رفعت مسعودی : بیٹ بنانے والی پہلی کشمیری خاتون

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
رفعت مسعودی
رفعت مسعودی

 

 

  آواز دی وائس، نئی دہلی

یہ کہانی ہے لگن کی ،حوصلہ کی ،جدوجہد کی۔جن کو سن کر آپ یقینا یہی کہیں گے کہ ’واہ کیا بات ہے‘ ۔یہ ایسے عزم کی کہانی ہے جس نے ایک بیمار صنعت کو صحت بخش دی۔روایات کو پیچھے چھوڑ کرایک خاتون نے فیکٹری اور کاروبار کو چار چاند لگا دئیے۔وہ کر دکھایا جس کے بارے میں خود بھی کبھی نہیں سوچا تھا۔

یہ خاتون ہیں رفعت مسعودی،جنہوں نے ایک وقت ایسا سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی کوئی کاروبار کریں گی ۔کوئی فیکٹری چلائیں گی۔

مگرایک ایسا وقت آیا جب انہوں نے گھر سے نکل کر اپنے سسرال کے خاندانی کام کو سنبھال لیا۔فیکٹری کی ذمہ داری اٹھالی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رفعت مسعودی نے جس کام کا بیڑا اٹھایا وہ تھا کرکٹ کے بیٹ کا۔انہوں نے اس خاندانی کام کو سنبھال لیا۔اب وہ بیٹ بنانے کی فیکٹری چلاتی ہیں ۔

رفعت مسعودی ایک ایسی باہمت خاتون کا نام ہے،جن کا نام ان کے کام کی وجہ سے ملک کے ہر حصہ میں معروف ہوگیا ہے۔مختلف نامساعد حالات کے باوجود انھوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور اپنا کام تن دہی کے ساتھ کرتی رہیں، حتیٰ کہ وہ بیٹ وومین(Bat Woman) کے نام سے جانی جاتی ہیں۔

ان کی کہانی بتاتی ہے کہ ایک خاتون اگر چاہے تو کیا کچھ نہیں کر سکتی ہے۔ان میں ہمت و استقلال ہونا چاہئے، ماضی میں بھی خواتین نے بے شمار اہم کارنامے انجام دیے ہیں، اور آج بھی خواتین مختلف میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔

رفعت مسعودی بھی ان میں ایک ہیں۔ رفعت مسعودی کا تعلق جموں و کشمیرکے دارالحکومت سری نگر سے ہے۔ وہ وہاں کی پہلی ایسی خاتون ہیں، جو بیٹ بنانے کا کارخانہ چلا رہی ہیں۔بیٹ مینوفیکچرنگ کرنے کی وجہ سے انہیں بیٹ وومین کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اب جموں و کشمیر کے تین اضلاع یعنی اونتی پورہ، اننت ناگ اور پامپور میں ان کی فیکٹریاں قائم ہیں۔ رفعت مسعودی دو بچوں کی ماں ہیں، ان کی عمر 40 برس ہے۔

awazurdu

کرکٹ کے بلے

انھوں نے کشمیر میں بیٹ بنانے کا کام سن 1999 میں شروع کیا تھا جب کہ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی خیر سگالی مشن پر پاکستان گئے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ اٹل بہاری واجپئی نے کشمیر میں امن کے فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا، تاکہ کشمیری مصنوعات ملک و بیرون ملک میں فروخت کی جاسکیں۔

کشمیر کے تئیں وہ اٹل بہاری واجپئی کے خواب کو پورا کرنا چاہتی ہیں۔ خیال رہے کہ بیٹ بنانے کا کام رفعت مسعودی کے سسرال میں ہوا کرتا تھا، ان کے سسر محترم نے 1970 میں اس کا آغاز کیا تھا تاہم کشمیر میں شورش کے بعد سے ان کا کاروبار بند سا پڑ گیا۔

