہے،لیکن اس سلسلے کو برقرار رکھنا چاہیے۔

- - - وہ ’آواز دی وائس‘سے کہتے ہیں کہ ’’میرا تو اپنا ماننا ہے کہ  -

مساجد کے ائمہ اگر ’ بی یو ایم ایس ’ کر لیں تو ایک بہترین خدمت خلق کی مثال بن سکتے ہیں۔بلا تفریق انسانی خدمت اسلامی تعلیم ہے۔ایسا تجربہ لکھنو کے اسلامک سینٹر میں ہم لوگوں نے کیا ہے جو بہت کامیاب رہا ہے ،جہاں شہر کے بڑے بڑے ڈاکٹر اپنی خدمات دیتے ہیں۔ایسا ہر مسجد میں ممکن نہیں لیکن جو علاقہ کی بڑی مسجد ہیں انہیں ایسے فلاحی کاموں کےلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

 وہ کہتے ہیں کہ ’’۔ دارالقضاء: مسجد کو قضا اور عدالت کے لئے مرکز بنانے کا سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوا۔آپؐ مسجد میں فیصلے فرماتے ،اور مدعی اور مدعا علیہ ،ان کے گواہ اور دوسرے لوگ مسجد میں حاضر ہوتے ،جہاں ان کے بیانات لئے جاتے تھے اور فیصلہ سنایا جاتاتھا۔ایک لحاظ سے یہ کھلی عدالت تھی ،جس میں ہر شخص کارروائی سننے اور دیکھنے آ سکتا تھا۔

 مساجد مہمان خانہ بھی رہیں ،نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوا ۔آپ نے مسجد میں نہ صرف ان کی مہمان نوازی کی بلکہ اس عیسائی وفد کو جس کے افراد کی تعداد ساٹھ تھی انہیں اجازت دی کہ وہ اپنے طریقہ سے عبادت بھی کریں ۔مسجد دن رات کے کسی بھی لمحہ نہ صرف فرض نمازوں،سنن و نوافل ،اعتکاف اور قیام و سجود کی جگہ ہے بلکہ عبادت وریاضت ،تعلیم و تربیت ،دعوت وتبلیغ، تزکیہ نفس اور خاص طور پر خدمت خلق کا ایک ایسا مضبوط مرکز ہے

 کام پہلے بھی ہوتے تھے ۔۔ ڈاکٹر ظہیر قاضی

 ممبئی ہی نہیں مہاراشٹر میں کورونا کی وبا کے دوران بہت بڑے پیمانے پر فلاحی کام ہوئے اور اس کا سلسلہ جاری ہے۔یہ سوشل میڈیا کی دین ہے کہ ا ب بہت کچھ نظر آرہا ہے۔ حالانکہ ابھی بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنی خدمات کو اجاگر کرنا پسند نہیں کرتے ہیں کیونکہ مذہب کا  پیغام ہے کہ ایک ہاتھ سے مدد کرو تو دوسرے ہاتھ کو بھنک نہ لگے۔ ’آواز دی وائس ‘ سے بات کرتے ہوئے ممبئی انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی نے ان خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ۔ ۔ ۔

صرف مساجد کیوں ہم نے بند تعلیمی اداروں کا بھرپور استعمال کیا ۔ممبئی میں کورونا کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ۔قابل غور بات یہ ہے کہ ہم نے جو کووڈ سینٹر بنایا تھا اس میں امیتابھ بچن نے دو ’وینٹی لیٹرز‘ دئیے تھے۔

 ممبئی جامع مسجد نے بے انتہا کام کئے ،اسپتال،قبرستان اورشمشان گھاٹ کے درمیان ایمبولینس سروسیز جاری ہیں۔ آکسیجن بینک چلایا۔ایسا مہاراشٹر کے مختلف علاقوں میں ہورہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سلسلے کو مستقبل میں کسی اور شکل میں جاری رکھنا چاہیے ۔ایسے کام فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں۔

 وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس بحرانی حالات میں نیو پلول میں اپنے ٹکنیکل کمپلکس کو ہر روز آٹھ ہزار افراد کو کھانا کھلانے کا مرکز بنایا تھا۔۔ایک اسکول سے راشن کی تقسیم ہوئی تھی جبکہ ایک اسکول میں ویکسینیشن کا اہتمام کیا گیا تھا۔اگر مستقبل میں کسی فلاحی کاموں کےلئے یہ سلسلہ جاری رہا تو بہت اچھا رہے گا۔

یہی ہے مساجد کا بنیادی کردار ۔۔ مفتی منظور ضیائی

 مساجد کا کردار ہمیشہ یہی رہا ہے،اللہ کا گھر ہمیشہ سے بازآبادکاری کےلئے استعمال ہوا ہے۔ایسا ہر دور میں ہوا ہے۔انٹر نیشنل صوفی کارواں کے سربراہ اور اسلامی اسکالرمولانا مفتی منظور ضیائی نے‘ آواز دی وائس‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسجد میں عبادت ہمیں اللہ سے جوڑتی ہے اور خدمت خلق انسانوں سے ۔سماجی اور فلاحی کا م سب سے زیادہ اہم ہیں یہی خوبی ہمیں معاشرے سے جوڑتی ہے ۔ 

