افغانستان : سیاسی اورسفارتی مسئلہ ہے مذہبی نے۔ مولاناخالد رشید

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-08-2021
افغانستان کا مسئلہ اور ہندوستانی مسلمان
افغانستان کا مسئلہ اور ہندوستانی مسلمان

 

 

  منصور الدین فریدی:آواز دی وائس

افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے،اس پر خوشی کا کوئی جواز نہیں ۔ کسی بیان بازی کی کوئی گنجائش نہیں۔ایسے معاملات کو حکومت سنبھالتی ہے اور ملک کے مفادات کو مد نظر رکھ کر اس کا حل نکالتی ہے۔ کوئی پالیسی بناتی ہیں اور حتمی موقف اختیار کرتی ہے۔

 ان خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کیا ہے۔

 دراصل افغانستا ن میں طالبان کی واپسی نے جہاں اس سرزمین پر بے چینی اور افراتفری پیدا کردی ہے وہیں پڑوسی ممالک کے لئے عجیب وغریب حالات اور ماحول بن رہا ہے ۔سیاسی اور سفارتی مسائل نے نئی الجھنیں پیدا کی ہیں ۔در اصل کہیں طالبان کی واپسی کی خوشی ہے۔ کہیں امریکہ کی شکست کی ۔

 آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اقتدار کی منتقلی کے بعد ہندوستان میں کچھ مسلمانوں اور لیڈران کا اظہار خوشی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کو منفی سوچ ہی کہا جاسکتا ہے۔ 

مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ 'کسی طرح کی کوئی بیان بازی نہیں کرنی چاہیے جہاں تک مذہب اسلام کے نام سے ظلم و بربریت کی بات ہے تو مذہب اسلام ہمیشہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کرتا رہا ہے۔

مذہب اسلام میں عورتوں پر ظلم کرنا بالکل غلط ہے۔ بلکہ جنگ میں بچے، خواتین اور بوڑھوں پر وار کرنے کی اجازت تک نہیں دی گئی ہے۔ اسلام میں مسلم اور غیر مسلم کے ساتھ بھی بہتر سلوک کرنے کی ہدایت ہے۔ 

کچھ لوگ ایسی زبان استعمال کررہے ہیں جو قابل قبول نہیں ۔اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا بلکہ فتنہ پیدا ہوگا۔

 مولانا خالد رشید فرنگی محلی کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ افغانستان اور امریکہ کا ہوسکتا ہے لیکن اس کو ہم ہندوستان میں طول نہیں دے سکتے ہیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ محلی نے مزید کہا کہ کسی اور ملک کے حالات پر مذہبی بیان بازی سے بچنا چاہیے۔

 ہندوستانی مسلمان خود کسی کو موقع کیوں دے رہے ہیں؟کسی بھی بیرونی مسئلہ پر ضرورت سے زیادہ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

یہ سیاسی اور سفارتی معاملات ہوتے ہیں جنہیں حکومت نپٹاتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی واقعہ ہوتا ہے تو اس کا حصہ بن جاتے ہیں ؟

ہمیں اپنے ملک کے مسلما نوں سے مطلب ہہونا چاہیے۔ ہم دنیا بھر کے معاملات میں میں کیوں ٹانگ اراتے ہیں۔  افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ہندوستان میں سوشل میڈیا پر طالبان کے حق میں بیانات آئے اور نوبت گرفتاری تک پہنچ گئی ہے۔

 اس کے ردعمل میں سخت گیر ہندو تنظیموں کے ذمہ داران نے متعدد افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔

مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ 'آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس سلسلے میں اپنے موقف کو پہلے ہی واضح کردیا ہے اور کسی نے کیا بیان دیا اس پر ہمارا کوئی ردعمل نہیں ہے۔ لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ افغانستان کے حوالے سے جو پالیسی ہندوستانی حکومت کی ہوگی وہ سبھی ہندوستا نی شہریوں کی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے ہندوستان کے تعلقات ہمیشہ سے اچھے رہے ہیں۔ آئندہ دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان کیسے تعلقات بنتے ہیں یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔

 انہوں نے ہندوستا نی مسلمانوں سے کہا کہ ہمیں اپنے ملک کے حالات اور حکمت کے تحت چلنا ضروری ہے کیونکہ ملک کے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے ۔