انصار احمد : بائیک سے ’رائڈینگ گئیر‘ کے شوروم تک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
انصار احمد : بائیک سے ’رائڈینگ گئیر‘ کے شوروم تک
انصار احمد : بائیک سے ’رائڈینگ گئیر‘ کے شوروم تک

 

 

صابر حسین، نئی دہلی

یہ سنہ 1990 کے دہائی کا زمانہ ہے، جب کہ انصار احمد نے موٹر سائیکل میں دلچسپی لینی شروع کردی تھی، یہ ان کی نوعمری کا زمانہ تھا۔ انصار احمد کا تعلق ریاست تامل ناڈو کے دارالحکومت چنئی سے ہے۔ انصار احمد اسکول جاتے ہوئے مکینک کی ورکشاپ کوبہت غور سے دیکھا کرتے تھے۔

وہ دیکھا کرتے تھے کہ وہ کس طرح موٹر سائیکل کے پارٹس یا پرزے الگ کرتے ہیں، اور پھر دوبارہ جوڑ دیتے ہیں۔ پھر موٹر سائیکل پہلے کی طرح سڑک پر دوڑنے کے قابل ہو جاتی ہے۔

مکینک کو موٹرسائیکل کی مرمت کرتے دیکھتے دیکھتےایک وقت ایسا آیا کہ انصار احمد نے نہ صرف موٹرسائیکل چلانے میں دلچسپی لی بلکہ انہوں نے اسٹریٹ ریس میں بھی حصہ لینا شروع کردیا۔

انصار احمد نے آواز دی وائس سے کہا کہ میں نے موٹر میکینکس سے بائیک چلانے اور ریسنگ کی باریکیاں سیکھیں۔انہوں نے بتایا کہ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ریسنگ کے لیے رائڈینگ گئیر خریدنا مشکل تھا۔ میرے پاس اس کو خریدنے کے لیے اتنے پیسے نہیں تھے۔ اس وقت ہم ایک متوسط ​​گھرانے سے تعلق رکھتے تھےاوراس وقت رائڈینگ گئیر کی قیمت تقریباً 50,000 روپے تھی جو کہ ہمارے دسترس سے باہر تھی۔ ان دنوں رائڈینگ گیئر باہر سے ملک میں آتی تھی اور ملک میں اس وقت اس کا کوئی صنعت کاربھی نہیں تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ رائیڈنگ کے لیے ہم سیکنڈ ہینڈ سوٹ یا جیکٹس پہنا کرتے تھے جو بہت خراب اور پھٹے ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ حفاظت کے لیے بہتر نہیں ہے۔ دراصل یہ رائیڈنگ گیئر پیچ ورک کی طرح لگتا تھا۔

انصار احمد کی عمر45 سال ہے۔ وہ چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ حادثے کا مطلب یہ تھا کہ سوار کو پرانا سامان پہنے کی وجہ سے باوجود چوٹ لگے گی یعنی سکیورٹی کے ساتھ سمجھوتہ  تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب میں بڑا ہوا اور موٹرسائیکل ریسنگ میں حصہ لینا شروع کیا تو بہت سے دوسرے بائیکرز سے میری ملاقات ہوئی اور وہاں یہ معلوم ہوا کا رائیڈنگ کا سامان بہت مہنگا ہے۔ میرے ذہن میں یہ بات چل رہی تھی کہ ہمارے لیے رائیڈنگ کا سامان سستا ہونا چاہئے تاکہ موٹرسائیکل کےشوقین اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے انہیں خرید سکیں۔مگر میری یہ جستجو بس ایک موہوم سے خواب ہی بنی رہی کہ کیوں کہ تقریباً ایک دہائی تک زندگی کی روز مرہ کی ضرورتوں نے شوق کو پیچھے چھوڑنے مجبور کر دیا۔

انصاراحمد نے الیکٹریکل انجینئرنگ میں گریجویشن کیا ہے۔ آئی ٹی کے شعبے میں آنے سے پہلے کچھ جگہوں پر انہوں نے کام کیا اور ایک چھوٹا سا کاروبار بھی چلایا ۔ انہوں نے پونے اور چنئی میں اپنی خدمات انجام دی ہیں۔

میں کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے میرے بیچ کو صرف اس لیے رکھا کہ ہم اچھی انگریزی بول سکتے ہیں،" وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔

لیکن انصار احمد نے کام جلدی سیکھ لیا اور ایک آئی ٹی فرم میں نائب صدر تک پہنچنے کے بعد ملازمت سے استعفیٰ دیا۔ اپنی ملازمت کے مصروف شیڈول کے باوجود، موٹر سائیکل چلانے سے ان کی محبت کبھی ختم نہیں ہوئی۔

awazurdu

ایک شوق جس نے کاروبار میں کنگ بنا دیا


پونے کے زمانہ قیام میں انہوں نے سنہ 2012 میں KTM ڈیوک موٹر سائیکلوں کے مالکان پر مشتمل سپر بائیکرز کا ایک گروپ(Dukes of Pune) قائم کیا۔ جہاں چھٹی کے اوقات میں بائیکرز پریٹکس کیا کرتے تھے۔

یہ مشق ان کی کاروباری خواہشات کے لیے بھی ایک اہم موڑ ثابت ہوگی۔ ان دنوں پونے میں ایک اطالوی برانڈ الپن اسٹارس(Alpinestars) سے رائیڈنگ کا سامان ملا کرتا تھا۔ ایک جیکٹ کی قیمت تقریباً 25,000 روپے تھی۔ مگر یہ جیکٹ خریدی نہ جاسکی۔ تاہم یہی لمحہ ان کے لیے رائیڈنگ کے لیے سستی جیکٹس بنانے کا محرک ثابت ہوا۔

سنہ 2013 میں انصار احمد دو درزیوں کے تعاون سے رائیڈنگ کے لیے جیکٹس تیار کئے جس کو عام طو پر اب Biking Brotherhood Gears یا BBG کہا جاتا ہے۔ انہوں نے پونے میں رہتے ہوئے اپنے چنئی والے گھر کے گراونڈ فلور پر بائکنگ برادرہڈ کے بینر تلے کام شروع کردیا۔ ابتدائی طور پر بائکنگ برادرہڈ نے رائیڈنگ کے سامان میں خاص طور پر جیکٹس کی مرمت اور اس کو بنانے پر خاص توجہ دی۔ اس سے بائکرز کوسواری کرنے میں وقت اور پیسہ بچانے میں کافی مدد ملی، وہیں بائکنگ برادرہڈ نے انصار کو اپنے کاروبار کو تیزی سے سواری کے سامان بنانے میں مدد دی۔

awaz

انصار احمد موٹر سائیکل کے دیوانے

سنہ 2015 میں، اس نے خود کو مکمل وقت اپنے مینوفیکچرنگ کے کاروبار کے لیے وقف کرنے کے لیے اپنی ملازمت چھوڑ دی۔

انہوں نے بتایا کہ میں آئی ٹی کمپنی کے نائب صدر کے طور پر ماہانہ 2 لاکھ روپے کما رہا تھا جب میں نے خود کو اپنی کمپنی میں اپنا پورا وقت دینےکا فیصلہ کیا۔ ابتدائی سال اچھے رہے کیونکہ ان کا کاروبار تیزی سے پھیل گیا اور انہیں اپنے گھر سے باہر کسی بڑی جگہ پر کام کرنا پڑا۔ لیکن چھ ماہ کے اندر انہیں اپنی کمپنی چلانے کے لیے اس سے بھی بڑی جگہ درکار تھی۔

انہوں نے 2019 میں BBG کا فلیگ شپ اسٹور قائم کرنے کے لیے چنئی میں ایک اہم جائیداد خریدی۔ جس کے لیے انہوں نے کافی رقم بچا رکھی تھی۔ وہ خوش قسمت تھے کہ انہیں 6880 مربع فٹ پراپرٹی خریدنے کے لیے بینک سے قرض نہیں لینا پڑا۔

انصاراحمد نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ایک مسلمان کے طور پر میں اس خیال سے مطمئن نہیں تھا کہ میں بینک سے سود پر قرض لوں گا۔ جس سے میں پراپرٹی خرید رہا تھا، وہ ایک مسلمان تھے۔ ان سے میں نے کہا کہ میں آدھی قیمت ڈاون پیمنٹ کے طور پر ادا کروں گا اور بقیہ سود سے پاک قسطوں میں۔ وہ مسلمان راضی ہوگئے اور مارچ 2022 میں اس کی آخری قسط ادا ہو جائے گی۔

