فیضان:خون کا عطیہ کرنے کی مہم کا روح رواں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 31-05-2021
 خون عطیہ کرنے والوں کی ٹیم کے معمار ہیں نوجوان فیضان
خون عطیہ کرنے والوں کی ٹیم کے معمار ہیں نوجوان فیضان

 

 

  سراج انور / پٹنہ

جب ارادہ کچھ بڑا اور غیر معمولی کرنے کا ہو تو چھوٹی  عمر بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے- اس کے لئے جذبہ ، جنون اورلگن ہی کافی ہے ۔ کورونا کے اس مشکل ترین دور میں جب لوگ وبا کے خوف سے گھروں میں ہی قید ہیں ، جوش و جذبے سے لبریز ایسے متعدد مخلص نوجوان ہیں جو اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر دوسروں کی مدد کے لئے سرگرداں ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہیں بہار کے گیا شہر کے رہنے والے فیضان علی ۔

وہ ایک سماجی تنظیم کے بانی ہیں اور انہوں نے صرف 22 سال کی عمر میں بلڈ ڈونرز کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے۔ ان کی ٹیم کے 25 ممبران دن میں 24 گھنٹے خون عطیہ کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ٹیم ہندو اور مسلم رضاکاران پر مشتمل ہے۔

فیضان کی اس نیک شروعات نے ایک اور مفروضے کی نفی کی ہے۔ ان کی ٹیم میں شامل مسلمان لڑکیاں بلا جھجھک خون عطیہ کرنے میں پیش پیش ہیں۔ فیضان کی سماجی تنظیم ہیومن ہڈ کا موضوع ہی یہی ہے۔

جب بچانی ہو جان

تو کر آییں رکت دان

نام نہیں سکون ملتا ہے

کسی انجان کو جب خون ملتا ہے

دیجیے موقع اپنے خون کو کسی کی رگوں میں بہنے کا

یہی لاجواب طریقہ ہے کئی جسموں میں زندہ رہنے کا

فیضان نے اہل علاقہ میں ایسا احساس پیدا کیا کہ وپل سنہا ، انشول سنہا ، راہل کمار ، آکاش دیپ ، پرگیا ، منیشا ، زینب ، صدف ، نشاط ، نواب عالم ، سیفی خان ، حامد خان ، محمد عاقب ، سیف انور ، رومان احمد ، انشا رحمان ، رینا شاہ ، ادیتی بھردواج ، شبنم آرا ، امریتا نے خون کے عطیے کو اپنا ایمان بنا لیا ۔ ٹیم میں زیادہ تر کالج کے طالب علم ہیں۔ ہیومن ہڈ یہ کام سوشل میڈیا خود کے رابطوں کی بنیاد پر کررہا ہے۔

خون اور ہم آہنگی کا حسین امتزاج

حال ہی میں ہیومن ہڈ کو معلوم ہوا کہ پڑوسی ضلع جہان آباد کے ابھے شرما کو خون کی ضرورت ہے۔ فیضان نے ساتھیوں سے رابطہ کیا۔ سیفی خان خون عطیہ کرنے پر راضی ہوگئے - وہ ابھے شرما کو اپنا خون دے آئے۔ ابھے کینسر میں مبتلا ہیں۔

سیفی کہتے ہیں کہ موقع کبھی کبھی ہی دروازے پر دستک دیتا ہے لہذا کبھی بھی اسے ہاتھ سے جانے نہ دیں اور جب بھی موقع ملے خون کا عطیہ کریں۔ ہم سب اسی اصول کے تحت کام کرتے ہیں۔ فیضان کے مطابق ہماری ٹیم نے کورونا دور میں 24 افراد کو خون عطیہ کیا۔ وبا کے اس دور میں جہاں بلڈ بینکوں کو خون کی کمی کا سامنا ہے، بحیثیت ٹیم وہ اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ خون کی کمی سے کسی کی موت نہ ہو ۔

خون کا رنگ ایک ہے والی حکایت کو انسانی ہڈ سچ ثابت کر رہا ہے۔ الکا سنہا کو خون کی ضرورت آن پڑی تو نواب عالم آگے آے ۔ بنارس کی اوشا دیوی کو حامد خان نے خون عطیہ کیا ۔ نیرج کمار کو محمد عاقب نے خون عطیہ کیا ۔ یہ معاشرتی ہم آہنگی اور ہندو مسلم اتحاد کی ایک زندہ مثال ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ٹیم کی مسلم لڑکیوں کا جوش و خروش قابل تعریف ہے۔ وہ خود خون عطیہ کرنے آتی ہے۔ کچھ اپنے والدین کے ساتھ آتی ہیں۔ والدین بھی بچوں کے جذبات سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ وہ بھی خود کو خون عطیہ کرنے سے نہیں روک پاتے ۔

