ایودھیا مسجد ۔ فرقہ وارانہ آہنگی اور حب الوطنی کا پیغام دیگی۔اطہر حسین

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
مجوزہ ایودھیا مسجد
مجوزہ ایودھیا مسجد

 

 

آواز دی وائس : نئی دہلی

بابری مسجد کیس کے فیصلے کے بعد سے ہی دھنی پور کی پانچ ایکٹر زمین مو ضوع بحث اور توجہ کا مرکز رہی ہے۔ مجوزہ مسجد کی تعمیر کا باقاعدہ اعلان اس وقت ہوا تھا جب فن تعمیر کا منصوبہ 19 دسمبر کو ہند-اسلامی ثقافتی فاؤنڈیشن  کے ذریعہ جاری کیا گیا تھا۔ جو اتر پردیش حکومت اور ریاستی سنی وسطی وقف بورڈ کے ذریعہ تشکیل دی گئی ٹرسٹ ہے۔

ٹرسٹ کے سکریٹری اور ترجمان اطہر حسین ہیں جو اس مشن میں جٹے ہوئے ہیں۔جس کو وہ ایک چیلنج مانتے ہیں۔ساتھ ہی اس بات کا اعتماد ظاہر کرتے ہیں کہ مسئلہ مذہبی اور سیاسی تھا مگر اب اس کا حل نکل چکا ہے، اس کو انسانی خدمت اور قومی ہم آہنگی کے ساتھ مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی بہتری کے نظرئیے سے آگے لیجایا جائے گا۔’آواز دی وائس‘اردو کے ’مدیر‘ منصور الدین فریدی سے بات چیت میں اطہر حسین نے اس پروجیکٹ کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔

سوال: کیا ہے نظریہ اور سوچ؟جو اس کو خاص بناتی ہے؟

جواب: مجوزہ مسجد کمپلکس کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی اورحب الوطنی کی علامت بنایا جائے گا۔ اس میں قائم انڈو اسلامک ریسرچ سینٹر کو 1857کی لڑائی میں شہید ہوئے مولوی احمد اللہ شاہ فیض آبادی کے نام پر منسوب کیا جائیگا۔جنہیں 5جون 1858کو شہید کیا گیا تھا اور انگریز فوج کے افسران نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ان کی بہادری نے مشکلات پیدا کردی تھیں۔انہوں نے اوودھ علاقے میں کئی جنگیں لڑی تھیں۔اس سلسلے میں مختلف طبقوں سے تجاویز آئی ہیں۔ اس پروجیکٹ کو مستقبل کو نظر میں رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔اس کا مقصد ایک تنازعہ کا خاتمہ کرنا اور گنگا جمنی تہذیب کے ساتھ سیکولر روایات کو برقرار رکھنا ہے۔ ہم نے اسلامی تعلیمات کا کو نظر میں رکھا ہے۔بات دین کے ساتھ دنیا کی بھی ہے۔اس لئے ہم نے مسجد کے ساتھ اس میں اسپتال،لائبریری،میوزیم اور آرکائیو کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ مقصد یہی ہے کہ دین کے ساتھ دنیا کا توازن بنایا جائے۔ انسانی خدمت کے جذبہ کو ابھارنا ہے۔ خدمت خلق کے اسلامی فلسفہ کی فروغ دینا ہے۔

 سوال:مسجد کی زمین کو کس بنیاد پر قبول کیا گیا؟

جواب: ”۔ دیکھئے!مسجد پر کوئی سیاست اورغلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔یہ کسی ’بدلے‘ کی زمین نہیں ہے۔عدالت نے آرٹیکل 142کو ختم کرکے وقف کی زمین کو ہندو فریق کو دیدی۔جس کا سپریم کورٹ کو اختیار ہے۔ یہ تو لوگوں کو گمراہ کیا گیا کہ یہ بدلے کی زمین ہے حالانکہ عدالت نے کہیں یہ نہیں کہا ہے کہ یہ زمین بدلے کی ہے۔ بدلے کا سوال تو پیدا ہی نہیں ہوتا ہے۔عدالت نے وقف کی دعویداری ختم کرکے زمین دی تاکہ مستقبل میں کوئی تنازعہ ہو۔عدالت نے مسجد کیلئے کیوں ز مین دی ہم بھی نہیں جانتے لیکن ہمیں ایک مثبت کام کا موقع ملا ہے۔جس کے سبب ہم نے پانچ ایکٹر میں مسجد کے پروجیکٹ کے ساتھ جڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ayodhiya