انصار احمد خام مال زیادہ تر جنوبی کوریا سے درآمد کرتے ہیں اوراس کے 140 ٹیلر اور پیٹرن ماسٹر ہیں جو فیکٹری میں جیکٹس، دستانے اور جوتے بناتے ہیں۔BBG کی جیکٹس کی قیمت 6000 سے 10000 روپے کے درمیان ہے جو امپورٹڈ جیکٹس سے بہت سستی ہے۔ مختصر وقت میں، ملک بھر میں تقریباً 150 ڈیلرز نے BBG کی فروخت کو پہنچانے میں مدد کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال ہم نے 10 کروڑ روپے کا کاروبار کیا۔ ہمارے پاس اب 70 پروڈکٹس ہیں اور کچھ اور متعارف کرانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ہر نئی مصنوعات کے لیے 5 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب مارکیٹ میں ان کے مصنوعات کی ملک میں بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی فین فالوئنگ بھی بہت زیاد ہے۔

awaz

انصار احمد اپنے شوروم میں 


انصار کے ایک فین نے ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ایک بلاگ بھی لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ  جب وہ راجستھان میں رائیڈنگ کے دوران دو حادثات سے اس لیے بچ گئے کیونکہ انہوں نے BBG جیکٹ پہن رکھی تھی۔

انصار کا کہنا ہے کہ بی بی جی جیکٹس کے لیے اپنی بکتر تیار کرنے پر کام کر رہی ہے جس سے اخراجات کو مزید کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دوسری طرف کورونا وائرس کی وبا شروع ہونے کے بعد سے ان پٹ لاگت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ خام مال کی قیمت چھ گنا بڑھ گئی ہے۔

خام مال کی بروقت ترسیل کے لیے کنٹینرز کی تلاش کا مسئلہ بھی ہے۔ لیکن ہم پھر بھی اپنے لیے اچھا کام کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ کورونا وائرس نے ہمیں بھی مختلف طریقوں سے متاثر کیا۔ چونکہ وبائی بیماری ملک میں یکساں طور پر نہیں پھیلی تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ بعض اوقات ہم ملک کے اس حصے میں سامان نہیں بھیج سکتے تھے جہاں ٹرانسپورٹ پر پابندیاں نافذ تھیں۔

awzathevoice

بائکرز بی بی جی کا جیکٹس پہنے ہوئے


وبائی مرض نے انصار کواپنی کمپنی میں افرادی قوت کو کم کرنے پر بھی مجبور کیا۔ جب کاروبار کم ہوا تو انہوں نے کچھ لوگوں کو نوکری سے نکال دیا تاہم حالات جب بہتر ہونے لگے توان میں سے بہت سے لوگوں کو واپس کام پر رکھ لیا گیا۔

چنئی میں ریسنگ سرکٹ کے ساتھ انصاراحمد کی وابستگی نے بھی بی بی جی کو کافی مدد ملی۔ اب ملک کے اندر بہت سے بائک ریسرز ان کی مصنوعات پہنتے ہیں۔

انصار احمد نے دعویٰ کیا کہ تمام بڑے شہروں میں ہماری موجودگی حیران کن ہے لیکن مجھے شمال مشرق سے آنے والے ردعمل سے خوشگوار حیرت ہوئی کیونکہ لوگ اپنے مطلوبہ سامان کے بارے میں بہت زیادہ جانتے تھے۔ ان کے کاروبار کی ترقی کا مطلب یہ تھا کہ اب ان کے پاس موٹر سائیکل چلانے کا وقت نہیں ہے؛ لیکن مدراس موٹر ریس ٹریک پر ریس کے دنوں میں وہ ایک باقاعدہ فکسچر ہیں کیونکہ ان کا برانڈ سرکٹ کا حصہ ہے۔

وہ سنہ 2016 میں ریس ٹریک پر ایک عجیب حادثے کا شکار ہوئے۔ انہوں نے اس حادثے کے بارے میں بتایا کہ میں ٹریک کے کنارے پر کھڑا تھا جب کہ ایک نوآموز سوار مجھ سے ٹکرا گیا اور پھر میری پیٹھ پر سوار ہو گیا۔ مجھے صحت یاب ہونے میں کچھ وقت لگا حالانکہ اس چوٹ کی وجہ سے میری کمر کبھی کبھی شکایت کرتی ہے۔انصار صحت یاب ہوچکے ہیں، ان کے اندر پہلے جیسا جنون ہے۔ وہ رائیڈنگ کےلیے معیاری سامان بنانے کے جذبے سے سرشار ہیں۔

انصاراحمد اپنی بیوی اوروالدہ کے ساتھ چنئی میں رہتے ہیں، جب کہ ان کے دو بڑے بھائی اورایک بہن جدہ میں مقیم ہیں۔