اس کے بعد سن 1999 میں رفعت مسعودی نے دوبارہ اس پیشے کو تن تنہا شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابتداً ان کے گھر والوں نے اس کی مخالفت کی، لیکن جب کہ ان کے شوہر نے ان کا بھرپور تعاون کیا۔وہ خود کہتی ہیں اگر ان کے شوہر نے ان کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو ان کے لیے کام کو جاری رکھنا مشکل ہوجاتا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ ان کی عمر محض 21 برس تھی، ایک 21 برس کی خاتون کے لیے اتنے بڑے خواب دیکھنا کوئی معمولی بات نہیں تھی کیوں کہ ان کے گھر کا سماجی پس منظر خاتون کو کسی بھی حال میں کاروبار کی اجازت نہیں دیتا تھا۔

ہندوستان کے اندر کرکٹ کا کھیل کھیلا جاتا ہے، جس میں بیٹ کا استعمال ہوتا ہے۔ اس میں بیٹ کی بہت زیادہ کھپت ہوتی ہے۔ملک کے اعتبار سے اگرچہ رفعت کا بیٹ بنانے کا کارخانہ چھوٹا ہے تاہم وہ اس پیشے سے مطمئن ہیں کہ وہ سالانہ 15000 بیٹ تیار کر بازار میں بھیجتی ہیں۔

بیٹ بنانے کے لیے کشمیر کی مشہور ولو لکڑی( Willow wood) کا استعمال ہوتا ہے، جو ہلکی ہوتی ہے۔وہ اپنے بیٹ میں اسی لکڑی کا استعمال کرتی ہیں۔رفعت مسعودی کے بلا بنانے کے کارخانہ میں محدود افراد ہیں۔اگر کبھی آرڈرز کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو مزید لوگوں کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔

awazurdu

اس کے علاوہ ملک کے جس حصے کے خریدار نے بھی کشمیری بیٹ خریدنے میں دلچسپی دکھاتے ہیں، انھوں نے ان خریداروں تک بیٹ پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں یہ کام کرنا زیادہ مشکل ہے، کیوں کہ یہاں حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرنے والے لوگ زیادہ ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ ہمت ہارنے والی خاتون نہیں ہیں۔ ابتداً ان کے منصوبے کو ناپسند کیا گیا۔تاہم وہ مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرتی رہیں۔انھوں نے لوگوں سے کہا کہ کشمیر کو سیاحت، سیب، خوبانی کے ساتھ بیٹ کے کاروبار کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ کشمیری بیٹ ملک کے دیگر حصوں میں پہنچایا جاسکے۔رفعت کا کہنا ہے کہ یہ ایک جھوٹی بات ہے کہ کشمیری اس وقت پاکستان کی حمایت کرتے ہیں جب ہندوستان اور پاکستان کے مابین کرکٹ میچ جاری ہو۔ مجھے ہندوستانی کھلاڑی پسند ہیں۔ سن 2000 سے میں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا شروع کیا تھا۔اس وقت کے معروف کھلاڑیوں مثلاً راہل دراوڈ، سوربھ گنگولی اور ، سچن تنڈولکر نے بہت متاثر کیا تھا۔

ایسا نہیں ہے کہ رفعت مسعودی صرف اپنے کاروبار کو ہی ترجیح دیتی ہیں بلکہ وہ باضابطہ ایک گھریلو اور ذمہ دار خاتون بھی ہیں۔ وہ اپنے گھر کی تمام ذمہ داریاں ادا کرتی ہیں اور اس کے بعد اپنی فیکٹری میں جاکر کا کام جائزہ لیتی ہیں۔

رفعت مسعودی کا خواب ہے کہ وہ 'ٹیم انڈیا' کو اپنے بیٹ سے کھیلتا ہوا دیکھیں۔

اس کے علاوہ وہ چاہتی ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی 12 جی ایس ٹی میں چھوٹ دیں تاکہ وہ اور بہتر طریقے سے اپنے کاروبار کو کرسکیں۔

ایک خاتون کاروباری ہونے کے باوجود انھوں نے نامساعد حالات کے باوجود اپنے کام کو کرنے میں بہت کامیاب ہیں۔