ایسا نہیں کہ مساجد سے یہ کام پہلی بار ہورہے ہیں ،ماضی میں بھی امداد دی گئی ہے لیکن اس وقت سوشل میڈیا کا زمانہ نہیں تھا۔اب جو بھی ہورہا ہے دنیا کے سامنے آرہا ہے۔بے شک مساجد کا فلاحی استعمال ہو مگر اس کےلئے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ عبادت گاہ کا تقدس پامال نہ ہو۔

 فلاحی کام اسلام کا بنیادی اصول ہے ۔عظمی ناہید

کورونا کی وبا کے دوران مساجد کے فلاحی کاموں کا ہونا اسلام کا بنیادی اصول ہے۔اللہ نے انسان کو مکرم بناکر بھیجا ہے۔جان کو سب سے قیمتی قرار دیا ہے خواہ انسان کسی بھی مذہب کا ہو۔ ’آواز دی وائس‘ سے بات کرتے ہوئے ممبئی کی ممتاز سماجی رضا کار اور انڈیا انٹر نیشنل ویمن الائینس کی بانی عظمی ناہید نے یہ خیال ظاہر کیا۔جنہیں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی ورکنگ کمیٹی کی پہلی خاتون ممبر منتخب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جہاں تک بات مسجد کی ہے تو دنیا میں اس سے زیادہ معتبر مقام اور کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔پیغمبر اسلام کے دور میں جب وبا پھیلی تھی تومساجد میں بیماروں کو رکھا گیا تھا اور علاج کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ سب کام بلا تفریق ہوتے تھے۔ اس وبا کے دوران مسلمانوں نے دل وجان نچھاور کرکے خدمات انجام دی ہیں۔ایسی مثال نہیں ملے گی جس اندازمیں مسلمانوں نے خدمت خلق کی ہے۔ملک میں مسجد کو سماجی طور پر جوڑنے کےلئے کئی مہم شروع ہوچکی ہیں،ان میں ایک ’مسجد ون‘ ہےجس کا مقصد مسلمانوں کی مجموعی ترقی کے لئے مساجد کو مسلمانوں کی ترقی کا مرکز بنایا جائے گا۔علاقہ کی بیواوں اور یتیموں سے آگاہی ہو،ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔

awazurdu

 مساجد ہمیشہ وسیع کردار کی حامل رہی ہیں۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد

 بنیادی طور پر مساجد کی تعمیر اس مقصد سے ہوتی ہے کہ پنج وقتہ نماز ادا کی جاسکے. البتہ مساجد کو صرف عبادت (پنج وقتہ نماز) تک ہی محدود کردینا مناسب نہیں ہے. یہ رائے ظاہر کی ہے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسلامک اسٹڈیزکے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد کی ۔ انہوں نے ’آواز دی وائس‘سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دیکھا جائے تو پیغمبر اسلام کے دور سے ہی مساجد وسیع کردار کی حامل رہی ہیں۔ان کا استعمال جدید معنوں میں کمیونٹی سنٹر کے طور پر ہوتا رہا ہے. مساجد کا یہ وسیع کردار بعد کے ادوار میں بھی اس وقت تک برقرار رہا جب تک کہ مسلم معاشرہ زوال پزیر نہیں ہوا. اس میں شک نہیں کہ دور زوال میں مسلمانوں کے اندر مساجد کا کردار بری طرح مجروح ہوا اور ان میں مسجد کا ایک ایسا تصور پروان چڑھا جس میں خانہ خدا کو عبادت کے مخصوص اعمال تک محدود کردیا گیا۔

 ہندوستانی مسلمانوں میں بھی مساجد کا یہی تصور عام ہے حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکثر مساجد کے ساتھ مدارس ملحق ہوا کرتے تھے اور مساجد کو درسگاہوں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا. یہ روایت اب تک برقرار ہے اور شہری علاقوں میں مساجد کو قرآنی مکاتب کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس سے یہ بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ مساجد کو پنج وقتہ نماز کے علاوہ مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے. المیہ یہ ہے کہ وہی لوگ جو دھڑلے سے مساجد میں مکاتب کو چلاتے ہیں کئی بار مساجد کے کسی ایسے استعمال کی مخالفت کرتے ہیں جس سے کہ مساجد کا بنیادی کردار بھی متاثر نہیں ہوتا ۔

 ہندوستانی مسلمان جس دورانیے سے گزر رہے ہیں اس میں ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے مسلم معاشرے میں مساجد کے مرکزی کردار کو سامنے رکھیں. وہ اپنی سماجی سرگرمیوں کا خاکہ اس طرح تیار کریں کہ مساجد کا وسیع کردار ایک طرف بحال ہو تو دوسری طرف مساجد کے انفراسٹرکچر کا استعمال سماجی بہبود کے کاموں کے لئے اس طور پر ہو کہ ان کا بنیادی مقصد کسی بھی حال میں فوت نہ ہو۔

. بلاشبہ اس وبا نے سماجی طور پر دور کرنے کے باوجود دلی طور پر قریب کردیا ۔ دوریاں ختم ہوگئیں،غلط فہمیاں مٹ گئیں۔ نفرت اگر ختم نہیں ہوئی تو کمزور ضرور پڑ گئی۔ قابل غور بات یہی ہے کہ اس آفت کے دوران ایک بار پھر ملک کی خوبصورت تہذیب ابھر کر سامنے جس کو ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کہتے ہیں۔مذہبی رواداری کہتے ہیں یا ہندوستان کی اصل پہچان مانتے ہیں ۔