بزرگ لوگ بھی اس مہم میں شامل ہو رہے ہیں۔ جہانگیر خان پیشہ سے ایک بس ڈرائیور ہیں ۔ عمر 45 سال۔ ان کی زندہ دلی اور ہمت کو داد دینی چاہئے۔ جب انہیں یہ پتہ چلا کہ ایک مریض محمد گڈو کو ایک یونٹ خون کی ضرورت ہے۔ ان کا سرجیکل آپریشن ہونا ہے۔ جہانگیر خان خون دینے پر راضی ہوگئے۔

شیرگھاٹی ہمجا پور سے تعلق رکھنے والی تانیہ خان نامی مریض کو خون بہنے کی وجہ سے 4 یونٹ خون کی ضرورت تھی ۔ اعظم خان ، سمیر خان ، انور عالم اور صبا خان نے اس کی ضرورت کو پورا کیا۔ خون کا عطیہ دینے والے ہیومن ہڈ کا کہنا ہے کہ میں 100 سال زندہ رہوں یا نہ رہوں، لیکن میں اپنی زندگی کے سفر میں 100 بار خون عطیہ کرکے ہزاروں دلوں میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کے خون کے عطیہ سے خون پانے والوں میں کبھی کوئی آپ کا قریبی رشتہ دار ، دوست یا آپ خود بھی ہوسکتے ہیں ۔ خون عطیہ کریں اور ہمیشہ کسی کے چہرے کی مسکراہٹ بن کر زندہ رہیں ۔

ادارے کے قیام کا مقصد

فیضان ابتدائی عمر سے ہی بزرگوں کی صحبت اور سماجی سرگرمیوں سے وابستہ رہے ہیں ۔ فیضان نے آواز دی وائس کو بتایا کہ بچپن سے ہی میرے اندر معاشرے اور انسانیت کی خدمت کے لئے جنون ہے ۔ اس سوچ کی عملی تعبیر کے طور پر 2017 میں ہیومن ہڈ آرگنائزیشن کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت ا ن کی عمر 18 سال تھی۔ ایک سال بعد 2018 میں انہوں نے پہلی بار خون کے عطیہ کے کیمپ کا انعقاد کیا۔ یہ بہت ہی دلچسپ تھا۔ اس وقت ان کی ٹیم میں صرف کالج کے چند دوست ہی شامل تھے۔ پھر کارواں تشکیل پایا۔ آج ایک بڑی ٹیم اس کام میں سرگرم عمل ہے۔

ان کی تنظیم غریبوں میں کپڑے بھی بانٹتی ہے۔ رضاکار لوگوں سے پرانے کپڑے جمع کرتے ہیں اور ضرورت مندوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ یہ تنظیم امدادی کام بھی کرتی ہے۔ کیرالہ میں سیلاب کے دوران ٹیم امدادی کام انجام دینے کلے لئے وہاں پہنچی ۔ ٹیم ممبران نے کوو ڈ کے مریضوں کو پلازما بھی عطیہ کیا ۔ خون کے عطیے کے مشن کو بہار سے باہر پورے ملک میں کی کوشش ہے۔ دہلی ، وارانسی ، لکھنؤ کے ساتھیوں کو بھی مہم میں شامل کیا جا رہا ہے۔

فیضان نے بتایا کہ دہلی میں ایک شخص کو خون کی ضرورت تھی ، وہاں کے ایک ساتھی سے رابطہ کیا گیا اور خون کا بندوبست کر دیا گیا ۔

فیضان کون ہیں ؟

بائیس سالہ فیضان گیا کے رہائشی ہیں ۔ بیچلر آف بزنس مینجمنٹ (بی بی ایم) کے طالب علم کے والد گذشتہ ماہ 26 اپریل کو انتقال کر گئے ۔ فیضان اس دوران روزے کی حالت میں بھی کو وڈ کے مریضوں کو آکسیجن سلنڈر فراہم کرنے میں مصروف تھے ۔

دوسرے کی جان بچانے کے دوران ہی انہیں اپنے والد کے انتقال کے بارے میں معلوم ہوا۔ اہل خانہ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ گیا لیکن فیضان نے ہمت نہیں ہاری ۔ بہت سے اداروں نے ان کے نوجوان ساتھیوں کو معاشرے کی خدمت کرنے پر انعامات سے بھی نوازا ہے۔