دستور پر یقین ہماری طاقت ہے۔اطہر حسین 

سوال: عدالت کے فیصلہ میں سب سے بڑی اور اہم کڑی کیا تھی؟

جواب:دیکھئے!ہمارے بڑو ں نے یہ بات کہی تھی کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گا اس کو تسلیم کیا جائے گا،اب اس کے بعد فیصلہ آیا جسے ہم سب نے قبول کیا۔اس فیصلہ سے قبل مسئلہ کو حل کرنے کیلئے ثالثی کی کوشش کی گئی تھیں۔دہلی سے لکھنو تک بھاگ دوڑ رہی تھی۔ سپریم کورٹ نے ثالثی کیلئے تین رکنی کمٹی بنا ئی تھی،جس میں شری شری روی شنکر اور سابق جسٹس ایف ایم خلیفہ اللہ بھی شامل تھے۔ جسٹسخلیفہ اللہ صاحبکو ملی قائد کی حیثیت حاصل ہے۔سب نے کوشش کی۔ہم لوگ بھی اس کا حصہ رہے تھے۔اس وقت ہم نے یہی مانگ کی تھی کہ اگر کوئی سمجھوتہ ہوتا ہے تو دیگر 3000مساجد کا کیا ہوگا جن کا ذکر مختلف ہندو تنظیمیں اپنی ویب سائٹس پر جاری کررہی ہیں یا جن کی فہرست جاری کی جارہی ہے۔سوال یہی تھا کہ ان کا کیا ہوگا؟ خوشی اسی بات کی ہے کہ عدالتی فیصلہ کے دس صفحات میں صرف اسی کا ذکر ہے۔

سوال:یہ تحفظ کتنا پختہ مانا جائیگا؟

جواب: مذہبی مقامات ایکٹ 1991میں کہا گیا ہے کہ بابری مسجد کے علاوہ سب مذہبی مقامات کی 15 اگست1947 سے قبل کی پوزیشن برقرار رہے گی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس کو  بنیادی دستوری ڈھانچہ میں شامل کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس قانون کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے باوجود بھی بدلا نہیں جاسکے گا۔در اصل 1971میں کرشنن بھارتی کی قیادت میں 13رکنی بینچ نے ایک فیصلہ دیا تھا کہ ایک فہرست تیار کی جائے گی اور اس کو دستور کے بنیادی ڈھانچہ میں شامل کیا جائے گا جو پھر ناقابل ترمیم ہوگی۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔“ یہ ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ کا ایک مثالی فیصلہ تھا۔جس کو قانون کی کتابوں میں ”کیشو آنند بھارتی فیصلے“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جس نے ہندوستانی آئین کے بنیادی ڈھانچے کے نظریے کا خاکہ پیش کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے 13 ججوں کے آئینی بنچ نے عوام کے منتخب نمائندوں کے اختیارات اور کسی فرد کے بنیادی حقوق کی نوعیت کی حدود، اگر کوئی ہے تو،اس پر غور کیاتھا۔7-6 میں منقسم فیصلے میں، عدالت نے کہا تھا کہ جبکہ پارلیمنٹ کے پاس 'وسیع' اختیارات ہیں، لیکن اس کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ آئین کے بنیادی عناصر یا بنیادی خصوصیات کو ختم کردے یا ان پر قابو پاسکے۔

َّٰٓ ٓٓٓسوال: پھر متھرا میں حال میں ایک عرضی دائر ہوئی۔۔کیوں؟

جواب:جی ہاں!حال میں ہی متھرا میں ایک کیس دائر ہوا تھا مگر رد ہوا۔ اس پر اپیل کی گئی ہے لیکن یہ کیس جہاں بھی دائر ہوگا اس پر آرڈر7رول11لاگو ہوگا۔یہ اس وقت لاگو ہوتا ہے جب کوئی بڑی عدالت اس پر کوئی فیصلہ دائر کرچکی ہوتی ہے۔اس صورت میں وہ معاملہ رد ہو جاتا ہے۔اب ہمیں یہی کرنا ہے کہ جہاں بھی ایسا کوئی معاملہ اٹھتا ہے تو ہم ’آرڈر 7رول 11‘ لگا ئیں گے تو کیس رد ہوجائے گا۔

سوال:تعلیمی اور عملی سرگرمیاں کیا ہونگی؟

جواب:’انڈو اسلامک کلچرل ریسرچ سینٹر“ بھی قائم کیا جائے گا۔ جس میں مجاہدین آزادی پر ریسرچ بھی ہوگی جنہوں نے اوددھ کی تمام لڑائیوں میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان میں مولوی احمد اللہ شاہ فیض آبا دی بھی شامل ہونگے جن کے نام پر یہ انڈو اسلامک ریسرچ سینٹر ہوگا۔ انہوں نے انگریزوں کے چنگل سے ایک سال کیلئے آزاد بھی کرایا تھا۔1857اور جنگ آزادی میں مسلمانوں نے شانہ بشانہ حصہ لیا تھا ان مجاہدین آزادی کے بارے میں بھی ریسرچ کا کام ہوگا اور اسے کتابی شکل میں سامنے لایا جائے گا۔ اودھ کے مولودی عبدالباری فرنگی محلی پر بھی تحقیق ہوگی۔یادرہے کہ جب گاندھی جی 1919میں لکھنو آئے تھے تو چھ ماہ تک انہیں کے گھرپر قیام کیا تھا۔ اس کمپلکس میں میوزیم اور لائبریری کے ساتھ پبلی کیشن ہاوس ہوگا۔ ہمارا مقصد ہے کہ مذہب کے ساتھ اس مرکز کو تعلیم، روزگار،انسانی خدمت سے جوڑنا ہے تاکہ ملک میں اسلام کی حقیقی تصویر پیش کی جاسکے جس میں دین اور دنیا کی اہمیت کو یکساں طور پر تسلیم کیا جائے اورعمل کیا جائے۔